سوال:آج کل یہاں ایک اہم مسئلہ بے شمار علاقوں میں موضوع بحث ہے،اور وہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں بہت ساری مساجد کاہچرئی ،جنگلات ،شاملات وغیرہ میں بنی ہوئی ہیں ۔عرصۂ طویل سے اُن میں نمازیں ادا ہورہی ہیں۔اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان مساجد میں نمازیں درست ہیں۔جبکہ اُن مساجد کے نیچے جو زمین ہے وہ باقاعدہ مسجد کے نام الاٹ نہیں ہے۔امید ہے کہ اس اہم سوال کا جواب تحریر کریں گے۔
محمد افضل
کاہچرائی پر تعمیر شدہ مساجد میں ادائیگی نماز
چند اہم مسائل
جواب:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے دیگر انبیاء کرام ؑپر پانچ چیزوں میں فضیلت د ی گئی ہے ۔اُن میں سے ایک یہ کہ یہ تمام روئے زمین میرےلئے مسجد بنادی گئی ہے۔ایک حدیث میں فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں تمام انبیاء پر فضیلت اور برتری عطا کی گئی ہے۔اُن میں سے ایک یہی ہے کہ تمام زمین آپؐ کے لئے مسجد بنادی گئی ہے۔یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے۔ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ روئے زمین تمام کی تمام مسجد ہے۔ان احادیث کی بنا پر اسلامی اصول یہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی نماز پڑھے گا ،اُس کی نماز یقیناً ادا ہوگی،ہاں اگر کسی فرد کی زمین غصب کی گئی اور وہ شخص اُس مغصوبہ زمین پرنماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ دیتا ہو تو اُس قطعہ میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔باقی ہر جگہ نماز درست ہے۔اس لئے کھیتوں ،باغوں،پارکوں ،پہاڑوں ،کھلے میدانوں ،ائر پورٹوں ،دفتروں ،ریلوے اسٹیشن ،بس اڑے ،گھروں ،سڑکوں کے کناروں ،دکانوں ،سکولوں میں غرض ہر جگہ نماز درست ہے تو جیسے یہ نمازیں درست ہیں،اسی طرح اُن تمام مساجد میں نماز یقیناً درست ہے جو مساجد کاہچرائی ،جنگلات ،آبادی دیہہ،شاملات ،نزول وغیرہ کی زمینوں میں بنائی گئی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا مسئلہ بھی اسی سے جُڑا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا ان کو شرعی مساجد کہہ سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر اُس مسجد کے تمام متعلقہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اُس مسجد کے متعلق ضروری تفصیلات کسی مستند اور ماہر مفتی کو پیش کرکے یہ فیصلہ کرائیں کہ نماز اگرچہ درست ہے مگر اس مسجد کو شرعی مسجد بنانے کے لئے ہم کو کیا اصول و ضوابط پورے کرنے ہیں اور یہ بات اہمیت سے ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس مسجد کو شہید کرنا بھی درست نہیں ہےجس کی زمین درج بالا اقسام میں سے کوئی قسم کی ہواور اخیر میں اس مسجد کو شہید کئے بغیر اس کے نیچے کے قطعہ زمین کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر معاوضہ ادا کرنا پڑے ،چاہے بصورت زمین متبادل دیا جائے یا بصورت رقوم مناسب قیمت دی جائے تو مسجد کے منتظمین کو عام مسلمانوں کے تعاون سے یہ کرنا لازم ہوگا۔مسجد شہید کرنا اس لئے درست نہیں کہ یہ سوال صرف زمین کے متعلق ہے ۔اُس کے اوپر جو تعمیر ہے وہ عام مسلمانوں کے مالی تعاون سے ہے،اور اس کو ضائع کرنا ہرگز درست نہیں۔یعنی مسجد شہید کرکے تعمیر پر خرچ شدہ لاکھوں کی رقوم کو ضائع کرنے کے بجائے زمین میں لانے کا حکم ہے۔خلاصہ یہ کہ ان مساجد میں نماز درست ہے نیز ان کو شرعی مساجد بنانے کے لئے ضروری ضابطۂ کی کاروائی لازم ہےاور شہید کرنے کے بجائے زمین کو مسجد کے نام اندراج کرانے کے اقدامات بھی ضروری ہےاور یہ ذمہ داری مسجد کی انتظامیہ اور عام مسلمانوں کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال (ا) : کیا بیت المال کے پیسوں سے بستی کا کوئی کام کرسکتے ہیں،مثلاً پانی کے پائپ لگانا یا بجلی ٹرانسفارمر کی مرمت وغیرہ۔
سوال(۲) : اسپتال میں ایمرجنسی ڈیوٹی کی وجہ سے جمعہ نماز یا عید نماز ادا نہ ہوسکی تو کیا کریں؟
سوال(۳) : چار رکعت والی نماز میں اگر غلطی سے پہلی یا تیسری رکعت میں قعدہ (التحیات) کے لئے بیٹھ گئے تو نماز کا کیا حکم ہے،کیا سجدہ سہَو کرنا ہے۔
منیب احمد۔ پٹن
بیت المال میں جمع شدہ رقوم کا مصرف
جواب(ا) : بیت المال میں جمع ہونے والا مالی سرمایہ غرباء ،مساکین کی امداد کے لئے جمع ہوتا ہے ،اُس مال کو رفاحی کاموں میں خرچ کرنا درست نہیں۔اسی لئے سڑکوں کی تعمیر ،اسپتالوں کی مرمت ،بجلی کے کھمبوں وغیرہ کسی بھی رفاحِ عام کے کام میں بیت المال کی رقوم خرچ کرنا درست نہیں ہے۔
اگر کسی جگہ ایسی ضرورت ہو ،مثلاً ٹرانسفارمر ،بجلی کے کھمبے ،پانی کے پائپ لائن وغیرہ تو بیت المال کے ذمہ داران اس غرض کے لئے الگ سے مالی تعاون فراہم کریں ،یعنی اس نام سے چندہ کریں پھر یہ ضرورت پوری کریں۔
ترکِ جمعہ پر نبی پاک ؐ کی وعید
جواب(۲) : ایک مسلمان کے لئے جیسے اپنی ملازمت کی مفوضہ ڈیوٹی ادا کرنا ضروری ہے ،اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی لازم کردہ ڈیوٹی یعنی فرض نماز ادا کرنا ضروری ہے۔لہٰذا نماز چاہےوہ پنچ وقتہ نماز ہو یا نماز جمعہ ،اس کے لئے ضروری ہے کہ شفٹ کرکے نماز ادا کریں۔ترک جمعہ پر جو وعید ہے ،وہ ملحوظ رکھیں ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جو شخص جان بوجھ کر تین جمعہ ترک کرے گا ،اللہ اُس کے دل پر مہر مار دیں گے ،(موطا مالک)دوسری حدیث میں جو شخص بغیر عذر کے تین جمعہ چھوڑ دے ،وہ منافق ہے(صحیح ابن حبانؒ)
تیسری رکعت میں تشہد پڑھنے پر سجدۂ سہَو لازم
جواب(۳) : جس شخص نے بھول کر پہلی یا تیسری رکعت میں تشہد پڑا ،اُس کو اخیر میں سجدۂ سہَو کرنا ضروری ہے۔اگر کوئی شخص صرف بیٹھ گیا اور اتنی دیر بیٹھا جتنی دیر جلسۂ استراحت ہوتا ہے تو پھر صرف بیٹھنے پر سجدہ سہَو نہ ہوگا ۔اس لئے کہ جلسۂ استراحت بھی احادیث سے ثابت ہے۔ہاں جب التحیات مکمل یا کچھ حصہ پڑھے تو سجدہ سہَو لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا باجماعت نماز نہ پڑھنے سے انسان فاسق و فاجر ہوجاتا ہے؟
فیضان منظور ۔بارہمولہ
بلاعذر باجماعت میں شرکت نہ کرنا سخت گناہ
جواب :نماز باجماعت پڑھنے کی قرآن و حدیث میں سخت تاکید ہے ۔قرآن کریم میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :ترجمہ۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔حدیث میں ہے ۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرا دِل چاہتا ہے ،اُن لوگوں کے گھروں کو آگ لگادوں جو بلا عذر اپنے گھروں میںنماز پڑھتے ہیں۔یہ حدیث بخاری ،مسلم ، ترمذی وغیرہ حدیث کی کتابوں میں ہے۔اس کے علاوہ اور بہت ساری احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنےکی سخت تاکید ہے۔اس لئے بلا عذر و مجبوری کے ترک جماعت کرنا سخت گناہ ہے۔ملاخطہ فرمایئے ،فضائل نماز۔ از شیخ الحدیث حضرت مولانا ذکریا ؒ،یا اس سے بڑی حدیث کی کتابیں ،جن میں نماز با جماعت کے فضائل اور ترکِ جماعت پر سخت وعید یں بیا ن ہوئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:مرغا یا بکرا ذبح کرنے میں کیا کیا سنت ،فرض واجب ہے؟
بشیراحمد ۔چاڈورہ
ذبیحہ کے فرائض ،سنتیں اور واجب
جواب:حلال جانور چاہے مُرغا ہو یا بھیڑ بکری وغیرہ ،ان کوشرعی طور پر ذبح کرنے کے لئے دو چیز فرض ہیں،تکبیر یعنی اللہ کا نام لے کر جانورذبح کرنا ،اور دوسرا جانور کی چار رگیں کاٹ دینا،یہ دوسرا فرض ہے۔تاہم ذبح کرتے ہوئے اگر صرف تین رگیں کٹ گئیں اور جانور مرگیا توبھی جانور حلال ہے ،اور اگر صرف دو رگیں کٹیں اور جانور مرگیا تو جانور مردار ہوگیا ۔اب یہ کتے بلیوں کو کھلادیا جائے۔اس کے علاوہ چھُری تیز رکھنا ،قبلہ رُخ ذبح کرنا ،با وضو ذبح کرنا سنت اور آداب میں سے ہے۔ جانورذبح کرنے والا قصائی ہو یا پولٹری کے مُرغےذبح کرنے والے مرغ فروش ،اُن کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو حرام یا مُردار نہیں کھِلائیں گے۔ اس لئے ذبح کا اسلامی طریقہ سیکھنا اُن کے لئے ضروری ہے ،پھر اپنی روزی کمانے کا ذریعہ اس عمل کو بنائیں تو اس سے برکت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :عرض ہے کہ لڑکا اپنے والد سے علاحدہ رہائش پذیر ہے ۔شادی شدہ ہے اور سرکاری ملازم ہے ۔کیا اس کو اپنے والد کی طرف خرچہ وغیرہ دینے کا حق ہے یا نہیں؟
اے ایم خان ۔ لولاب
اولاد پر والدین کی ذمہ داری
جواب:اسلام نے نہ تو یہ حکم دیا ہے کہ اولاد والدین سے الگ رہائش کرے اور نہ یہ حکم دیا ہے کہ والدین ہی کے ساتھ رہے۔ہاں ہر حال میں حکم یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے،مالی مدد کرے،مزاج پُرسی کرے،خبرگیری کرے اور ہر طرح اُن کو خوش رکھنے اور راحت پہنچانےکا مکمل پابند رہے۔
اگر والدین مالی طور پر آسودہ حال ہوں اور بیٹے کے مالی تعاون کی ضرورت اُن کو نہ ہو تو پھر اولاد کے ذمہ اُن کا خرچہ لازم نہیں۔ہاں اُن کو خوش رکھنے کے لئے کبھی کھانے پینے کی چیزیں ،کبھی پھل ،کبھی دوائی ،کبھی کپڑا لاتا رہے۔اور اگر وہ مالی مدد کےضرورت مندہوں تو بیٹے پر والدین کا تمام خرچہ لازم ہےاور یہ ایسے ہی لازم ہے جیسے بیٹے پر اپنی اولاد اور زوجہ کا خرچہ لازم ہے۔بلکہ اگر والدین مفلوک الحال ہوں تو اُن کا خرچہ پہلے لازم ہوگا،بعد میں اپنی اولاد کا۔