حاملہ اور زچہ پر آنے والےاخراجات
ذمہ داری کس کی
سوال:۱حاملہ خاتون کی خبرگیری،اُس پر دورانِ حمل آنے والے اخراجات اور ضع حمل یا سرجری (Surgery) کا خرچہ کس کے ذمہ ہے ۔ سسرال والوں کے ذمہ یا میکے والوں کے ؟
سوال:۲-کشمیر میں یہ رواج ہے کہ وضع حمل کے بعد بچہ جننے والی خاتون ایک طویل عرصہ ، جو مہینوں پر اور بعض اوقات ایک سال پر مشتمل ہوتاہے ، میکے میں گزارتی ہے۔ شوہر چاہتاہے کہ اس کی بیوی اور بچہ گھرآئیں مگر میکے والے نہیں مانتے ۔ کبھی زوجہ بھی چاہتی ہے کہ وہ اپنے سسرال جائے مگر اُس کے والدین ہمدردی کے جذبہ میں اُس کے جذبات واحساسات کی پروا نہیں کرتے اوربعض صورتوں میں میکے والے زچہ بچہ کو اپنے سسرال بھیجنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں مگر سسرال والے ٹس سے مس نہیں ہوتے اور وہ خوش اور مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی بہو اور بچہ مفت میں پل رہا ہے ۔
اس صورتحال میں اسلام کا نظام کیا ہے ؟ کیا کرناچاہئے اور کیا بہتر ہے؟
سوال:۳ خواتین کوماہانہ عذراور وضع حمل کے بعد جو عذر کے ایام ہوتے ہیں ، اُن ایام کے متعلق اسلامی حکم کیا ہے ؟نماز ، تلاوت قرآن ،تسبیحات اوراد ، وظائف ، دعا ،درودشریف ۔دینی کتابوں کا مطالعہ ان میں سے کیا کیا کام اسلامی شریعت میں جائز ہیں۔
سید محمد ہلال ہاشمی۔مقیم حال : جموں
جواب:۱شریعت اسلامیہ کے اصولی احکام میں سے ایک ضابطہ یہ ہے :الخراج بالضمان ۔اس کامفہوم یہ ہے کہ جو پھل کھائے وہی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ۔ اس اصول سے سینکڑوں مسائل حل ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل ایک حدیث کاحصہ ہے او ربعد میں اسی کوفقہی ضابطہ کے طور پر بے شمار مسائل حل کرنے کی اساس بنایا گیا ۔ اس کی روشنی میں غورکیجئے۔ نکاح کے نتیجے میں شوہر اپنی زوجہ سے کیا کیا فائدہ اٹھاتاہے ۔ اس کی طرف سے خدمت ، گھرکی حفاظت ،فطری ضرورت کی جائز اور شرعی دائرے میں تکمیل اور تسکین اور عصمت کی حفاظت کے بعد اولاجیسی عظیم نعمت کا حصول ! یہ سب زوجہ کے ذریعہ سے ملنے والی نعمتیں ہیں ۔
اب جس ذات سے اتنے فائدے اٹھائے جارہے ہیں اُس کے تمام ضروری تقاضے او رضرورتیں پورا کرنا بھی لازم ہوںگے ۔شریعت میں اس کونفقہ کہتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ نے جس طرح اولاد کا نفقہ وپرورش باپ پر لازم کیا ہے اسی طرح زوجہ کا نفقہ بھی شوہر پرلازم کیاہے ۔لہٰذا حمل کے دوران اور وضع حمل کا خرچہ بھی شوہر پر ہی لازم ہے ۔ زوجہ کے میکے والے اپنی خوشی سے اگر اپنی بیٹی پر کچھ خرچ کریں تو وہ اُن کی طرف سے صلہ رحمی اور احسان ہے لیکن اصل ذمہ داری بہرحال شوہر کی ہے ۔ اخلاقی طور پر یہ غیرت اورعزتِ نفس کے بھی خلاف ہے کہ کوئی انسان یہ خواہش رکھے کہ میری بیوی کے حمل اور بچے کی پیدائش کا خرچہ کوئی اور اٹھائے اور میں صرف نفع اٹھائوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:۲وضع حمل کے وقت اگرخاتون اپنے میکے میں ہو تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ۔اس لئے عام طورپر زچہ (وہ عورت جو ڈیلیوری سے گذری ہو)کومیکے میں نسبتاً زیادہ راحت اور خدمت ملتی ہے اور وہ ہمارے معاشرے میں بھی اس کو بہتر سمجھاتاہے لیکن یہ وقفہ اتنا طویل نہ ہوناچاہئے کہ شوہر کو ناگواری ہونے لگے ۔ اس لئے ایامِ نفاس، جو عام طور پر مہینہ بھر اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہوتے ہیں، جونہی گذرجائیں تو عورت کو اپنے سسرال جانے کے لئے ذہناًتیاررہناچاہئے ۔ ہاں اگر دونوں طرف یعنی عورت کے میکے اور سسرال والے خوشی سے میکے میں رکھنے پر مزید رضامند ہوں تو حرج نہیں ۔ دراصل اس معاملے میں شوہر کی رضامندی مقدم ہے لیکن نہ تو شوہر کی یہ خواہش پسندیدہ ہے کہ یہ سارا بوجھ عورت کے میکے والوں پر رہے اور نہ چاہتے ہوئے اس بوجھ کو اٹھانے پر وہ مجبور کئے جائیں اور وہ زبان سے بھی اس کا اظہار نہ کرپائیں اور نہ ہی میکے والوں کے لئے یہ بہتر ہے کہ وہ اصرار سے زچہ بچہ کو روکے رکھیں اور شوہر کے مطالبہ واصرار کے باوجود شوہر خانہ بھیجنے میں رکاوٹ ڈالیں ۔ اس کے لئے وسعت ظرفی دوسرے کے حقوق کی رعایت اور اپنی چاہت سے زیادہ دوسرے کی دل آزاری سے بچنے کا مزاج اپنانا چاہئے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ زچہ بچہ کی صحت اور راحت کا ویسا ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ خیال کرناضروری ہے ، جتنا میکے میں ہوتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:۳خواتین کو ماہانہ پیش آنے والے عذر کو حیض اور وضع حمل کے بعد پیش آنے والے عذر کو نفاس کہتے ہیں ۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طورپر ناپاک ہونے کی حالتیں ہیں ۔ ان دونوں قسم کے اعذار میں نماز تو معاف ہے اور اِن نمازوں کی قضا بھی لازم نہیں ۔ روزے تو اس عذر کی حالت میں رکھنادُرست نہیں البتہ ان روزوں کی بعد میں قضالازم ہے ۔ تلاوت بھی جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تسبیح ، درودشریف ، دعائیں ، وظائف ، دینی کتابوں کا مطالعہ حتیٰ کہ تفسیر اور حدیث کا مطالعہ کرنے کی اجازت ہے بلکہ شوق کے ساتھ اس پر عمل کرنا چاہئے ۔یعنی نمازوں کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے اور مزاج میں عبادت کا ذوق زندہ رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ نماز کے اوقات میں تازہ وضو کرکے جائے نماز پر بیٹھ کرتسبیح ،تہلیل ،استغفاراور درودشریف اور دعائیں کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
حیض ونفاس کی حالت میں شوہر سے ہمبسترہوکر جماع کرنا سخت حرام ہے ۔اس سے بھی اجتناب کرنے کا پورا اہتمام کرنا چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱ کسی شخص کے فوت ہونے پر بیوہ کا اس کے جائیداد میں کتنا حصہ شرعی دینا لازمی ہے ۔ عموماً مشاہدے میں آیا ہے کہ بیوہ کو جوحصہ اداکیاجاتاہے وہ اس شرط پر اداکیاجاتاہے کہ اگر اس نے دوسری شادی کی تو وہ اس حق سے محروم ہوجائے گی ۔ اس لئے عوام میں بھی اس کو تاحیات سمجھا جاتاہے ۔ محکمہ مال میں بھی بیوہ کے نام کے ساتھ لفظ ’’تاحیات تانکاح ثانی‘‘ اندراج کیاجاتاہے ، یہ کس حد تک درست ہے ؟
سوال:۲دوئم یہ کہ منتقلی جائیداد کے وقت بیٹے اور بیٹیوں کو سراجلاس بلا کر انتقالِ وراثت تصدیق کیا جاتاہے ۔یہاں پر بھی بیٹیاں اکثر اپنے براداران کے حق میں جائیداد سے دستبردار ہوجاتی ہیں جب کہ وہ ابھی جائیداد کی مالک ہی نہیں ہوتی اور ’’بخش دیتے ہیں ‘‘کا جملہ استعمال کیاجاتاہے ۔ بعض اوقات بیٹیوںکویہ کہہ کرمجبور کیا جاتاہے کہ آپ کو اپنے میکے میں یعنی بھائیوں کے پاس آنا جانا ہے اگر آپ نے حصہ لے لیا تو میکے میں آمد ورفت سے دستبردار ہوناہوگا اور اسی عوامی ذہنیت کی بناء پر بیٹیاں بھی سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے حصہ لے لیا تو ہم نے میکے آنے کا راستہ بند کردیا۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھ کر آپ سے گذارش ہے کہ منتقلی وراثت کا مسنون طریقہ کیا ہے ۔ براہ کرم تفصیلاً جواب سے آگاہ فرمائیں ۔
ایک سائل…واتھورہ
بیوہ کے حق وراثت اور نکاح ثانی کا کوئی تعلق نہیں
جواب:۱-شریعت اسلامیہ نے تقسیمِ وراثت میں فوت ہوئے شخص کی زوجہ کو ہرحال میں مستحق وراثت قرار دیاہے اور یہ قرآن میں صاف صاف موجود ہے کہ فوت ہونے والے شوہر کے ترکۂ میراث میں سے زوجہ کو چوتھا 1/4))حصہ ملے گا ،اگر فوت ہونے والے شخص کی اولاد نہ ہو اور اگر اس کی اولادہوئی تو پھر زوجہ (بیوہ)کو کل ترکہ کا آٹھواں (1/8) حصہ دیا جائے ۔ اس سے واضح ہواکہ بیوہ کو یہ حصہ قرآن نے دیا ہے ۔یعنی اللہ نے یہ حصہ مقرر کیا ہے ۔ اس لئے اس حصہ کے متعلق یہ کہنا کہ ’’یہ تاحیات یا نکاح ثانی ‘‘ ہے غلط ہے ۔ نہ محکمہ مال کے اندراج کنندگان حضرات کے لئے ، نہ بیوہ کے لئے ، نہ بیوہ کے بھائیوں یا اولاد کے لئے یہ درست ہے کہ شریعت کے مقرر کردہ حصہ کو وقتی قرار دیں۔جیسے ہر وارث کو شریعت نے حصہ دیاہے اور اس کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرے ۔ چاہے فروخت کرے یا صدقہ کرے یا کسی کو ہبہ کرے یا اُس کے متعلق شرعی طور پروصیت کرے ۔ یا چاہیں جو کرے ہروارث کی طرح بیوہ کو بھی یہ حق ہے ۔ اسلئے تاحیات یا نکاح ثانی کہنا ، یاسمجھنا ،لکھ کر رکھنا ہرگز درست نہیں ہے ۔
بہرحال شریعت اسلامیہ کی رو سے بیوہ کو ملنے والی وارثت اُس کا ایسا ہی حق ہے جیسے دوسرے وارثوں مثلاً بیٹوں کوملنے والی وراثت ہوتی ہے ۔
قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرانا غیر درست
جواب:۲والد کے فوت ہونے کے بعد جیسے بیٹے وراثت کے مستحق ہوتے ہیں اُسی طرح بیٹیاں بھی مستحق ہوتی ہیںاور یہ حق قرآن کریم نے صاف اور صریح طور پر واضح کیا ہے ۔ وراثت کا استحقاق بیان کرنے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کا مقررکردہ فریضہ ہے ۔یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں اور جواِن حدود کی خلاف ورزی کرکے معصیت کا ارتکاب کرے اُس کے لئے دردناک عذاب ہوگا ۔
تقسیم وراثت میں شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے پر دشمنانِ اسلام کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ بھی ہاتھ آتاہے اور یہ مسلمانوں کی غلط کاری کا نتیجہ ہوتاہے کہ وہ اپنی بدعملی سے اسلام پر اعتراضات کراتے ہیں ۔
کسی شخص کے فوت ہونے پربیٹے کو دوحصے اور بیٹی کو ایک حصہ حقِ وراثت قرآن کریم نے مقرر کیا ہے ۔ بھائی کا بہن کو حصہ دینا کوئی احسان نہیں بلکہ حکم قرآنی پر عمل ہے ۔ اب اگر کوئی بہن دل کی رضامندی سے از خود اپنا حصہ اپنے بھائی کو بخش دینا چاہے تو اُس کے لئے بہتر اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اُس کا حصہ اُس کے قبضہ میں دے دیا جائے ۔جب وہ اپنے حصہ پر قابض اور متصرف ہوجائے اُس کے بعد جب چاہے اپنے بھائی کو بطورِ ہبہ کے دے سکتی ہے ۔
تقسیم سے پہلے اور قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرنا غیر منقسم اور متعین مال کا ہبہ ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ مشاع کہاجاتاہے اور یہ ہبہ مشاع درست نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:عموماً لوگ حمام کے غسل خانوں میں بغیر طہارت کے داخل ہوتے ہیں۔ کیا اس جگہ نماز یا کلمات پڑھنا جائز ہوگا؟
منظور احمد قریشی … سرینگر
مساجد کے حمام میں نماز و تلاوت کامسئلہ
جواب: -کشمیر میں مساجد میں غسل خانوں سے ملحق پتھر کی سلو ں کا وہ حصہ جس کو حمام کہاجاتاہے ،دراصل اس کو حمام کہنا ہی غلط ہے او ریہ غلط العوام کی وہ قسم ہے جس سے شرعی مسائل تک متاثر ہوجاتے ہیں ۔ حمام کے معنی غسل خانے کے ہیں ۔ چنانچہ جہاں گرم پانی سے نہانے کا انتظام ہو اور ایک بڑے ہال کو چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہو پھر چاروں طرف گرم پانی کے نلکے ہوںیا گرم پانی کا حوض ہو اُس ہال میں داخل ہوکر نہانے کا ،بدن کوگرم کرنے کا کام لیا جاتاہے ۔ اسی کو حمام کہاجاتا ہے۔ حمام دراصل صرف نہانے کا ہوٹل ہے ۔ شرح ترمذی۔ احادیث میں جس حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے وہ یہی حمام ہے ۔ یہاں کشمیر میں مساجد یا گھروں میں جو حصہ پتھر کی سلوں سے تیار شدہ ہوتاہے اس کا اصلی نام صُفّہ ہے جس کو یہاں کے شرفاء ’’صوفہ ‘‘کہا کرتے تھے ، جو مسجد نبوی کے صفّہ سے ماخوذ ہے ۔ اُس صوفہ پر نماز ، تلاوت ، تسبیح وغیرہ سب جائز ہے ۔ مساجد میں جو صفہ یعنی یہاں کے عرف میں حمام ہے اُس میں یقینا بے وضو وغسل آدمی داخل ہوتاہے مگر اُس کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع قرار نہیں پائے گا۔ جیسے کہ اپنے گھروں میں میاں بیوی کے مخصوص کمرے میں بھی انسان بے وضو وبے غسل ہوتاہے تو اُس وجوہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع نہیں ہوتا ۔اسی طرح مساجد کے صفہ(حمام)کا معاملہ ہے کہ یہ مسجد کا حصہ بھی ہے مگر مسجد کے حکم میں نہیں ۔اُس گرم حصہ پر اگر صف بچھائی جائے اور اس صف پر سنتیں ، نوافل ،تلاوت ،تسبیح ، ذکر وغیرہ کیا جائے تو یقینا یہ جائز ہے ۔ بلکہ اس کی وجہ سے وہ لغوباتوں کے بجائے محل عبادت بن سکتاہے ۔ ورنہ یہ صفہ طرح طرح کی لغویات کا مرکز بن جاتاہے ۔
کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی
