سوال : (۱) موجودہ دور میں مستورات کی دینی تربیت کی کوئی خاص تجویز بتائیںکیونکہ موجودہ دور میں وہ مسجد نہیں جاتیں۔گھروں میں بھی تربیت کا کوئی خاص نظام نہیںاور مدرسہ بھیجنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کئی مقامات پر درسگاہ تو ہوتے ہیں لیکن کوئی مقامی معلمہ نہیں ہوتی۔
سوال:(۲) امام صاحب کا وضو ٹوٹ گیا،اگر وہ جہری نماز پڑھا رہا ہے اور سورت پڑھ رہا ہے ،اب جو مقتدی اس کی جگہ آئے گا ،اگر وہ سورت اُس کو یاد نہیں ہوگی تو وہ کیا کرےگا،اسی طرح اگر امام صاحب سری نماز پڑھا رہا ہو تو وہ کیا کرےگا؟
محمد شفیع ۔۔۔سوپور
جواب۔۱ :خواتین کی دینی تربیت و تعلیم اُمت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اس میں غفلت برتنے کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیںاور آئندہ بھی زیادہ بُرے نتائج سامنے آنا ممکن ہیں۔بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی پہلی ذمہ داری والدین کی ہے۔وہ جس طرح اپنی بچیوں کی عصری تعلیم کے لئےسخت فکر مند ہوتے ہیں اور اچھے سے اچھے سکولوں میں پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،اُسی طرح جب دینی تعلیم و تربیت کے لئے فکر مند ہونگےتو ضرور اس اہم ضرورت کا حل بھی نکلے گا ۔پہلا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں دین کی بنیادی تعلیم کا انتظام کریں،چاہے گھر کی کوئی خاتون پڑھائے یا پڑھانے والا باہر سےآئے،مگروہ محرم ہو۔دوسرے ہر محلہ میں مکتب قائم کئے جائیںاور یہ محلے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کیلئے دو مکاتب قائم کریں۔طلبا کے لئے الگ اور طالبات کے لئے الگ۔پھر طالبات کے لئے معلمات کا انتظام کرنا پورے محلے والوں کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسجد کی انتظامیہ ہی مکتب کا انتظام سنبھالے،یا محلے میںالگ سے مکتب کی انتظامیہ کھڑی کی جائے۔وہ جگہ ،معلم اور معلمہ کا انتظام کرے۔معلم اور معلمہ کا تقرر ،تنخواہ اور معائنہ اس کی ذمہ داری ہوگی۔اگر یہ نہ ہو تو ہر باپ اپنی بیٹی ،ہر بھائی اپنی بہن اور ہر شوہر اپنی زوجہ کے لئے کسی دیندار ،قابل اور تجربہ کار خاتون سے آن لائن پڑھانے کا انتظام کرےاور ویب سائٹوں پر جو معتبر ،مستند اور مکمل دیندار خواتین بچیوں کے پڑھانے کا کام کرتی ہیں ،اُن سے استفادہ کیا جائے۔ایسی ویب سائٹس جن کے ذریعے درست قرأت ،ضروری مسائل اور خواتین کی تربیت سے متعلق امورتفصیل سے بتائے جاتے ہیں اور دینی ذہن بنایا جاتا ہے،اُن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ساتھ ہی بچیوں کی تربیت کے متعلق ضروری ہے کہ کم از کم تین چیزوں سے سخت پرہیز کرائیں،ہر نامحرم لڑکے سے دوری قائم رکھنا چاہئے ،وہ ماموں زاد ،خالہ زاد ،پھوپھی زاد ،چاچا زاد ہی کیوں نہ ہو۔دوسرے موبائیل کے غلط استعمال سے دور رکھنا ،تیسرے فلموں ،ڈاموں سے دور رکھنا اور بے دین خواتین سے دور رکھنا ۔ان امور کے اپنانے سے امید ہی نہیں یقین ہے کہ خواتین خصوصاً بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کام مفید ہوگا ۔
دوران ِ نماز امام کا وضو ٹوٹ جائے تو۔۔۔۔؟
جواب : ۲۔امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ مقتدی حضرات میں جو مناسب تر شخص ہو ،اُسی کو اپنا نائب بنائے،پھر یہ نائب آگے کی نماز پڑھائے۔اگر سورہ فاتحہ کے بعد اتنی قرأت ہوچکی ہو ،جس سے نماز درست ہوجاتی ہے ،جس میں تین چھوٹی آیات ہوں تو اب یہ نائب آگے رکوع کرے،اگر اتنی قرأت نہ ہوئی ہو تو پھر اس کو اختیار ہے کہ جو سورت پڑھنا چاہے اُسے اختیار ہے۔کوئی مقررہ سورت لازم نہیںاور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جو سورت امام صاحب پڑھ رہے تھےوہی سورت یہ بھی پڑھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :مقروض کس صورت میں زکوٰۃ لینے کا مستحق بن سکتا ہے؟
محمد رفیق ۔بارہمولہ کشمیر
کیا مقروض زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے؟
جواب :جو شخص مقروض ہو اور اُس کے پاس الگ سے اتنی رقم نہ ہو کہ وہ قرض ادا کرسکے ،نہ اُس کے پاس سونا چاندی اتنا ہو کہ وہ قرض کی رقم منہا کرکے صاحب نصاب ہو ،تو اس شخص کو زکوٰۃ لینے کی اجازت ہے۔اگر کسی کے پاس قرض کی مقدار کم کرنے کے بعد بقیہ رقم اتنی ہو ،تو اُس کو زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔اسی طرح اگر کسی کے پاس رقم تو نہ ہومگر گاڑی ،اسکوٹر ،مہنگا سیل فون ،قالین وغیرہ مہنگی اشیا ہوں تو اُس کو بھی زکوٰۃ لینا صرف اس وجہ سے جائز نہیں کہ اُس پر قرضہ ہے۔اگر کسی کا اچھا ذریعہ ہو تو صرف بنک کے قرض کی بنا پر اس شخص کو زکواۃ لینا جائز نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :سردیوں کا موسم آرہا ہے اورسردیوں کے موسم میں لوگ گرم ٹوپیاں پہننے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،ان گرم ٹوپیوں کو پہن کر نماز یںپڑھی جاتی ہیں۔یہ گرم ٹوپیاں کبھی پیشانی پر بھی ہوتی ہیں اور اُسی طرح سجدہ بھی کیا جاتا ہے ۔کبھی انسان کی پیشانی زمین پر نہیں ہوتی۔سجدہ ٹوپیوں پر ہوتا ہے ۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ کہ جب نمازی اپنا سَر زمین پر رکھتا ہے توپیشانی کے بجائے زمین پر ٹوپی ٹک جاتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اس سے نماز میں کوئی کراہت تو نہیں آتی ۔آج کل اس مسئلہ کی شدت سے ضرورت ہے اور بعض جگہ اس پر بحث و گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔
عبدالعزیز ۔۔۔گریز
موسم سرما میں سردی سے بچنے کا اہتمام
سجدے میں ماتھے کے بجائے ٹوپی زمین سے لگے تو کوئی کراہت نہیں
جواب:سَر پر اس طرح ٹوپی ہو کہ نمازی کی پیشانی بھی اس میں ڈھک چکی ہو اور اسی طرح نماز پڑھی جائے اور زمین پر پیشانی نہیں بلکہ ٹوپی چھونے لگے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت نہیں ہوتی۔ایسی ضرورت عموماً تین صورتوں میں پیش آتی ہے۔سجدہ کرنے کی جگہ سخت سرد ہو اور پیشانی کو اُس پر ٹیکنا سخت مشکل ہو ،جیسے یہاں پہاڑی مقامات پر لوگ زمینوں ،ندی نالوں ،پہاڑی چٹانوں پر نمازیں پڑھتے ہیں تو وہ چٹانیں سخت ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔دوسرے سخت گرم علاقوں میں سجدہ گاہ سخت گرم ہوتی ہے،خصوصاً جب مسجد کے نیچے ماربل یا دوسرے پتھر ہوں ،جیسے مغل دور کی بے شمار بڑی مساجد مثلاً جامع مسجد دہلی ،تاج المساجد بھوپال ،شاہی مسجد لاہور ،کہ اُن میں فرش سنگِ سرخ کا ہے۔یہ گرمیوں میں سخت گرم ہوتا ،اس پر سجدہ کرنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اسی طرح ریگستانوں میں گرم ریت پر نماز پڑھتے ہوئے گرم ریت پر سجدہ کرنا ایسا ہوتا ہے جیسے چنگاری پر سر رکھ دیا ہو۔تیسرے جب موسم سخت سرد بلکہ منفی درجہ حرارت ہو اور پیشانی کھُلا رکھنے پر سر درد یا زکام کا خدشہ ہو ۔ایسی حالت میں پیشانی پر ٹوپی رکھ کر نماز پڑھنی پڑتی ہے ،اس سے نماز میں کوئی کراہت نہیں آتی۔حضرات صحابہ ؓ تو گرم زمین پر سجدہ کرتے ہوئے اپنی آستیں پیشانی کے نیچے رکھ لیتے تھے تاکہ پیشانی کو گرمی کی شدت سے بچائیں۔اسی طرح یہاں کشمیر میں سردی کی شدت سے پیشانی ڈھکنے کی جس کو ضرورت ہو وہ اگر ٹوپی پیشانی پر رکھے تو کوئی کراہت نہ ہوگی۔فقہ حنفی کی معروف کتاب مراقی الفلاح میں یہ مسئلہ اسی طرح ہے تاہم مساجد میں عموماً فرش گرم ہوتا ہے ،کارپٹ کی صفیں ہوتی ہیں نہ کہ ٹھنڈی چٹائیاں یا خالص ماربل ،اس لئے پیشانی ڈھکنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا وضو سے پہلے استجا کرنا ضروری ہے ۔اس مسئلے کی وجہ سے کشمیر میں بہت کنفوژن ہے۔برائے کرم وضاحت فرمائیں۔
سجاد احمد ۔۔۔بانڈی پورہ
وضو اور استنجاءکی ضرورت
جواب : وضو سے پہلے استنجاءصرف دو صورتوں میں ہے اور وہ یہ کہ اگر کسی نے پیشاب کیا یا بیت الخلا کی ضرورت پوری کی ہو تو ان دو صورتوں میں پہلے استنجاءکرنا ضروری ہے ،پھر وضو کرنا ہوگا ۔اگر ان دو صورتوں کے علاوہ کسی اور وجہ سے وضوٹوٹ گیا ہو ،مثلاً ہَوا خارج ہوگئی یا نیند پڑگئی ہو،تو ان صورتوں میں صرف وضو کرنا ہوگا ،استنجاءکرنے کی ضرورت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا راستے میں پڑی ہوئی کوئی تکلیف دہ چیز جیسے کیل،میخ اُٹھانا اور پھر اسے اپنے لئے استعمال کرنا درست ہے؟ یا اسے کہیں پھینک دینا بہتر ہے؟
راستے میں اُٹھائی ہوئی چیز کا استعمال
جواب :راستے میں گری پڑی چیز اگر قابل استعمال اور قابل استفادہ ہو تو پھر ضائع کرنا درست نہیں،بلکہ استعمال کرنا بہتر ہے۔اب اگر کسی غریب شخص کو دے دی جائےتو بہت بہتر ،اور اگر خود اپنے استعمال میں لائے تو یہ بھی بہتر ہے تاکہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ساتھ ہی یہ نیت کرے کہ جس کی یہ چیز ہے اُسے اس کا ثواب مل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔کئی مساجد میں عشاء کی نماز اپنے اصل وقت سے پندرہ بیس منٹ پہلے ادا کی جاتی ۔ کیا ہم اس جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں یا پڑ ھ کراپنے گھر میں الگ جماعت قائم کرکے نماز ادا کریں۔ جواب عنایت فرمائیں؟
ایک سائل
غروبِ شفق سے پہلے عشاء درست نہیں
جواب:۔ نماز عشاء میقات الصلواۃ میں دکھائے گئے وقت سے پہلے پڑھنا درست نہیں ہے۔ ہاں صرف دس پندرہ منٹ پہلے اذان پڑھی جائے اور اس کے ساتھ ہی نماز بھی پڑھی جاتے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز پڑھنے والے پر لازم ہے کہ صحیح وقت پر نماز پڑھے، اور صرف چند منٹ کی وجہ سے اپنی نماز خراب نہ کرے ۔اگر نماز مغرب غروب آفتاب سے پہلے پڑھی جائے تو یقیناً وہ درست نہیں۔ اسی طرح نماز ِ عشاء اگر غروب شفق سے پہلے پڑھی جائے تو وہ درست نہ ہوگی۔غروب شفق سے وقت عشاء احادیث سے ثابت ہے۔ اس کا وقت میقات الصلوۃ وغیرہ مستند تقویم ( کلینڈر) سے معلوم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔