Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

Mir Ajaz
Last updated: July 5, 2024 12:47 am
Mir Ajaz
Share
14 Min Read
SHARE

سوال:عمرہ کرنا ایک عظیم عبادت ہے جو مکہ مکر مہ میں کعبہ شریف میں ادا کی جاتی ہے۔عمرہ کرنے کے لئے جب کوئی مسلمان سفر کرتا ہے تو اُس کو میقات سے پہلے احرام باندھنا ہوتا ہے۔احرام کے بغیر میقات سے آگے جانا غیر شرعی ہے۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ میں ہی مقیم ہو تو وہ اگر عمرہ کرنا چاہے تو وہ احرام کہاں سے باندھے گا۔بکثرت لوگ مکہ مکرمہ میں مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرتے ہیں جب کہ کچھ حضرات کا کہنا یہ ہے کہ مسجد عائشہ سے عمرہ نہیں کرنا چاہئے۔اب اس بارے میں وضاحت مطلوب ہے۔چونکہ بہت سے لوگ اس سے کنفیوز ہوجاتے ہیں،اس لئے جواب بہت ضروری ہے۔
عمر علی ،مقیم حال مکہ
جواب:مسجد عائشہ تنعیم کے مقام پر ہے۔اس جگہ سے چونکہ حضرت عائشہؓنے عمرہ کا احرام باندھا تھا، اُس وقت وہ جگہ شہر ِ مکہ کے باہر حدود حرم کےاختتام پر تھی،اُسی جگہ جو مسجد بنائی گئی وہ مسجد عائشہ کہلاتی ہے۔دراصل مکہ میں مقیم شخص جب عمرہ کرنا چاہے تو اُسے حدود حرم سے باہر نکل کر احرام باندھنا ضروری ہے۔اب حدود حرم سے نکلنے کے لئے وہ کوئی بھی حرم کی سمت اختیار کرسکتا ہے۔چاہے وہ جعرانہ جائے، چاہے تنعیم یعنی مسجد عائشہ جائے یا حدیبیہ یعنی شمیسیہ جائے۔کسی بھی جگہ جاکر احرام باندھ کر آئےاور عمرہ کرے۔حضرت بنی اکرم علیہ السلام نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضرت عائشہؓکو تنعیم کے مقام سے عمرہ کرنے کا حکم دیا تھا۔اس لئے کہ وہ سب سے قریب جگہ تھی،بعد میں اسی جگہ مسجد تعمیر کی گئی اور یہ جگہ مسجد عائشہ کے نام سے مشہور ہوگئی۔خود حضرت نبی اکرم علیہ السلام نے جعرانہ سے عمرہ کیا تھا۔اب ان دونوں جگہ سے عمرہ درست ہے۔اس پر اجماع امت ہے۔بخاری شریف میں اس عنوان کو لکھ کر امام بخاریؒ نے مسجد عائشہ سے عمرہ کی اجازت بلکہ مستحسن بیان کیا ہے۔چنانچہ جو حدیث امام بخاری نے نقل فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اپنی بہن عائشہ کو تنعیم لے جاکر عمرہ کرائو۔امام بخاری نے اس پر ترجمتہ الباب لکھا کہ تنعیم سے عمرہ کرنا درست ہے ۔اس حدیث کے ذیل میں علامہ ابن حجرؓ نے لکھا ،حضرت عائشہؓ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تنعیم سے عمرہ کیا تو یہ ثبوت ہے کہ اس جگہ سے عمرہ کرنا شرعاً درست ہے۔حضرت عبداللہ بن زبیر نے جب اپنے زمانۂ حکومت میں کعبہ شریف کی تعمیر ِجدید کی تو تکمیل کے موقعے پر اعلان کیا کہ جس سے ہوسکے ،وہ میری اطاعت فرمان کرکے تنعیم پہنچے اور وہاں سے عمرہ کرے۔راوی کہتے ہیں اُس دن کتنے غلام آزاد کئے گئے ،کتنے اونٹ اور بکریاں قربان کی گئیں ،اس سے پہلے میں نے کبھی اتنا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔خود عبداللہ بن زبیر نے سو اونٹ قربان کئے۔یہ واقعہ اخبار مکہ میں نیز سبل الہدیٰ میں ،سیرت حلبیہ میں، تاریخ مکہ وغیرہ میں ہے۔حضرت محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل پہنچا ہے کہ آپ نے اہلِ مکہ کے لئے تنعیم کو میقات قرار دیا ہے۔اخبار مکہ للفاکہی۔اس لئے مسجد عائشہ یعنی تنعیم سے عمرہ کرنا بالکل درست بلکہ بہت بہتر ہے ۔جو شخص یہ کہے کہ مسجد عائشہ سے عمرہ کرنا درست نہیں،اُس کی بات یقیناً حدیث کے بھی خلاف ہے اور اجماع امت کے بھی خلاف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۔۱۔ زکوٰۃ کس مسلمان پر فرض ہے؟۲۔کس کس مال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے؟۳۔کس کس مال پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ہے؟۴۔زکوٰۃ کے مستحق کون ہوتے ہیں؟۵۔جو لوگ زکوٰۃ نہ دیں ،اُن کے لئے کیا حکم ہے؟۶۔عورتوں کے پاس زیورات ہوتے ہیں ،اُن کی زکوٰۃ ادا کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
محمد اقبال میر ۔کپوارہ
زکوٰۃ کی ادئیگی ۔مختلف مسائل کی وضاحت
جواب :ہر وہ مسلمان جو عاقل ہو ،بالغ ہواور اتنے مال کا مالک ہو جس پر زکوٰۃ لازم ہوتی ہےتو اُس مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہے۔جس مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہو اور وہ ادا نہ کرے تو وہ سخت ترین گناہ گار ہے۔یہ زکوٰۃ کا حکم ہے ۔جس مسلمان کے پاس ستاسی (87)گرام چار سواَسی(480)ملی گرام سونا ہو اُس پر لازم ہےکہ وہ اس پورے سونے کی زکوٰۃ ادا کرے ۔اگر کسی کے پاس چاندی ہو تو وہ چھ سو بارہ (612)گرام ،تین سو ساٹھ (360)ملی گرام ہونی چاہئے،تو زکوٰۃ لازم ہے۔دورِ نبوت میں یہی پیمانہ تھا جس کو اُس وقت اس طرح بیان کیا گیا تھا،سونا بیس (20)مثقال یا دو سو(200 )درہم چاندی جس کے پاس ہوگا ،وہ شخص اسلام میں صاحبِ نصاب ہے،اُس پر لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرے۔جس شخص کے پاس سونا چاندی تونہ ہو بلکہ رقم ہو ،یا تجارتی مال ہو تو وہ شخص صاحب نصاب قرار پائے گا جب چاندی کے نصاب کے بقدر رقم ہو،اس پر جب سال گذر جائے تو زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی۔قمری سال کی جس تاریخ کو مقدارِ نصاب کا مالک بن جائے وہ تاریخ ہمیشہ یا د رکھیں گے اور اس تاریخ کو ہر سال حساب کرنا ہےجو مقدار مال کی ہوگی ،اُس میں سے قرض کو کم کرنا ہے بقیہ رقم اگر مقدار ِنصاب کے بقدر ہو تو زکوٰۃ لازم ہوگی ۔زکوٰۃ جن اموال پر لازم ہوتی ہے وہ یہ ہیں۔ سونا ،چاندی کرنسی ،زیورات ،جانور اونٹ،گائے،بھینس ،بھیڑ بکریاں۔جانوروں کی وہ مقدار جس پر زکوٰۃ لازم ہوتی ہے ،اُس کی تفصیل حدیث و فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔جن اموال پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی،وہ یہ ہیں:رہنے کا مکان،دکان ،گاڑیاں ،گھر کے استعمالی سامان،بسترے ،فرج ،واشنگ مشین ،کرائے کی بلڈنگیں۔مقدارِ نصاب سے کم سونا ،چاندی ،رقم ،جانور ہوں تو اُن پر بھی زکوٰۃ لازم نہ ہوگی۔
اگر کسی شخص کے پاس کچھ سونا ،کچھ چاندی ہو تو دونوں کو جمع کیا جائےپھر مجموعہ جب نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ لازم ہوگی۔اسی طرح اگر کچھ رقم اور کچھ سونا چاندی ہو تو اُس کو جمع کیا جائےپھر زکوٰۃ لازم ہوگی۔زکوٰۃ کےمستحق صرف غریب ،مسکین ،فقیر ،مفلوک الحال افراد ہیں۔اگر یہ غریب دین کا طالب علم ہو تو اُس کو زکوٰۃ دینے سے دو فائیدے ہوں گے ۔زکوٰۃ کی ادائیگی اور اشاعت دین میں تعاون۔مدارس اسلامیہ میں زکوٰۃ دینے کے یہ دو فائیدے ہیں۔عورتوں کے پاس جو زیورات ہوتے ہیں اُن کی زکوٰۃ عورتوں پر ہی لازم ہوتی ہے ،چاہے وہ خود دیں یا شوہر سے رقم بطور قرض لے کر زکوٰۃ ادا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہو اور ساس کے درمیان کون سا رشتہ ہے۔ اگر بہو ساس کی خدمت نہ کرے تو کیا وہ گنہگار ہوگی ۔ شریعت کی رو سے تفصیلی رہنمائی فرمائیں۔
بہو اور سسر میں کون سا رشتہ ہے۔ اگر بہو سسر کی خدمت نہ کرے تو کیا گنہگار ہوگی او راگر ساس اور سسر بہوکوہروقت کام کے لئے ڈانٹیں او ربُرا بھلا کہیں کیا وہ گناہ گار ہوں گے۔ بہو پر ساس سسر کی خدمت فرض ہے یا نہیں ؟
ساس بہو کو طعنے دے ،بُرابھلا کہے۔ لوگوں میں اسے ذلیل کرے جبکہ اپنی بیٹی ، جب وہ سسرال سے آئے ،کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور جب بہو اپنے باپ کے گھرجائے تو اس کو اچھی طرح رخصت نہ دے اور نہ ہی اس سے خندہ پیشانی سے بات کرے۔
قرآن وحدیث کی رو سے اس دہرے معیار کے لئے ایسی عورت کیا واقعی اللہ کے حضورجوابدہ ہے ۔
شبیراحمد ڈار۔ شوپیان
ساس بہو کا رشتہ :
محبت پانے کیلئے محبت کا روّیہ اپنانے کی ضرورت
جواب:-ساس اور بہو کا رشتہ نازک بھی ہے اور ہمیشہ کا ہے ۔ اگر ساس بہو پر ظلم وزیاتی کرتی ہے تو بلاشبہ وہ اپنے بیٹے کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کا جرم کرتی ہے۔ جب بہو کا انتخاب کرتے وقت ساس اچھے سے اچھے اخلاق او رحسن سلوک ونرم مزاجی کا مظاہرہ کرتی ہے تو بعد میں اس کا اپنی بہو کوستانا انتہائی سنگین غلطی ہے۔
ہمارے گھریلو اور خاندانی نزاعات کا زیادہ تر حصہ اس ساس بہو کی لڑائی کا شاخسانہ ہوتاہے ۔
اگر ساس بہو کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کرتی ہے اور بہو اپنی ساس کے ساتھ وہی روّیہ اپنائے جو وہ اپنی ماں کے ساتھ اپناتی ہے تو تمام جھگڑے ختم ہوجائیں گے مگر دونوں دوپیمانے لئے ہوئے رہتی ہیں ۔ ساس کا سلوک اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ اور عام طور پر بہو کے ساتھ کچھ اور ہوتاہے ۔ حالانکہ اُس کو زندگی کا بیشتر حصہ بہو کے ساتھ گزارنا ہوتاہے اور بیٹی اپنی ماں کے ساتھ شفقت، خدمت او رہمدردی کا جیسا سلوک کرتی ہے ویسا سلوک وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں کرتی۔ حالانکہ اُس کو اپنی زندگی کا زیادہ تر زمانہ ساس کے ساتھ ہی گزارنا ہوتاہے ۔
ساس بہو کو ستائے یا بہو ساس کی ناقدری کرے اس کا بالواسطہ اثر مرد پر پڑتاہے جو ایک کا بیٹا اور دوسری کا شوہرہے اور اس مرد کی ضرورت دونوں کو یکساں درجہ کی ہے ۔ ان دوقریب ترین عورتوں کی آپسی جنگ میں مرد دونوں طرف سے پستا جاتاہے ۔ اگر وہ ماں کا ساتھ دے تو زوجہ پرظلم ،اور اگر زوجہ کا ساتھ دے تو ماں کی حق تلفی اور پھر اُس کی بددعا ئیں اُس کے حصے میں آتی ہیں اور دونوں صورتوں میں وہ تباہ ہوتاہے ۔ بہو کواخلاقی طور پر اپنی ساس کی خدمت کرنی چاہئے تاکہ وہ جب آئندہ ساس بنے گی تو اُس کو بھی وہی روّیہ اُس کی بہو سے مل سکے ۔ ساس سسر کی خدمت کرنے کا حکم تو بہو کو نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے یہ اُس پر کوئی لازمی حق اور ناگزیر فریضہ نہیں ہے مگر بہو اگر ساس سسرکی خدمت سے مکمل دوری اختیار کرے تو اس کی وجہ سے خوداُس کے شوہر کے لئے مسائل پیدا ہوں گے اور نتیجے میں اس کے اپنے رشتہ پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے ۔ دنیا میں انسان کی کامیابی حسن اخلاق او راچھے رویہ کے ساتھ خادمانہ سلوک پر مبنی ہے نہ کہ ہٹ دھرمی، انانیت ، اکڑبازی اورضدونفرت پر ۔
دوسرے سے محبت کا سلوک پانے کے لئے یہاں سے محبت کا روّیہ برتنا ضروری ہے جو شخص دوسرے کوستائے اور اس سے محبت کی توقع رکھے وہ نادان ہے۔ جو دوسرے پر ظلم کرے او راُس سے حسن سلوک کی آس لگائے وہ احمق ہے ۔ چاہے وہ تعلیم یافتہ ہویا اَن پڑھ، مالدار ہویا غریب ،اونچے خاندان کا ہو یا پسماندہ طبقے سے ۔
انسان اپنے آپ کو محبوب بناناچاہے تو خودمحبت کا مظاہرہ کرے اور دوسروں سے خدمت لیناچاہے تو پہلے یہاں سے خدمت کرے ۔کامیاب زندگی کے لئے یہی زریں اصول ہیں ۔ ادائیگی ٔ فریضہ زیادہ اہم ہے مطالبۂ حقوق کے مقابلے میں ۔اگر ہم اپنے فرائض ادا کریں تو دوسرے کے حقوق ادا ہوجاتے ہیں او ردوسرا جب اپنے فرائض انجام دے گا تو ہمارے حقوق ادا ہوجائیں گے۔ آج کے عہد میں حقوق کی حصولیابی کی مہم ہرطرف ہے مگر ادائیگی فرائض کی فکر کم ہی ہے ۔ظلم زبان سے ہو یا ہاتھ سے ، بُرا طرزِ عمل او رغلط رویہ جیسے بھی اپنایا جائے وہ بہرحال گناہ ہے ۔ حضرت بنی علیہ السلام نے فرمایا کامل مسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے ۔
اس لئے ساس اپنی بہو کے ساتھ وہی سلوک کرے جیسا وہ اپنی بیٹی کی ساس سے اپنی بیتی کے لئے چاہتی ہے او ربہو اپنی ساس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنی ماں کی بہو سے اُمید کرتی ہے بلکہ مطالبہ کرتی ہے ۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
سکول پکنک کیلئے اجازت لینے کی ضرورت کے فیصلہ پر نظر ثانی کی جائے گی :ناظم تعلیم کشمیر
تازہ ترین
تپن کمار ڈیکا کو انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر کے طور مزید ایک سال کی توسیع مل گئی، با ضابطہ طور پر حکمنامہ جاری
تازہ ترین
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی سیاحوں کو دوبارہ سے کشمیر آنے کی اپیل
تازہ ترین
شمالی فوج کے فوجی کمانڈر کا دورہ کشمیر ، سیکورٹی اور آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا
تازہ ترین

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

May 15, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

May 8, 2025
جمعہ ایڈیشن

خدمتِ خلق پر عطائے الٰہی شمع فروزاں

May 8, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

May 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?