کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

دینی معلومات کیلئے علمی

 مقابلے منعقد کرانامفید

سوال:-آج کل قسم قسم کے مقابلے ہوتے ہیں۔ جن میںسیرت کوئز بھی شامل ہے ،منعقد ہوتے ہیں ۔اس میں سیرت رسولؐ کے بارے میں کچھ اچھوتے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن کے متعلق بھی مختلف سوالات کئے جاتے ہیں جن میں بعض سوالات انوکھے ہوتے ہیں۔ان مقابلوں کا بالعموم مقصد اسلام، قرآن اورسیرت پاک ؐکے بارے میں طلبہ میں دلچسپی کو جگانا ہوتاہے ۔ہم خود ایک اسکول چلاتے ہیں اور سیرت کوئز منعقد کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ کیساہے؟
ملک سجاد احمد
جواب:-دینی معلومات کے لئے اس طرح کے علمی مقابلے یقیناً دُرست ہیں ۔ خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی حضرات صحابہؓ سے سوالات فرماتے تھے کہ وہ اپنے علم وفہم سے جواب دیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے پوچھا : درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جو مومن کے مشابہ ہے ،بتائو وہ کون سا درخت ہے ؟ صحابہ سوچتے رہے مگر جواب نہ دے سکے ۔اس کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا وہ کھجورکادرخت ہے ۔ بعد میں حضرت عبداللہ نے اپنے والد گرامی حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ اس سوال پر میرے ذہن میں یہی جواب آیا تھاکہ وہ کھجورکادرخت ہے مگر میں اپنے چھوٹے پن کی وجہ سے ہمت نہ کرسکا اور شرما گیا اس لئے خاموش رہا کہ بڑوں کی موجودگی میں کسی چھوٹے کا بولنا بے ادبی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے کی یہ بات سن کر فرمایا ۔ کاش تم نے جواب دیا ہوتاتو مجھے زیادہ خوشی ہوتی ۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ہے ۔ اب کھجورکے درخت کو مومن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ یہ ایک تفصیلی بحث ہے جو حدیث کی شروحات سے معلوم ہوسکتی ہیں ۔بہرحال علمی ترقی کے لئے اس طرح سوالات کرنا دُرست ہے ۔ کوئز چاہے قرآن وسیرت کی معلومات سے متعلق ہوں یا کسی دوسرے شعبۂ دین سے متعلق بہرحال مفید ہیں ۔ مگر اس میں چند باتیں اصلاح طلب ہیں۔ بے فائدہ معلوماتی سوالات کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔مثلاً بتائیے قرآن میں شیطان کا لفظ کتنی بار آیاہے ۔ یہ ایک بے فائیدہ سوال ہے ۔ اس کے مقابلے میں مثلاً روزہ کا حکم قرآن میں کتنی مرتبہ آیا ہے ۔ یہ ایک مفید سوال ہے یا کہ فرعون کا لفظ کہاں کہاں ہے ۔یہ بے فائدہ سوال ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات ضروری ہے کہ سوال کا جواب دینے والے خود اپنی محنت اور مطالعہ سے جوابات پیش کریں ۔ دوسروں سے پوچھ کر جواب دینا اس مفید سلسلہ کی افادیت کو ختم کردیتاہے ۔ 
ظاہرہے کہ کوئز کا مقصد مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا ، معلومات حاصل کرنے کا مزاج بنانا اور کتابوں کی ورق گردانی اور محنت وسعی کا خُوگر بنانا ہے ۔اب اگر سوالات کا پرچہ لے کر ایک دوسرے سے معلومات اکٹھا کی گئیں تاکہ متوقع انعام حاصل کریں تو یہ بے فائیدہ کام ہے ۔ اس میں ممکن ہے انعام مل جائے مگر جس ذوق کی آبیاری ہونی چاہئے تھی وہ تن آسانی اور دوسروں سے معلومات لے کر خود مطالعہ وتحقیق نہ کرنے کے سست مزاج کی وجہ سے مفقود ہوگیا ۔
لہٰذا کوئز تیار کرنے والے اس پہلو کو ضرورملحوظ رکھیں کہ جواب دینے والے دوسروں سے پوچھنے کے بجائے خود مطالعہ ومحنت پر مجبور ہوجائیں ۔ کبھی سوالات مرتب کرنے والے خود کوئی کتاب لے کر انوکھے قسم کے سوالات جمع کردیتے ہیں جب کہ خود اُن کو بھی اس قسم کے سوالات کے جوابات دینے کی اہلیت نہیں ہوتی مگر کتاب کے سہارے سوالات مرتب کردیئے گئے اور اب وہ دوسروں سے جوابات کے منتظر ہوتے ہیں ۔ 
سوالات مرتب کرنے میں انوکھے پن کے بجائے افادیت کے پہلوکو اور اس سے زیادہ فکری پہلو کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے ۔یہ فکری پہلو ایمانی ،عباداتی ، اخلاقی او راصلاحی ہو۔ مثلاً یہ سوال کہ بتائیے قرآن کی وہ کون سی سورت ہے جس میں نبی (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ آپ کا فروں سے کہئے تمہارا دین الگ میرا دین الگ ہے ۔یا یہ سوال کہ بتائیے وہ کون سی سورت ہے جس میں اُن نمازیوں کے لئے ویل (بربادی)بیان کی گئی ہے جو نماز میں سستی وغفلت برتتے ہیں ۔ وغیرہ۔   lll
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ 

مگر وراثت سے محرومی کا سبب نہیں

سوال:-ایک شخص ، جس نے اپنی اولاد کو ہررنگ میں آباد کیا ، انہیں مکانات تعمیر کرکے دیئے ،بڑھاپے میں سبھی اولاد کے ہاتھوں دغا کا شکار ہو جاتا ہے۔بالآخر اپنے داماد کے گھر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتاہے۔جہاں بیماری کی حالت میں کوئی بیٹا اس کے علاج معالجہ اور دیکھ ریکھ نہیں کرتا۔ رحلت کرنے پر اُسے کسی غیر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا جاتاہے ۔ عرصۂ دراز کے بعد اس کی اولاد اُس قبرستان کے حصے کو اپنا ورثہ تصور کرتے ہیں ۔ کیا یہ دُرست ہے ؟
عبدالرحمان … بتہ مالو ،سرینگر
جواب :-والدین کے حقوق قرآن وحدیث سے تفصیل وتاکید کے ساتھ ثابت ہیں اور نافرمانی کوحرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گناہ کبیرہ میں سب سے بڑا شرک ہے والدین کی نافرمانی ہے ۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے او راللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ۔ 
والدین کے حقوق میں خدمت ،اطاعت، ضروریات کو پورا کرنے میں کفالت اور ہر طرح کی راحت پہنچانا لازم ہے۔ اگرکوئی اولاد والدین کے ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہو تو اُس پر توبہ واستغفار بھی لازم ہے اور کثرت سے والدین کے مقبروں پر جانا بھی اور اُن کے لئے تسلسل سے واہتمام سے وہ دعا پڑھنا جو قرآن کریم میں ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ جوسورۃ اسراء میں ہے ۔ اولاد اگر پوری طرح نافرمان بھی رہی ہو تو بھی وہ اپنے والدین کی وراثت سے محروم نہیں ہوں گے ۔ اس لئے وراثت کا تعلق قرابت سے ہے ۔ خدمت اور حسن سلوک سے نہیں ہے ۔ وراثت کا حق جیسے فرمان بردار اطاعت گزار اور وفاشعار اولاد ہے کو اسی طرح نافرمان اور حقوق ادا نہ کرنے والی اولاد کو بھی ہے مگر نافرمانی اور والدین کو ذہنی یا جسمانی ایذارسانی اور حقوق کی عدم ادائیگی کی سزا دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ہوگی۔
س:- نمازِ جنازہ چار مسلکوں میں سے کس مسلک  میں سرًّا اور کس مسلک میں جہراً پڑھناجائز ہے ؟ اگرعوام کی کم علمی کومدنظر رکھتے ہوئے نماز جنازہ کو جہراً ادا کرنا بہتر سمجھاجائے تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ کون سی تکبیر کے بعد کیا پڑھناہے ۔کیا ایسا دُرست ہے ؟
بشیر احمد میر……ٹنگمرگ،کشمیر

نماز جنازہ سرّاً پڑھنا مسنون

جواب:- نماز جنازہ سرّا ہی پڑھنا سنت سے ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سرّاً ہی جنازہ پڑھاہے اور حضرت صحابہؓ نے بھی اور اُس کے بعد ساری اُمت اور چاروں مسلکوں کے تمام ائمہ اور عوام اسی پر عمل پیرا ہیں اور آج بھی پورے عالم میں حتیٰ کہ حرمین الشریفین میں بھی اسی پر عمل ہورہاہے کہ جنازہ سرّاً پڑھاجاتاہے ۔
جنازہ میں وہی کلمات اور دعائیں پڑھنی ہوتی ہیں جو عام نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں ۔ ہاں تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعائے مغفرت پڑھنی ہوتی ہے جو حدیث وفقہ کی کتابوں میں درج ہوتی ہے ۔ وہ دعا یاد کرنا ضروری ہے تاکہ میت کے جنازہ میں شریک ہوکر وہ دعاپڑھ سکیں ۔ 
اگر یہ خدشہ ہو کہ عوام کو جنازے میں پڑھے جانے والے کلمات ادا کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ جنازہ شروع کرنے سے پہلے تفصیل سے جنازہ کا طریقہ اور دعائیں سکھائی جائیں ،نہ کہ یہ کہ جنازہ خلافِ سنت جہراً پڑھا جائے ۔    ll

سلام کا مسنون طریقہ

سوال:۱-سلام کرنا مسلمانوں کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس میں مسلمان دوسری قوموں سے ممتاز ہیں ۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ سلام کے صحیح الفاظ اور درست تلفظ کیاہے ؟ ہمارے معاشرے میں قسم قسم کے الفاظ اور تلفظ کے ساتھ سلام کیا جاتاہے ۔ براہ کرم سلام کے صحیح الفاظ بھی درج فرمائیں اور جو جو غلط تلفظ ہے اُن کی نشاندہی بھی فرمائیں ؟
سوال:۲- غیر مسلم کو کن کن لفظوں کے ساتھ سلام کرسکتے ہیں ۔ کیا اُن کو السلام علیکم یا نمستے یا جے ہند کہہ سکتے ہیں ؟
سلام الدین …ڈوڈہ 
جواب:۱- انسانوں کے ہرطبقے اور ہر قوم میں ملاقات کے وقت اچھے الفاظ سے استقبال کرنا اور مزاج پرسی سے پہلے سلام کے عنوان کچھ نہ کچھ الفاظ بولنا ضرور پائے جاتے ہیں ۔ 
اسلام نے مسلمانوں کے لئے سلام کرنے کے جوکلمات  مقرر فرمائے ہیں ۔ اور وہ یہ ہیں : السلام علیکم۔
یہ لکھنے میں اسلام علیکم غلط ہے اور السلام علیکم صحیح ہے۔یعنی سین سے پہلے لام ضرور لکھا جائے ۔ 
سلام کے تلفظ میں بکثرت غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ اچھے ، معزز ، تعلیم یافتہ اور بعض دیندار حضرات بھی اس سلسلے میں احتیاط نہیں کرتے ۔ چنانچہ چند غلط تلفظ جومعاشرے میں رائج ہیں وہ یہ ہیں :
اِسلام علیکم ، سام علیکم ، اَسّام علیکم ، سَاء کَلَیکم، سانْ وَلیکم، سَلا ؤلیکم ، سَمْ لَیکم، سَامَلَکم۔ سائے مالائے کم ۔ وغیرہ 
اس لئے ضروری ہے اس طرح کے ہر غلط تلفظ سے بچنے اور اچھے اور درست تلفظ کے ساتھ سلام کرنے کا اہتمام اور کوشش کی جائے۔ دُرست تلفظ یہ ہے ۔لکھنے میں اس طرح ہے : السلام علیکم ۔ اس کو پڑھنے کا طریقہ ہے : اَسْ سَ لَ امْ عَ لَ یْ کُ مْ۔
AS-SALAMU. ALAIKUM
اگر اس میں ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ بڑھایا جائے تو بہت بہتر اور مزید باعث اجرہے ۔
سلام کرنا سنت اور جواب دینا واجب ہے ۔بعض لوگ اسلام علیکم کے جواب میں السلام علیکم بول دیتے ہیں، جو صحیح نہیں ۔اگر ایسا کیا جائے تو دونوں کو وعلیکم السلام کہنا واجب ہوتاہے ۔
جواب:- غیر مسلم کو ’’السلام علیکم‘‘ کہنا بھی درست نہیں اور نمستے یا اسی طرح کا دوسرا مذہبی یا اُن کا مخصوص لفظ بولنا بھی صحیح نہیں ہے ۔ ہاں آداب یا آج کے انگریزی کے الفاظ بولنے میں کوئی حرج نہیں ، مثلاً :
Good Morning, Good After Noon ۔