سوال :۔اگر کوئی مسلمان اپنی زندگی میں اپنی زمین ،جائیداد ،مکان وغیرہ کے متعلق کوئی وصیت کرتا ہے اور اُس وصیت نامہ کو عدالت سے رجسٹر بھی کرادیتا ہے تو کیا شریعت میں اس وصیت نامہ کی کوئی حیثیت ہے یا وہ کالعدم ہے۔اگر اسلام اس وصیت کو نہ مانے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔اویس مشتاق وگے۔حاجن،بانڈی پورہ
وارث کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں
جواب:۔اللہ جل شانہٗ نے وراثت کی تقسیم کے متعلق مفصل و مکمل ضابطہ قرآن بیان کردیا ہے ۔اُس میں ہر وارث کو کتنا حصہ وراثت لینے کا حق ہے یہ بھی بیان کردیا ہے۔اب کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وراثت کے اس ضابطہ ٔشرعی میں بذریعہ وصیت تغیر و تبدل کرے۔اسی لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اور واضح اعلان فرمایا ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی وارث کے حق میںوصیت کرے ۔اس لئے کہ اللہ نے ہر وارث کے لئے وراثت کا حصہ مقرر کردیا ہے۔اگر کوئی مسلمان کسی ایسے شخص کے حق میں وصیت کرے جو قرآنی ضابطہ کے مطابق مستحق ِ وارث نہ ہو تو اُس کے حق میں وصیت کرنا درست ہےمگر اس میں بھی حد بندی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ اپنی پراپرٹی کے صرف تہائی کے بقدر وصیت درست ہے۔دراصل اس کے لئے وصیت کا اسلامی قانون جاننا ضروری ہے اور وہ فقہ اسلامی میں موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۔ہمارے والد صاحب مرحوم نہایت نیک اور صوم و صلوٰۃ کے پابندتھے۔آج سے بائیس سال قبل یعنی والد صاحب کے انتقال سے پہلے انہوں نے اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ،ہماری واقفیت کے بغیر ،اپنے تین بیٹوں کے حق میں ایک تقسیم نامہ،ایک سادہ کاغذ پر دو معتبر گواہان کی موجودگی میں تحریر کرکے ہم چار بہنوں کو تمام جائیداد سے محروم کردیا ہے اور ہمارے بھائی اُس تحریر کو جواز بناکر ہمیں اپنا شرعی حصہ ادا کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس قسم کی تحریر ہمیں وراثت سے محروم کرسکتی ہے؟ہم جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا مطالبہ بہت عرصہ سے اس لئے کررہے ہیں تاکہ ہمارے والد صاحب اور ہمارے برادران کل روزِ محشر میں حقوق العباد کی حق تلفی کرنے کی پاداش میں کسی عذاب یا سزا کے مستحق نہ ہوجائیں۔مزید یہ کہ ہماری والدہ ابھی حیات ہیں ،اس کی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ ہم وارثوں میں کس طرح تقسیم ہوگی۔مہربانی کرکے شرعی نوعیت سے روشناس فرماکرہماری رہنمائی فرمائیں۔دعاگو
سائیلان : خواہران اربعہ
(نوٹ: برائے کرم ہمارے نام اور سکونت اخبار میں مشتہر نہ فرمائیں)
حقِ وراثت :وصیت نامہ اور ہبہ کی شرعی حیثیت ؟
جواب:۔وت ہونے والے والد نے تقسیم نامہ بنایا اور اُس میں تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اپنے بیٹوں کے نام تحریر کردی اور اپنی زوجہ اور دختران کو اس تقسیم نامہ میں کوئی حصہ نہیں رکھا ۔گویا اُس نے اپنی تمام املاک صرف اپنے اولاد ِ نرینہ کو دینے کا قدم اٹھایااور زوجہ کو نیز بیٹیوں کو محروم کردیا اور آج اس کے لئے ایک تحریر بھی موجود ہےاور اس کے دو گواہان بھی ہیں۔۔۔اس ساری صورت حال کے بعد ضروری ہے کہ پہلےاس بات کی وضاحت ہوجائے کہ یہ تحریر وصیت نامہ ہے؟ یا ہبہ؟۔۔۔ اور دوسری وضاحت یہ کہ یہ تمام جائیداد منقولہ و غیر منقولہ اُس شخص کے مرنے تک کس کے قبضہ میں تھی۔اگر اُس نے تحریر لکھنے کے بعد یہ تمام جائیداد اپنے ہی قبضہ میں رکھی تھی اور اُس کے بیٹے اُس کے ساتھ تھے یا الگ رہائش پذیر تھے ،مگر جائیدادکا مالک اور قابض وہی تھا جس نے یہ تحریر لکھی تھی۔اُس کی زندگی میں اُس نے اپنے بیٹوں کو باقاعدہ قبضہ اور حق ِ تصرف نہیں دیا تھا تو اس وضاحت اور تنقیح کے بعد شرعی حکم یہ ہے کہ یہ تحریر شرعاً رَد ہوجائے گی اوراس تحریر کی بنا پر نہ تو دختران محروم ہونگی نہ ہی متوفی کی زوجہ،اور محض اس تحریرکی بنا پر صرف بیٹے تمام املاک کے مالک نہیں بن سکتے۔اس سلسلے میں شرعی اصول یہ ہے کہ وصیت بحق وارث مسترد ہے اور یہ ضابطہ شرعی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلاناً فرمایا کہ لَاوَصِیۃَ لِوارثٍ۔ جو وارث ہے اُس کے حق میں کی گئی وصیت رد ہے۔
لہٰذا اوپر درج شدہ توضیحات و تنقیحات میں جو لکھا گیا ہے ،اگر زیر نظر مسئلہ اُن کے مطابق ہے ۔یعنی تحریر لکھنے والے والد نے اپنے بیٹوں کے نام جائیداد لکھی تھی ،مگر وہ تمام جائیداد اُس کی موت تک خود اُسی کے قبضہ و تصرف میں رہی تو پھر یہ تحریر شرعی طور پر بھی مسترد ہے اور مسلم پرسنل لاء کے ضابطہ کے مطابق قانوناً بھی نافذ نہیں ہوسکتی ۔۔۔ایسی صورت حال میں فوت ہونے والے کی تمام املاک منقولہ و غیر منقولہ کے اَسی (۸۰) حصے کئے جائیں ،ان میں دس (۱۰) حصے مرنے والے کی زوجہ کو، ہر ہر دختر کو سات سات اور ہر بیٹے کو چودہ چودہ حصے دیئے جائیں ۔قرآن کریم میں فوت ہونے والے کی زوجہ اور اولاد کے درمیان تقسیم وراثت کے لئے جو حکم ارشاد ہوا ہے ،اُس کے مطابق اوپر درج شُدہ سہام بیان کئے گئے۔
والدہ ابھی حیات ہے،لہٰذا اُس کی وراثت کے متعلق ابھی کسی کا کوئی حصہ نہیں۔جب اُس کی وفات ہوگی تو اسی شرعی ضابطہ کے مطابق اُس وقت وراثت تقسیم ہوگی۔یعنی ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے بقدر اور دو بیٹیوں کو ایک بیٹے کے حصے کے بقدر وراثت دی جائے گی،بشرطیکہ وہ اُس وقت زندہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۔ کیا قرآن پاک موبائل پر پڑھ سکتے ہیں اور کیا اس کے لئےبا وضو ہونا ضروری ہے، اوراد یا مسنون دعاء و غیر ہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔عمر شکیل ۔شوپیان
موبائل پر تلاوت ِ قرآن ۔باوضو ہونا ضروری
جواب:۔ موبائل پر قرآن کریم کی تلاوت کرنا درست ہےاور چونکہ تلاوت کرتے ہوئے سکرین پر ہاتھ لگانا ہوگا ،اس لئے با وضو ہوکر تلاوت کی جائے تاکہ سکرین پر آنے والی آیات کو بغیر وضو کے چھونے سے محفوظ رہیں۔اوراد یا مسنون دعائیں پڑھنے اور چھونے میں حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : ۔(۱) لڑکیوں کا سکوٹی وگاڑی چلانا جائز ہے؟
سوال:(۲) لڑکیوں کا نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں؟
سوال:(۳) ایام بیض کے جو روزے ہیں، کیا ان کے ساتھ مزید تین بڑھانے سے ماہِ شوال کے چھ روزے مکمل ہوجائیں گے اور اگر یہ صورت اپنائی جائے تو کیا ایامِ بیض کا حکم پورا ہوجائے گا؟
سوال:۔(۴) آج کل عورتوں میں پارلر جانے کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ۔تو کیا عورتوں کا س طرح سے بنائو سنگھار کرنا جائز ہے،پھر چاہے وہ اپنے شوہر کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
ایک سائل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوابات:۔
لڑکیوں کا گاڑی و سکوٹی چلانا جائز
جواب(۱)ضرورت کی وجہ سے لڑکیوں کا سکوٹی ،گاڑی چلانا جائز ہے ۔فیشن اور دکھلاوے کے طور پر پسندیدہ نہیں ہے۔
خواتین کا روزگار کے لئے نکلنا جائز مگر حیاء و پاکدامنی کی پابندی
جواب(۲) معاشی تنگدستی درپیش ہو تو عورتوں کو کمائی کرنےکے لئےنکلنا جائز ہے،مگر اپنی عصمت کی حفاظت ،حیا ء و پاکدامنی نیز حجاب کی مکمل پابندی بھی لازم ہے۔وہ کمائی، جو عصمت کے غیر محفوظ ہونے کا ذریعہ ہے یا بے پردگی اور فیشن پرستی کے ساتھ کمائی کی جائے ۔ حلال تو ہوگی مگر دوسرے گناہ جو بے پردگی ،اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے ہونگے ،وہ گناہ لازم رہیں گے۔
شوال اور ایامِ بیض کے روزے
جواب(۳) شوال کے چھ روزے الگ ہیں اور ایام بیض کے روزے الگ ہیں۔بہتر تو یہی ہے کہ یہ دونوں قسم کے روزے الگ الگ رکھے جائیں ،تاہم اگر کسی نے تیرہ چودہ پندرہ شوال کے روزے رکھے اور ایام بیض کے ساتھ شوال کے روزوں کی نیت بھی کرلی تو دونوں کا ثواب مل جائے گا۔
خواتین کے لئے بنائو سنگھارکرنا جائز مگر محرموں کے لئے
جواب(۴)عورتوں کو بنائو سنگھار کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اُن کی فطری خواہش بھی ہےاور شریعت میں پسندیدہ بھی۔مگر یہ بنائو سنگھار صرف اپنے گھر اور اپنے شوہر کے لئے ہو نہ کہ اجنبیوں کے لئے۔یہ بنائو سنگھار اعتدال اور شریعت کی حدود میں ہو ،نہ فضول خرچی ہو اور نہ اجنبی مردوں کے ذریعہ ہو ۔بیوٹی پارلر جانا ہی شریعت کی نظر میں سخت نا پسندیدہ ہے اور اگر یہ اجنبی مردوں کا ہو تو پھر حرام ہے۔یہ طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہے جس میںنامحرم مردوں کو اپنا جسم مس کرنا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔