سوال: ۱۔صدقہ وغیرہ کے جو مختلف مَد قرآن میں بیان ہیں ،اُن میں تعلیمی اداروں کا ذکر نہیں ہے۔کیا عُشر زکواۃ و صدقات دینی اداروں، مدارس اور دارلعلوم کو دے سکتے ہیں؟
سوال : ۲۔زکواۃ اورعُشر وغیرہ کا جمع شدہ مال کہاں خرچ کرسکتے ہیں،کیا دینی اداروں اور مدارس کے اساتذہ و ملازمین کی تنخواہ اِس میں سے دے سکتے ہیں؟
سوال: ۳۔ کیا سبزیوں کی پیداوار پر عُشر دینا ضروری ہے؟
سوال: ۴۔ اکثر جگہوں پر بیت المال قائم کئے گئے ہیں،بیت المال کی اصل کیا ہے اور کون لوگ ان کو چلانے کے اہل ہیں؟
محمد گلزار میر ۔ڈولی پورہ ،ہندوارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینی تعلیمی اداروں کے لئے زکواۃ، صدقات وغیرہ کے مصارف کا استعمال جائز
جوابات : ۱۔زکواۃ ،صدقات اور عُشر کا مصرف قرآن کریم نے مقرر فرمادیا ہے۔ اُس مصرف میں غریب ومسکین بھی شامل ہیں،بلکہ سب سے پہلے اُنہی کو بیان کیا گیا ہے۔اب یہی غرباء و مساکین جب دینی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور وہاں دین ہی پڑھتے ہیں تو زکواۃ، عُشر وغیرہ اُنہیں پر خرچ کیا جاتا ہے۔اس کے دو فائدے ہوتے ہیں ۔ایک تو زکواۃ عُشر ادا ہوگیا ،اس لئے کہ وہ غرباء و مساکین پر خرچ ہوا اور دوسرا، اس خرچ کرنے سے علماء ،حفاظ ،مساجد کے امام اور دین کا کام کرنے والے افراد تیار ہوئے۔اس لئے کہ دینی تعلیم کے اداروں میں زکواۃ ،صدقات وغیرہ خرچ کرنا زیادہ فائدوں پر مشتمل ہے۔
تنخواہوں اور تعمیرات کے لئے استعمال جائز نہیں
۲۔جو اہلِ مدارس زکواۃ وغیرہ وصول کرتے ہیں ،وہ نہ تو تنخواہوں پر ،نہ تعمیر پر اور نہ ہی مدرسہ کے لئے خریدی جانے والی اسٹیشنری ،کتابوں وغیرہ پر خرچ کرسکتے ہیں۔اگر زکواۃ ،عُشر تنخواہوں ،عمارتوں کی تعمیر اور اس طرح کی دوسری ضرورتوں پر خرچ کی گئی تو وہ زکواۃ ادا نہ ہوگی اور اس کا گناہ زکواۃ دینے والوں پر نہیں ہوگا بلکہ زکواۃ لے کر صحیح مصرف پر خرچ نہ کرنے والوں پر ہوگا۔جو بھی ادارے زکواۃ ،صدقات ،عطیات ،عُشر وغیرہ جمع کرتے ہیں ،چاہے وہ مدارس ہوں ،مکاتب ہوں ،فلاحی ادارے ہوں یا بیت المال، ان سب پر لازم ہے کہ وہ زکواۃ و عُشر وغیرہ کے مسائل کو ٹھیک طرح سمجھیں ،سیکھیں اور پھر اُنہی کے مطابق عمل کریں۔یعنی زکواۃ وغیرہ جہاں خرچ کرنا دُرست ہو وہاں خرچ کریں۔ اس لئے زکواۃ و عُشر ادا کرنے والے اہل ِایمان زکواۃ و عُشر دیتے وقت صراحت سے پوچھیں کہ کیا وہ ان کا صحیح مصرف میں استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔مثلاً اگر صبح و شام کے کسی مکتب میں زکواۃ یا عُشر دیا گیا تو یا تویہ معلم کی تنخواہ میں خرچ ہوگا یا بلڈنگ کی تعمیر میں، ان دونوںمیں زکواۃ و عُشر صرف کرنا دُرست نہیں۔
کھیتوں میں اُگائی جانے والی سبزیوں پر عشر لازم
۳۔وہ سبزیاں جو مستقل ساگ زاروں میں پیدا کی جاتی ہیں اُن سبزیوں پر بھی عُشر اُسی طرح لازم ہے جیسے زمین کی پیداوار اناج اور پھلوں پر عُشر لازم ہوتا ہے۔البتہ مکانوں کے آس پاس صحنوں اور مکانوں سے ملحق زمینوں میں پیدا کی جانے والی سبزیوں پر عُشر لازم نہیں ہوتا کیونکہ وہ قطعہ زمین عشری نہیں ہوتا ،وہ مکان کے تابع ہوتا ہے۔
صدقات کے مصارف کے لئے علماء سے رہنمائی لی جائے
۴۔ بیت المال حقیقت میں اسلامی حکومت کے سرکاری خزانہ کا نام ہے ،اس لئے محلوں ،گائوں اور علاقوں میں چند حضرات کی طرف سے امدادی کاموں کے لئے جو ادارے قائم کئے جاتے ہیں وہ حقیقی بیت المال نہیں ہیں۔ اب جو لوگ صدقات ،صدقہ فطر ،عُشر وغیرہ جمع کرتے ہیں ،وہ اپنے ادارے کا جو بھی نام رکھیں اُن پر لازم ہے کہ ہر قسم کی جمع شدہ رقم نقدی و جنس انہی مصارف میں خرچ کریں جہاں خرچ کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے اور اُس کے لئے ضروری ہے کہ کسی مستند عالم یا مفتی سے مکمل رہنمائی لیتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال(۱) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ضبط تولید ( Birth Control) کرنے والا شخص مسلسل امامت نہیں کرسکتا ہے ۔اگر ایک عورت اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اور ا س کی اجازت کے بغیر نَس بندی کرائے تو کیا اس کا شوہر اس فعل میں ملوث ہے ؟کیا مسلسل امامت نہ کرنے کا حکم ایسے شوہر پر بھی صادر ہے؟۔
سوال(۲) کیا اسلامی ادارہ کھولنے کے لئے کہیں سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے یا رجسٹریشن کرنی پڑتی ہے ،کیا یہ ادارے کسی کے زیر سرپرستی ہوتے ہیں اور ان کا کوئی حساب و کتاب بھی ہوتا ہے؟ ان کی معاونت کرنے کا طریقہ ٔ کار کیا ہے؟۔
آج کل اداروں کی طرف سے نمائندے تعینات ہوتے ہیں جو گھر گھر جاکر معاونت کی رقم جمع کرتے ہیں۔ ان نمائندوں کی تنخواہیں مقرر ہوتی ہیں۔ وہ گھر گھر جاکر اس معاونت میں زکواۃ ،صدقات وغیرہ جمع کرتے ہیں۔کیا یہ طریقۂ کار دُرست ہے؟۔
سوال(۳)کشمیر میں لوگ اپنی زندگی کے معاملات کے نسبت حاجت روائی کے لئے پیروں ،فقیروں سے تعویز وغیرہ لے کر انکا استعمال کرتے ہیں ۔کیا یہ جائز ہے؟کہیں لوگ شرک میںملوث تو نہیں ہوتے ہیں؟۔
سوال (۴) ایک ملازم کو ریٹائر ہوتے وقت ایک مخصوص رقم یعنی commutationبطور ریلیف ملتا ہے، جو کہ تاحیات قسطوں میں دوگنی رقم کے ساتھ لوٹانا پڑتا ہے ۔اگر وفات پاگیا تو پھر معاف ہوگا۔ کیا یہ رقم لینا جائز ہے۔ اس کے علاوہ G P Fundسود پر حاصل ہونے والا سود لینا کہاں تک جائز ہے؟۔
سوال (۵) کشمیر میں میوہ اُتارنے کا موسم ابھی چل رہا ہے۔ لوگ عام طور پر میوےکو وقت سے پہلے ہی اُتارتے ہیں اور رنگ چڑھانے کی دوائی چھڑک کر جلد سے جلد اس کو بیچنے کے لئے تیار کرتے ہیں، جس سے اس کی زیادہ قیمت ملتی ہے۔ شریعت کے اعتبار سے اس کو کس نظریہ سے دیکھا جائے گا۔ کیا یہ جائز ہے،کیا اس سے حاصل شدہ پیسہ حلال ہے۔ کہیں یہ جعل سازی اور گناہ گاری میں تو نہیں آتا ہے، کہیں ہماری عبادت پر اس کا کوئی اثر تو نہیں پڑتا ہے؟
محمد یوسف لون ، رفیع آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضبطِ تولید کے حامل شخص کی امامت ۔۔۔؟
جواب : تحدید نسل جس کو’ برتھ کنٹرول‘ کہتے ہیں ،یہ اسلام کی عمومی تعلیمات و احکام کے خلاف ہے ۔اسلام تکثیر نسل کا قائل بھی ہے اور اس کا داعی بھی۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسی عورتوں سے نکاح کرو، جن سے زیادہ بچے پیدا ہوں گے ،اس لئے کہ میں قیامت کے دن اپنی اُمت کی کثرت تعداد پر فخر کروں گا۔ اس کے علاوہ خود قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ اپنی اولاد کو افلاس کے خوف کی بنا پر قتل مت کرو(سورہ اسراء)
غرض کہ قرآن و حدیث کے واضح حکم کے مطابق اولاد کم کرنا یا اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنا ،جس کو’ نس بندی‘ کہتے ہیں صریحاً منع ہے۔لہٰذا جو شخص بلا ضرورت شرعیہ اس کا ارتکاب کرچکا ہو ،اُس نے چونکہ گناہ ِ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے ،اس لئے اُس پر توبہ ہر حال میں لازم ہے۔پھر جب دل سے نادم ہوکر وہ تائب ہوگیا تو اس کے بعد اگر اُس کو کسی جگہ امام بنایا گیا تو اس کی امامت بھی درست ہوگی۔
فلاحی اداروں کے لئے کمیشن کی بنیاد پر چندہ جمع کرنا جائز نہیں
(۲) اسلام کے کسی بھی اجتماعی کام مثلاً دینی تعلیم یا غرباء و مساکین کے لئے امدادی ادارہ قائم کرنے کے لئے دیانت دار ،فکر مند ،دین کے اصول و احکام سے واقف ہونا ضروری ہے اور دینی ضوابط کے مطابق کام کا جذبہ رکھنے والے افراد ایسا ادارہ کھڑا کرسکتے ہیں۔یہ مدرسہ ہو یا مکتب یا پھر کوئی فلاحی ادارہ اور پھر اسے دین کے اصولوں و آداب کے مطابق چلایا جائے۔ اب اس ادارے کی طرف سے جب کوئی قابلِ اعتماد شخص زکواۃ، صدقات، عُشر و امداد وغیرہ لینے کے لئے بھیجا جائے اور وہ شخص تنخواہ لے کر یہ کام کرتا ہو، تو یہ طریقہ شرعاً درست ہے۔البتہ کمیشن کی بنیاد پر چندہ جمع کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ادارے قائم کرنے والے افراد، چاہے وہ مدرسہ ہو، مکتب ہو، یتیم خانہ ہو یا بیت المال، پہلے اچھی طرح اس کی مزید تفصیل معلوم کریں اور پھر ادارے چلائیں تاکہ زکواۃ، عُشر اور صدقات وغیرہ کی رقوم شرعی ضوابط کے مطابق خرچ ہوں۔
تعویز کا استعمال اور اسکے اہم پہلو
(۳) تعویز دو قسم کے ہوتے ہیں ۔بعض شرعی اصول کے مطابق اور بعض مشرکانہ ۔ایسےتعویز، جن میں نہ شرکیہ کلمات ہوں نہ کوئی ناجائز عمل کرایا گیا ہو،اُن کا ستعمال صرف علاج کے لئے درست ہے ۔مثلاً بیماری میں سورہ شفاء پڑھ کر دَم کرنا یا لکھ کر پلانا دُرست ہے لیکن اگر شرکیہ کلام لکھا گیا ،جس کو رُفیہ غیر شرعیہ کہتے ہیں یا جن کو حدیث میں تمائیم کہا گیا ،ایسے تعویز استعمال کرنا درست نہیں ہےاور جو لوگ اس طرح کے تعویز لکھتے ہیں ،اُن کے لئےتوبہ کرنا لازم ہے اور آئندہ اس غیر شرعی شرکیہ عمل سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
ریٹائر منٹ کے بعد ملنے والی commutationکی رقم ، اہم مسئلہ
(۴) ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد commutationکے نام سے جو رقم ملازم کو ملتی ہے، وہ رقم لینا جائز ہے، پھر اگر اس ملازم کی وفات ہوجاتی ہے تو اس کے نام لی ہوئی رقم اُس کے ورثا ء سے وصول نہیں کی جاتی بلکہ وہ معاف کردی جاتی ہے اور اگر ملازم زندہ رہا تو یہ رقم وصول کی جاتی ہے مگر رقم وصول کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی پنشن سے ایک مخصوص مقدار کی رقم کم کردی جاتی ہے اور یہ کم شدہ رقم کا سلسلہ اُس وقت تک قائم رہتا ہے جن تک وہ رقم بھی وصول نہ ہوجائے جوcommutationکے نام سے دی گئی تھی اور اُس پر مزید ایک مخصوص مقدار کی زائد رقم وضع نہ کی جائے۔ اس زائد رقم کا نام سود رکھا گیا ہے مگر یہ سودی رقم ملازم نہیں دیتا بلکہ اس کے پنشن سے وہ رقم وضع کی جاتی ہے۔اس لئے یہ ملازم نہ سود لینے والا ہے اور نہ سود دینے والا ۔لہٰذا commutationکی رقم لینا جائز ہے۔تفصیلی بحث و تحقیق کے بعد یہی مسئلہ طے کیا گیا ہے۔
کچے پھلوں پر رنگ چڑھانے کے لئے دوائی کا استعمال دھوکہ
(۵) وہ تمام ادویات جو میوے کو مختلف قسم کی بیماریوں سے بچاتی ہیں، ان کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔دوسری قسم کی وہ جن کا مقصد میوے پر صرف رنگ چڑھانا ہوتا ہے ،کچے میوے پر دوائی چھڑک کر رنگ چڑھانا ایک قسم کا دھوکا دینا ہے،خریدار سرخ رنگ کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ یہ فطری طور پر تیار شدہ سیب ہے حالانکہ یہ حقیقت نہیں ۔
����������