سوال:۔ کیا اسلام میں لباس کی کوئی حقیقت ہے؟ آج کل اکثر لوگ کہتے ہیں کہ لباس کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے دوسری چیزیں بدلتی ہیں لباس بھی بدلتا رہتا ہے۔ قرآن و حدیث کے حوالےسے تفصیلی جواب دیں۔
تنویر احمد
بارہمولہ
اسلام میں لباس کا تصّور اور نفسانیت و فیشن پرستی
جواب :۔ اسلام مکمل دین ہے اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کی زندگی کے ہر ہر معاملے میں وہ پوری طرح رہنمائی بھی کرے گا اور ہر ہر شعبۂ زندگی کے متعلق احکام و ہدایات بھی دے گا۔ احادیث کی کتابوں میں لباس کے متعلق مستقل ایک تفصیلی باب ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ لباس کی کوئی شرعی حقیقت نہیں یہ غلط بھی ہےاور لاعلمی بھی ہے یا اپنے غلط عمل کو درست ثابت کرنے کی حرکت ہے۔ لباس کے تین مقاصد ہوتے ہیں جسم کو ڈھانکنا، جسم کو سجانا اور موسم کی سردی وگرمی سے اپنے آپ کو بچانا۔ ان میں سے پہلا مقصد جسم کو ڈھانکا ہے یہ اسلام کا حکم بھی ہے اور فطرت انسانی کا تقاضا بھی ہے۔
قرآن کریم نے لباس کی پہلی خصوصیت یہی بیان کی ہے کہ وہ جسم خصوصاً اعضاء مخصوصہ کو چھپاتا ہے ۔ (سورہ اعراف)
اب اگر ایسا لباس پہنا چائے جو جسم کو نہ چھپائے تو وہ لباس چونکہ قرآن کے بیان کردہ مقصد کو پورا نہیں کر رہا ہے،اس لئے وہ غیر شرعی لباس ہوگا۔ آج کل بہت سارے لباس ایسے ہی ہیں۔
حدیث میں ہے کہ دو گروہوں کو جہنم میں جلتے دیکھاہے۔ ایک گروہ وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہونگی۔ گویا یہ امر ہونا طے ہے کہ لباس پہننے کے باوجود لباس کا پہلا مقصد جسم کو چھپاناپورا نہیں ہوگا ،اسلئے اُن کوننگا کہا گیا ۔اس اصول کی روشنی میں ہر وہ لباس غیر شرعی ہوگا جو اتنا تنگ اور چست ہو کہ جسم کے سارے اعضاء صاف صاف نمایاں ہو ںاور اعضاء کا حجم اتار چڑھائو دوسرے کو کھل کر نظر آئے جیسے مرد تنگ پتلون یا عورتیںسُتنا پہنتی ہیں۔ لہٰذا آج کی جینز پینٹ ،جو جسم کے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی ہے اور جس کو سکن ٹائٹ کہا جاتا ہے، یہ غیر شرعی ہے۔ چاہئےمرد پہنیں یا عورتیں۔ اسی طرح وہ شرٹ جو اتنی چھوٹی ہو کہ دونوں ہاتھ اوپر کر یں تو ناف کے نیچے کھل جائے اور کمر کو نیچے کی طر ف جھکا ئیں تو کمر کے نیچے کا حصہ ننگا ہو جاتا ہے،ایسی شرٹ غیر شرعی لباس ہے ۔اس میں نماز بھی ادا نہیں ہوتی اسی طرح حضرت نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے کہ وہ جو کسی دوسری قوم کی مشابہت یعنی نقالی کرے وہ انہی میں سے ہے ( ابو دائود)
اب اگر کسی نے وہ لباس پہنا جو کسی دوسرے طبقے مثلاً کھلاڑیوں ، فلم سٹاروں، ناچنے گانے والوں، یا کسی دوسری قوم کا مخصوص شعار ہو تو یہ غیر شرعی ہوگا کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔ آج کل عموماً فیشن کی بنا پر یہی دیکھا جاتا ہے۔دراصل ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان یہ معلوم کرے کہ میرا دین مجھے کون سا لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے اور نفسانیت وفیشن پرستی کا جذبہ یہ کہتا ہے کہ آج کل کس لباس کا چلن اورفیشن ہے ۔ان دونوں جذبوں کے نتائج الگ الگ نکلتے ہیں ۔جب انسان کا نفس فیشن پرستی کے سامنے جھک جاتا ہے تو اُسے اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کےلئے کوئی حیلہ درکار ہوتا ہے اور وہ حیلہ یہی ہے کہ شیطان اُس کے دل میں ڈالتا ہے کہ اسلام میں لباس کی کوئی حد بندی نہیں۔ یہ سوچ کر وہ اپنے آپ کو مطمئن کرتا ہے پھر ایک قدم آگے بڑھ کر وہ دوسروں سے بھی یہی کہنے لگتا ہے۔ اُس وقت وہ اسلامی احکامات کی تشریح نہیں بلکہ اپنے عمل کی صفائی اور اس کی تائید کرنے کی کوشش کرتا ہےمگر خود اُسے خبر نہیں ہوتی کہ وہ اسلام کی تحریف کی کوششیں کر رہا ہے۔اگر کوئی شراب کا عادی یا رقص و سرور کا شوقین یہ کہنے لگے کہ اسلام میں یہ منع نہیںتو کیسے یہ بات درست ہوگی۔ اسی طرح اپنے فیشن پرستی کے شوق کی تسکین کےلئے کوئی یہ کہنے کہ لباس بھی بدلتا رہتا ہے اور اسلام میں کوئی لباس متعین نہیں تو یہ اسلام سے لا علمی ہے اور عمل نہ کرنے کے بہانے ہیں۔
سوال:۔ ہمارے معاشرے میں منشیات کی مختلف قسمیں بہت تیزی سے رائج ہو رہی ہیں ۔نوجوان بہت تیزی کے ساتھ منشیات کاعادی ہوتے جا رہے ہیں ۔ شریف اور معزز خاندانوں کے بچے اس میں بُری طرح پھنس رہے ہیں ۔شراب اور دوسری منشیات کا پھیلائو بہت زیادہ ہے ۔شراب خانوں کے باہر شراب لینے والوں کی لائینںلگی ہوتی ہیں۔ کہیں پر خفیہ اور کہیں پر کھلم کھلاشراب ، چرس اور دوسری منشیات کی فروختگی کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ یہاںجموں میں حال زیادہ ہی بُرا ہے ۔ برائے مہربانی تفصیل کے ساتھ منشیات کے متعلق قران اور حدیث کے مطابق روشنی ڈالیں۔میں میڈیکل شعبہ سے وابستہ ایک ڈاکٹر ہوں میرے سامنے بہت شرمناک اور افسوسناک واقعات ہیں۔
ڈاکٹر نجیب اشرف۔۔۔۔۔۔۔جموں
منشیات کی خوفناک وباء………….
نجات کےلئے انفرادی اوراجتماعی جد وجہد کی ضرورت
جواب :۔ اللہ نے انسان کو جن مخصوص اور اہم نعمتوں سے نوازا ہے اُن میں ایک خاص اور ممتاز نعمت عقل و فہم او رشعور و ادراک بھی ہے۔ یہ عقل ہے کہ جس کی وجہ سے انسان خلافت کا مستحق قرار پایا اور اسی عقل وشعور کا بہترین ثمرہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو قسم قسم کے سائنسی ،صنعتی اور تمدنی وسائل اور ایجادات سے آراستہ کر رہا ہے ۔اس عقل کی اہمیت اس درجہ ہے کہ اللہ جل شانہ ‘ بار بار قرآن مجید میں اس عقل کو کام میں لانے اوراس سےغور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ عقل ایک جوہر ہے جو انسان کو دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز کرنے کا ذریعہ ہے اوراس عقل کو تباہ کرنے والی چیز نشہ ہے ۔ نشہ انسان کی عقل اور تمام عقلی سرگرمیوں کو معطل کرنے ،اُن میں خلل ہی نہیں بلکہ شدید حد تک نقصان پہونچانے کا سبب ہے ۔ اسی لئے اسلام نے تمام ایسی منشیات کو سخت حرام قرار دیا ہے جوانسان کو پاگل بنائے۔ قرآن مجید نے شراب کو اسی لئے حرام قرار دیا ہے اور ناپاک بھی۔ نشہ انسان کو ظاہری ناپاکی کے ساتھ اخلاقی و روحانی نجاست سے بھی آلودہ کرتا ہے اس لئے کہ نشہ کی حالت میں انسان سے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا صدور ہوتا ہے۔ وہ زبان سے گالیاں بکتا ہے دوسروں کو لعن طعن کرتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر فحش حرکات کا اقدام کرنے پر بھی اُس میں کوئی غیرت یا حمیت باقی نہیں رہتی۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ نشہ میں لت پت یہ انسان اپنی ماں یا بیٹی میں بھی تمیزنہیں کر پاتا۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے (بخاری) اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جس شیٔ کی کثیر مقدار نشہ کا سبب بنے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہے کہ شراب کا ایک قطرہ بھی اسی طرح حرام اور نجس ہے جیسے اس کی زیادہ مقدار حرام ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نشہ کی ابتداء انسان بہت معمولی مقدار سے کرتا ہے اور پھر اسکی عادت ہر اگلے مرحلے میں زیادہ کی طلب گار ہوتی ہے، حتیٰ کہ انسان زہریلے انجکشن تک لگانے لگتا ہے۔
نشہ چاہئے شراب کا ہو چرس کا ہو ، افیون کا ہو یا کسی اور چیز کا اور چاہئے اسے پانی کی طرح پیا جاتا ہو یا بذریعہ انجکشن جسم میں بھرا جاتا ہو پھر وہ پی جانےو الی نشلی چیز ،چاہئے وہسکی کے نام کی ہو یا برانڈی یا پھررم کے نام کی ،سب کے سب حرام ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں خاص قسم کی شراب میں نشہ کی مقداربہت کم ہے ،یا عادت پختہ ہونے کی وجہ سے وہ بے قابو نہ ہوتا ،تو بھی یہ شراب ہی ہے اور بہر حال حرام ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے قریب زناکاری عام ہوگی اور شراب کثرت سے پی جائے گی اور جہالت کا دور ِ دورہ ہوگا ( بخاری) ۔آج کا عہد اسی کا نقشہ پیش کر رہاہے کہ تعلیم کے عام ہونے اور انفارمیشن کے پھیلائو کے باوجود دین سے بے خبری بھی عام ہے اور بے عملی اس سے زیادہ ہے۔ بہت سے اعلی تعلیم یافتہ دین کی بنیادی باتوں سے بھی لاعلم ہیں اور بے عمل بھی اورا س پر طرہ یہ ہے کہ اس لاعلمی اور بے عملی کا کوئی احساس نہیں ہے ۔اس طرح قسم قسم کی منشیات کا دوردورہ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نشہ کی تمام اقسام انسان کی صحت کےلئے نہایت مضر ہیں ۔یہ ایک نرم رفتار زہر ہے جو انسان کو اندر ہی اندر سےکھوکھلا کرتاہے۔ چنانچہ کتنے ہی اعلیٰ دماغ کے لوگ شراب نوشی کی کثرت کی بنا پر اپنے دماغ سے وہ کام اور اپنے وجود سےوہ کارنامے انجام نہیںدے پاتے جس کی صلاحیت اُن کو عطا ہوئی تھی۔شراب اور دوسری منشیات کی وجہ سے ہاضمہ کی خرابی، جگر کی خرابی، ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں، ہڈیوں کی کمزوریاں، حافظہ کی کمزوری، کئی قسم کے کینسر، نیند کا کم ہونا، اعصاب کا متاثر ہونا، نظام تنفس کا متاثر ہونا، دماغی امراض مثلاً نسیان، دوران سر، مرگی، جنون، قوت فیصلہ کا کمزور ہونا جلدکی بیماریاں اور جنسی امراض کا لاحق ہونا تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے۔
معاشرتی مسائل پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب بھی یہی منشیات ہیں۔ نشہ کے عادی لوگ، چوری، ڈکیٹی، فراڈ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ، گھریلو جھگڑے، مارپیٹ کرنےاوراپنے بیوی بچوں کو ضروریات زندگی حتیٰ کہ ضرورت کے کھانےسے بھی محروم رکھنے میںبھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ نشہ کے عادی اپنی ازدواجی زندگی میں بھی نہایت نفرت رسانی کے اقدام کرتے ہیں۔ رفیقہ حیات کی مارپیٹ ، گالی گلوچ حتیٰ کہ کبھی غیر اخلاقی حرکات کی انجام دہی پر بھی اصرارکرتے ہیں۔
نشہ کی وجہ سے نفسیاتی خرابیاں بھی ہوتی ہیں۔ منشّیڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ تردد، وہم ، خوف اوربزدلی اُس پر چھائے رہتے ہیں۔ بر وقت کوئی فیصلہ کرنے کی قوت بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ وہ خاندان سے الگ تھلگ رہنےاو رنشہ میں چور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بچوں سے بھی وحشت بلکہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ شراب کے اخلاقی نقصانات تو بہت زیادہ ہیں ۔نشہ میں بدمست انسان بدکلامی ہذیان گوئی اوراُول فول بکتے رہتےہیں۔ ہوش کی حالت میں جس بات کو سوچنا بھی وہ انسان گوراہ نہیں کرتا نشہ میں وہی بکتا ہے مگر احساس نہیں ہوتا۔ یہ سب اخلاقی نقصانات ہیں۔ اسلئے محسن انسانیت ﷺ نے شراب کو اُم الخبائث بھی برائیوں کی جڑ اور اُم الفواحش یعنی بے حیائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ شراب کی وجہ سے دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے ۔وہ ہیں شراب نچوڑنے والا، شراب نچوڑنے کا عمل کرنےوالا، شراب پینے والا، شراب ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والا، شراب پلانے والا، شراب خریدنے والا، شراب بیچنے والا، شراب کی کمائی کھانے والاجس کے حکم سے اس کے پاس شراب لائی جائے( ترمذی)۔
شراب اور دوسری منشیات کے انسداد کے لئے ایک جامع اور ہمہ گیر مگر موثر طریقہ کار اپنانا اور معاشرے کے ہر طبقہ کا اس میں تعاون دینا ہی اس کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ انسدادی قوانین بنائے جائیں منشیات کی ہر قسم کی خرید و فروخت پر سخت پابندیاں ہوں۔ تعلیمی اداروں میں اس کے نقصانات کو بار بار مؤثر انداز میں سمجھایا جائے میڈیا کے ذریعہ شراب کے نقصانات کو اور شرابیوں اور دوسری منشیات سے تباہ حال لوگوں کے احوال سامنے لائے جائیں۔
اہل ایمان کو ایمانی غیرت کی بنا پر اس سے بچنے کےلئے سمینار کا نفرنسیں ،مجالس تذکیر اور رابطے کےپروگرام منعقد کرنے چاہیں۔نشہ کے عادی لوگوں کو ان عادتوں سے بچانے کی تدابیر جو ماہرین نے مقرر کی ہیں اختیار کی جائیں۔ معاشرے میں منشیات سے جُڑے لوگوں پر اخلاقی دباؤ بڑھایا جائے ۔والدین اپنے بچوں پر خصوصی نگرانی رکھیں۔ اُنہیں ہوٹلوں اور ایسے مقامات میں جانے سے روکا جائے جہاںمنشیات کی دستیابی ہوتی ہے۔ غر ض کہ ایمانی ، اخلاقی، معاشرتی، قانونی اورتذکیری ، غرض ہر ہر پہلو سے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش معاشرے کےہر طبقے کی طرف سے ہونے لگے تو اچھے نتائج سامنے آنا یقینی ہے۔
سوال:۲-کچھ مسجدوں میں متولی مسجد بغیر ٹوپی نماز پڑھنے نہیں دیتے خاص کر نوجوانوں اور بچوں کو ۔اگرچہ خود داڑھی نہیں رکھتے ، راہنمائی کریں ۔
سوال:۱-سردیوں میں کچھ لوگ عموماً تنگ دراز ٹانگوں میں پہن کرنماز ادا کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ کچھ جواز نکالتے ہیں ؟
ابوالمبشر علی
ننگے سر نماز پڑھناخلاف سنت
جواب:۲-ننگے سر نماز پڑھنا سراسربدعت اور سنت کے خلاف ہے ۔ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے پوری زندگی میں کبھی کوئی نماز ننگے سر نہیں پڑھائی ہے ۔ نہ حضرات صحابہ کرامؓ سے کبھی اس کا کوئی ثبوت ملتاہے کہ انہوں نے کوئی فرض نماز یا سنت ننگے سر ادا کی ہو۔ اس لئے قرآن کریم کے حکم کے مطابق نماز کی ادائیگی کے لئے زینت اختیار کیاجائے ۔سورہ اعراف آیت 31میں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور زینت میں جب مسنون لباس کے مطابق ہی عمل کرنا ہوگا تو حکم قرآن پورا ہوگا۔
نماز اور تنگ لباس
جواب:۱-وہ تنگ اورچست لباس جس سے جم کے اعضاء ،خصوصاً ران اور سُرین کا حجم ،نمایاں طور پر محسوس ہو۔ اس لباس کو پہن کر نماز پڑھنامکروہ ہے ۔لہٰذا صرف دراز پہن کر یا ستھنا پہن کر جونماز پڑھی جائے وہ مکروہ ہے ۔ جس لباس کو پہن کر کسی دفتر یا کسی معزز تقریب میں نہ جاسکیں وہ لباس پہن کر نماز کیسے ادا ہوگی۔