سوال:آج کل بکثرت یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر سحر کیا گیا ہے یا کسی عورت کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ سحر کراتی ہےیا کچھ لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں پر سحر کرتا ہے،تعویز کرتا ہے اور لوگ اُس کے پاس اس لئے جاتے ہیں تاکہ وہ دوسروں پر تعویز کروائیں۔اس گھمبیر مسئلہ کے متعلق تفصیل سے جواب تحریر فرمائیں۔
محمد عامر
امام مسجد شریف ،بمنہ سرینگر
جادو اور سحرہ گری حرام عمل
جادوگر اور کاہن کے پاس جانے سے ۴۰روز تک نمازیں قبول نہیں ہوتیں
جواب :کسی شخص پر خود یا کسی اور کے ذریعہ سحر کرانا سخت ترین حرام ہے ۔اس بدترین جُرم کی وجہ سے بعض دفعہ انسان کُفر تک پہنچ جاتا ہے ۔یہ ایسا خطرناک اور بُرا کام ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ جادو اور سحر کرتا ہے تو ایسے شخص کو اسلامی حکومت میں سزائے موت ہے۔جادو سیکھنا ،جادو کرنا ،جادو کرانا اور اس کے ذریعہ پیسے کمانا یہ سب حرام ،گناہ ِ کبیرہ تو ہے ہی ،اس کی کچھ صورتوں میں ایمان بھی ختم ہوسکتا ہے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب شرح الفقہ الاکبر اور ردالمختار شامی میں ہے ،سحر کرنے والے کا سحر کرنا جب ثابت ہو یا خود اقرار کرے تو وہ سزائے موت کا مستحق ہےاور اُس کی توبہ بھی قبول نہ کی جائے گی۔یہی حکم اسلامی نظامِ حکومت کے لئے لکھی گئی مشہور کتاب مُعین الجکام میں ہے،لہٰذا سحر کرنے والا شخص چاہے وہ سحر کرانےوالا مرد ہو یا عورت ،وہ سمجھ لیں یہ کام گناہِ کبیرہ تو یقیناً ہے اور کچھ خاص صورتوں میں اس پر کفر کا حکم بھی لگتا ہےاور کسی کی صحت کو خراب کرنے،کسی کا رشتہ متاثر کرنے،میاں بیوی یا بھائیوں یا رشتہ داروں کے درمیان نفرتیں اور دشمنیاں پیدا کرنے یا کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کے لئے سحر کرنا یا کرانا ہر حال میں سخت ترین حرام کام ہے۔حدیث میں زناکاری کے ذریعہ کمائی کرنے اور جادو و کہانت کے ذریعہ کی جانے والی کمائی کو ایک ہی درجہ کا حرام قرار دیا ہے۔ایک حدیث میں ہے جو کسی عراف،جادو گر اور آئندہ کی خبریں بتانے والے کا ہن کے پاس جائے ،اُس کی نماز یں چالیس دن تک قبول نہ ہوں گی۔(مسلم)ایک حدیث میں ہے کہ اُس نے اُس دین کے ساتھ کفر کیا جو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس جُرم کا ارتکاب کرنے اور دوسروں پر یہ مجرمانہ کام اور ظلم کرنے ،کرانے سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا لازم ہے۔البتہ سحر زدہ لوگوں کا جادو اُتارنے اور اُن کا علاج کرانے ،اسی طرح جنات اور آسیب سے متاثرافراد کا علاج کرنے کی نیت سے عملیات سیکھنا درست ہے اور پھر متاثرہ مصیبت زدہ افراد کا علاج کرنا درست ہے بلکہ یہ عمدہ خدمتِ خلق ہے اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کچھ لوگ جادو اور جنات کا بالکل انکار کرتے ہیں اور ساتھ ہی کبھی کہتے ہیں کہ سحر ،آسیب اور جنات کےتصرُف کا عقیدہ شرک ہے۔اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔اب اس بارے میں صحیح عقیدہ کیا ہے اور اگر کسی پر جادو کیا گیا ہو یا کسی پر جنات کے اثرات ہوں تو اس کا علاج کیا ہے اور کس سے علاج کرانا چاہئے؟
محمد خلیل خان۔اوڑی۔بارہمولہ
جنات اللہ کی مخلوق
تصرفات سے بچنے کے لئے مخصوص آیات ِ قرآنی کا وِرُد ضروری
جواب :جادو کی حقیقت یہ ہے کہ شرک وکفر کے کلمات و حرکات کے ذریعہ دوسرے پر ایک قسم کا تصرف کیا جاتا ہے اور اس میں شیاطین اور جنّات سے مدد لی جاتی ہے۔قرآن کریم میں سحر کا تذکرہ موجود ہے ۔سحر اور جادو ایک ہی چیز ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق پہلے پارے میں جو بیان ہے ،اُس میں جادو یعنی سحر کا تذکرہ ہے اور یہ بیان ہوا ہے کہ وہ اس جادو کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جدائیگی کراتے تھے۔اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے متعلق کئی جگہ آیات مبارکہ ہیںکہ فرعون جادو گروں کے ذریعہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا ۔اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جادو کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہے۔حضرت نبی کریم علیہ السلام نے کبیرہ گناہ شمار کرتے ہوئے سحر کا تذکرہ بھی فرمایا اور حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت نبی کریم علیہ السلام پر یہودیوں نے جادو کیا تھا،اُس کے علاج کے لئے سورہ خلق و سورہ ناس نازل ہوئی تھی۔جنّات اُسی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس طرح انسان ہیں۔قرآن کریم میں پوری ایک سورت ،سورہ جِن کے نام سے موجود ہے۔
حضرت نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں بارہا جنات کی آمد اور اُن کے اسلام قبول کرنے کے واقعات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔جنات کے ذریعہ تکالیف کا پہنچنااور پریشانی میں تعاون ملنا ایک حقیقت ہےاور یہ ایسے ہی ہے جیسے اچھے انسان سے انسان کو راحت بھی ملتی ہےاوربُرے انسان سے بڑی تکلیف اور مصیبت بھی آتی ہےجیسے انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچنا سکتا ہے۔اسی طرح جنات کا معاملہ بھی ہے۔حضرت سعد بن عبادہ جو انصار مدینہ کے سرداروں میں سے تھے،اُن کو جنات نے ہی شہید کیا تھا۔جیساکہ اُن کی سوانح میں لکھا گیا ہے۔بہر حال یہ بات حق ہے کہ جنات ایک مخلوق ہے اور انسانوں کی طرح وہ اللہ کے احکام کے مکلّف ہیںاور وہ انسانوں پر قسم قسم کے تصرفات کرتے ہیں۔اس کا مشاہدہ ہردور میں پایا گیا اور آج بھی ۔اب اُن کے بُرے تصرفات سے بچنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں ،اُس کے لئے قرآن کریم کی اُن آیات ِ مُبارکہ کے ورد کا مستقل معمول بنایا جائےجو جنّات ،جادو اور اس طرح کے اثرات مثلاً نظرِبَد ،بھوت پری کے نقصانات سے بچنے کے لئے ہیں۔یہ مبارک آیات’’ منزل ‘‘کے نام سے ایک ہی کتابچہ میں جمع کی گئی ہیں۔ اُن کی تلاوت صبح و شام کی جائےاور اپنے جسم پر دَم کیا جائے۔اسی طرح احادیث مبارکہ میں جو دعائیں آئی ہیں اُن کو کثرت سے پڑھا جائے۔اگر اس سے افاقہ نہ ہو تو پھر کسی عامل سے علاج کرایا جائےمگر عامل کے لئے شرط ہے کہ وہ صحیح مسلمان ہو ،دیندار اور ماہر ہواور اس کام میں جو ناقص اور نقلی افراد سرگرم ہیں، اُن کے پاس جانے سے پرہیز کریں۔جو افراد جادو جنّات کا علاج کرنے میں مہارت نہیں رکھتے ،اُن کے لئے بھی جائز نہیںوہ لوگوں کو دھوکہ دیں اور جو لوگ اس کام کو صرف متاثرہ افراد سے رقمیں وصول کرنے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اُن سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہمارے معاشرے میں یہ معاملہ بھی پیش آتا رہتا کہ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ناراضگی ہوگئی تو قطع تعلق کے ساتھ وہ یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ میرے جنازے میں فلاں شریک نہ ہو،مرنے کے بعد میرا چہرہ بھی نہ دیکھے۔یہ معاملہ والدین کے یہاں بھی پایا جاتا ہے کہ باپ یا ماں اپنے کسی بیٹے کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ اُس کو میرے جنازہ میں آنے ،کندھا دینے،منہ دیکھنے سے میری روح کو دُکھ ہوگا،لہٰذا وہ میرے جنازہ سے دور رہے۔اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
محمدرفیق خان ۔کنگن
شرعی عذر کے بغیر قطع تعلق کرنا شریعت میں جائز نہیں
جواب :کسی عذر شرعی کے بغیر کسی مسلمان سے قطع تعلق کرنا شریعت میں سخت منع ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین ایام سے زیادہ قطع تعلق کرے۔اس لئے جب زندگی میں قطع تعلق جائز نہیں تو مرنے کے بعد بھی نہیں کرسکتے۔لہٰذا اگر کسی شخص نے دوسرے کسی بھی فرد، چاہے وہ بیٹا ،بھائی ،چاچا ،ماموں ہو یا دور کا رشتہ دار ہو، کو اپنے جنازے کی شرکت سے روکنا جائز نہیں ہے۔البتہ جس شخص سے اس درجہ کی ناراضگی ہو اُس کا فریضہ ہے کہ وہ اس ناراضگی کے سبب کی تلافی کرے اور زندگی میں ہی اپنے تعلقات درست کریں۔یہ دونوں پر لازم ہے اور کوئی مالی حق ہو یا اخلاقی،اُس کی ادائیگی لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : انسان کا رزق تو پہلے سے لکھا ہوتا ہے ،اب کس کام سے انسان کمائے گا ،وہ بھی لکھا ہوتا ہے اور رزق میں کمی یا زیادتی کن وجوہات سے ہوتی ہیں؟
شیخ عامر ۔سرینگر
عطائے رزق
اللہ سبب سازمگربندے پر مطلوبہ محنت کی انجام دہی لازمی
جواب : یہ بات بالکل برحق ہے کہ رزا ق اللہ جل شانہٗ ہےاور ہر مخلوق کا رزق لکھا ہوا ہے مگر لکھا ہوا ہونے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ انسان چپ چاپ بیٹھ جائے اور لکھا ہوا رزق اُسے خود بخود ملتا رہے گا ،بلکہ اُس لکھے ہوئے رزق کو پانے کے لئے جو محنت مطلوب ہے وہ انجام دینا ضروری ہے ۔اُس کے بعد ہی لکھا ہوا رزق ملے گا ۔اس کے لئے چند مثالیں پیش ہیں۔
بیماری میں شفا بھی ملتی ہے اور موت بھی آسکتی ہے۔اگر شفا لکھی ہوئی ہے تو وہ شفا بغیر علاج و معالجہ کے اللہ عطا کرسکتے ہیں مگر اللہ کی مشیت اور سُنت یہ ہے کہ علاج و معالجہ بھی ہو اور ضروری پرہیز بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کے بعد لکھی ہوئی شفا عطا فرمادیتے ہیں۔لہٰذا علاج بھی ضروری ہے اور پرہیز بھی ۔دودھ پیتے بچے کے لئے ماں کی چھاتی اور پستان میں دودھ اللہ پیدا کرتے ہیں مگر دودھ پلانے کا عمل ماں کی ذمہ داری ہے اور پینے کا عمل بچہ خود فطری اور وجدانی طور پر سر انجام دیتا ہے ۔زمین سے ہر قسم کا اناج ،سبزیاں اور قسم قسم کے نباتات اللہ سبحانی تعالیٰ اُگاتے ہیں مگر کاشت کارکو محنت کرنا بھی لازم ہے۔انسان کو زندگی میں طرح طرح کی کامیابیاں ملتی ہیں ،وہ سب کامیابیاں انسان کے لئے لکھی ہوتی ہیں مگر وہ لکھی ہوئی کامیابی انسان کو مطلوبہ محنت کے بعد ہی ملتی ہےاور یہ بھی لکھی ہوئی بات ہے ۔لہٰذا ہر کام کے لئے مطلوب محنت کرنا لازم ہے۔
رزق کے لکھے ہوئے ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان نہ تو یہ سمجھے کہ مجھے کچھ بھی نہیں کرنا ہے ،جو لکھا ہوا ہے وہ خود ملے گااور نہ ہی انسان یہ سمجھے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا ،اُس کے نتیجے میں وہ چیز مجھ کو لازماً ملے گی ،جس کے لئے میں نے محنت کی ہے ،چاہے اللہ نے لکھا ہو یا نہ لکھا ہو ۔انسان کو ہر کام کے لئے ضروری اور مطلوبہ محنت ،جدوجہد اور کوشش کرنی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھنا ہے کہ اللہ کی مشیت اور مرضی ہوگی تو یہ کام حسنِ انجام کو پہنچے گا اور اللہ کی منشاء و رضا نہ ہو تو پھر نتیجہ ہماری ہماری چاہت و کوشش کے خلاف نکلے گا اور یہ بھی لکھا ہوا ہوگا ۔رزق کے لئے بھی یہی ضابطہ ہے۔اس کی مزید تفصیلات بڑی کتابوں میں مل سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۔)نکاح اور ولیمہ کا شرعی حکم کیا ہے جبکہ ولیمہ سنت اور پردہ فرض ہے ۔ہمارے یہاں ولیمے کی تقاریب میں کوئی تمیز نہیںکی جاتی ۔اس کا حکم تفصیل سے بیان فرمائیں۔
(مشتاق احمد ۔کشتواڑ)
ولیمہ میں فضول خرچی سے بچنا لازم
جواب۔)ولیمہ سنت ہے مگر اس میں تمام غیر شرعی امور سے بچنا لازم ہے ۔مثلاً فضول خرچی ،ریا ،نام و نوا ،بے پردگی ،اختلاط مردو زن وغیرہ ہے ،اگر کسی ولیمہ میں یہ سب کچھ ہوا تو سنت کی ادائیگی ہوگی مگر غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوا جو یقیناً گناہ ہے۔