سوال: ۔ حضرت ! دنیا بھر کو اس وقت موسمیاتی و ماحولیاتی تغیر کا شدت کے ساتھ سامنا ہے۔ کرۂ ارض کے کم و بیش سبھی حصوں میں موسموں کے اوقات میں تیزی کے ساتھ تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ اسکی وجہ سے کئی علاقوں میں بے وقت کی بارشوں سے تباہ کاری مچ رہی ہے جبکہ متعدد خطوں میں خشک سالی کی وجہ سے پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ ایسے حالات میں ماہرین پانی کو تحفظ فراہم کرنے اور اسکے استعمال میں کفایت برتنے پہ بہت زور دے رہے ہیں۔ ہم چونکہ عادتاً پانی کا بے تحاشہ استعمال کرتے آئے ہیں، لہٰذا ظاہر بات ہے کہ اس نئی صورتحال سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے ہیں۔گھروں کے صحن صاف کرنے ، گاڑیاں دھونے اور ہمچو قسم کے کاموں میں پانی کا بے تحاشہ ، یہاں تک کہ مصرفانہ استعمال ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ اور تو اور نماز کےلئے وضوبناتے وقت نل کھلا رکھنا، جس سے کافی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے، ایک روز مرہ کی صورتحال ہے۔سوشل میڈیا کے توسط سے موصولہ تفصیلات کے مطابق رواں برس کےفریضہ حج کے دوران امام کعبہ نے خطبہ حج کےد وران بھی وضو بناتے وقت پانی کے ضیاع کا ذکر کرکے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یقینی طور پر آنے والے ایام میں امت مسلمہ ، جو پہلے ہی مختلف بہانوں سے دنیا بھر میں تنقیدو تنقیص کا شکار ہو رہی ہے، کوماحولیاتی بگاڑ اور پانی کے فضول استعمال کےلئے ہدف تنقید بناے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں کیا راہ اختیار کرنی چاہئےنیز ماحولیاتی تحفظ، خاص کر پانی کے استعمال کے حوالے سے شریعیت کے کیا احکامات ہیں۔
وسلام
شوکت احمد بٹ
لین نمبر۔۔۔۔14،فردوس آباد بٹہ مالو سرینگر
روز مرہ زندگی میں پانی کا مصرفانہ استعمال ۔۔۔۔۔ شرعی نکتۂ نظر
جواب:۔ پانی وہ عظیم نعمت ہے جس کے بغیر حیات ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان ، جانور، پرندے ، زمین سے اُگنے والی فصلیں ، تمام قسم کے اناج، سبزیاں، پھل ، درخت، گھاس یہ سب پانی کی وجہ سے زندہ ہیںاور زندگی باقی رکھنے کےلئے ان تمام کوجس چیز کی سب زیادہ ضرورت ہےوہ پانی ہی ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے جو خود بھی پاک وصاف ہے اور دوسری ہرگندگی کو بھی صاف کردیتا ہے اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر چیز کی زندگی پانی پر موقوف رکھی ہے ۔چنانچہ سائنسی طور پر بھی یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ انسان سے لے کر کائنات کی ہر ہر چیز کی حیات کےلئے ہوا اورپانی سب سے اہم عناصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے سیاروں پر زندگی کے امکانا ت تلاش کئے جاتے ہیں تو سب سے پہلے ہو ااور پانی ہی کی تلاش کی جاتی ہے ۔ قرآن میں یہ بھی ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ہی ہیں جس نے آسمان سے پاک پانی اتارا تاکہ اس سے مردہ آبادیوں کو زندگی دیں اور اپنے پیدا کردہ جانوروں اور انسانوں کو بھی پلائیں۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ہم نے آسمان سے پانی اتارا اس سے ہم تم کو سیراب کرتے ہیں ورنہ تم اس پانی کو ذخیرہ کرکے نہیں رکھ سکتے ہو ۔ایک مقام پر یہ فرمایا ہم پانی کی ایک مخصوص مقدار برساتے ہیں اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا، انسان اپنی غذائوں کے پیدا ہونے کے نظام پر غو ر کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم پانی اچھی طرح برساتے ہیں، پھر زمین کو پھاڑ کر اس پانی کو اس میں جذب کرتے ہیں، پھر اس زمین سے طرح طرح کے اناج پھل اور درخت اگاتے ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا :کیا تم اس پانی پر غور نہیںکرتے جو تم پیتے ہو، کیا تم نے اس کو آسمانوں سے اُتارا ہے یا ہم اتارتے ہیں ۔اگر ہم چاہیں تو پانی کو کڑوا کر دیں تو پھر کیا شکر کرو گے ۔ایک جگہ ارشاد ہے کہ اگر ہم پانی کو زمین کی زیادہ گہرائی تک لے جائیں تو تم واپس اوپر کیسے چڑھائو گے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں آیات ہیں جن میں اللہ جل شانہ نے پانی کی نعمت اس کے فوائد اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی قسم قسم کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام نے بھی پانی کے متعلق طرح طرح کے ارشادات فرمائے ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ سے دریافت کیا گیا کہ ایسی کون سی چیز ہے جس سے انسانوں کو استعمال سے نہیں روکا جاسکتا ہے آپ ؐ نے فرمایا پانی۔
ایک حدیث میں آپ ؐ کا ارشاد ہے کہ تین چیزوں پر تمام انسان برابر کا حق رکھتے ہیں، پانی آگ اور خودرو گھاس ۔ ایک حدیث میں فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جو سب کےلئے عام ہیں پانی ، گھاس اور ہوا ۔غرض کہ پانی کی اہمیت و افادیت اور بقاے زندگی کے لئے اس کی ضرورت قرآن سے بھی واضح ہے، احادیث رسول ؐ سے ثابت ہے، سائنسی تحقیقات سے بھی اور عام انسانی عقل و مشاہدےسے بھی ۔
مسلمانوں کےلئے پانی کی اہمیت کا ایک اہم اور مزید سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی عبادت کےلئے وضو، غسل ، طہارت اور صفائی کے مکلف ہیں اور یہ طہارت جسم کےلئے بھی ہے اور کپڑوں کے بھی ۔حکم دونوں کےلئے ہے ،اسی اہمیت کی بنا پر پانی کی حفاظت کا بھی حکم ہے ۔اس کو بچانے کی بھی تاکید ہے اس میں فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے۔ اس میں گندگی ڈالنے سے سخت ممانعت کی گئی ہے اور ضروت کی جگہ بھی صرف بقدر ضرورت پانی خرچ کرنے کی تاکید کی گئی۔چنانچہ ارشاد رسول ؐ نے ان تین غلط کاریوں سے پرہیز کروجن کی بنا پر تم لعنت کے مستحق بن جائو گے۔پانی میں پاخانہ ڈالنا ،کھلی سڑکوں پر پاخانہ کرنا اور پھل دار درخت کے نیچے پاخانہ کرنا۔
آ پ ﷺ نے ایک مرتبہ نہر کے کنارےوضو کیا تو برتن میں پانی الگ لے کر وضو فرمایا اور پھر برتن میں جو پانی بچ گیا وہ نہر میں واپس ڈال دیا۔ ( ابو دائود) ایک مرتبہ ایک صحابی کوآپؐ نے نہر پر وضو کرتے دیکھا۔ وہ ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کر رہے تھے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا یہ اسراف ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بہتے ہوئے دریا میں وضو کریں اور زیادہ پانی استعمال کریں تو کیا یہ بھی اسراف ہےتو آپ ﷺ نے فرمایا بے شک یہ بھی اصراف ہے( او کماقال)
خود جناب رسول اکرم ﷺ بہت کم پانی سے وضو اور غسل فرماتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ ایک مد(MUD) پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔ یہ حدیث ترمذی میں ہے۔ ایک مد ایک مگ اور ایک صاع تقریباً دو کوزے کے بقدر پانی کی مقدار ہے۔یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک مستند عالم ،جو حدیث کے ماہر بھی ہیں اور عہد نبوی کی استعمالی اشیاء کی تحقیق کا خاص شوق اور جذبہ رکھتے ہیں انہوں نے مد کی تحقیق کی پھر اس کی دریافت کی اور اسی جیسا پانی کا ایک مگ تیار کر ایا۔ اور دنیا بھر کے اہم اہل علم کو وہ مگ جو بنوی مُد کے مشابہ ہے بھیجا ۔چنانچہ راقم الحروف کو بھی خوش قسمتی سے اس کی ایک کاپی ملی۔ یہ عالم حدیث برطانیہ میں ہیں اس کو دیکھ کر پورا مشاہدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ تقریباً دو گلاس پانی سے وضو فرماتے تھے۔چنانچہ اس مُدکا مشاہدہ کوئی بھی کرسکتا ہے۔
پانی کے ان احکامات کی بنا پر ہر انسان اور خاص طور پر ہر مسلمان پر یہ امور شرعاً لازم ہیں۔
پانی کو ضائع کرنے کی بُری عادت ترک کریں۔ اسلئے وضو چاہئے گھر میں کریں یا مسجد میں یاپھرکسی بھی کھلی جگہ پر ،پانی کا نلکہ کھلا چھوڑ کر ہر گز وضو نہ کیا جائے ۔ اس طرح نلکہ کھلا رکھ کر وضو کرنےسے یقیناً نصف بالٹی پانی خرچ ہوتا ہے اور اگر نلکہ کھلا رکھ کر مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کیا جائے تو ایک بالٹی کے بقدر پانی ایک شخص کے وضو میںخرچ ہوجاتا ہے اور یقینایہ حدیث رسول ؐ کے خلاف ہے۔ اور بلا شبہ یہ وہ اسراف ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا حتیٰ کہ بہتے ہوئے دریا میں بھی اس سے بچنے کی تاکید کی گئی۔ اسی طرح غسل میں صرف ایک درمیانہ درجے کی بالٹی، جس کو انسان بآسانی اُٹھا سکے، میں بھرے پانی سے غسل کیاجائے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام ایک صاع ( دو لوٹے کے بقدر پانی) سے غسل فرما لیتے تھے تو ہم اس سےکہیں زائد ایک بالٹی جو چھ سات لوٹے ہوتے ہیںسے غسل کیوں نہیں کرسکتے۔ دوسرا اہم ترین امر یہ ہے کہ پانی میں گندگی خصوصاً پاخانہ ڈالنے سے مکمل پر ہیز کیا جائے، اس لے کہ یہ حرام ہے اور اس کی بنا پر انسان مستحق لعنت ہو جاتا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دریا ئوںاورجھیلوں کے کناروں پر آبادی کی کثیر تعداد اپنے بیت الخلاء کا فضلہ پانی میں ڈالنے کا سنگین جرم کر رہی ہے۔ بہت سے ہوٹلوں اور ہائوس بوٹوں کا سارا فضلہ پانی میں ڈالا جا رہا ہے ۔مرے ہوئے جانور مثلاً کتے بلی بھی پانی میں ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ گھروں ، سڑکوں کی صفائی کرکے کوڑا کرکٹ بھی پانی میں ڈال دیتے ہیں پھر جب اس دریا اور جھیل کا پانی ہماری زمینوں میں باغات میں اور سبزی اُگانے میں صرف ہوتا ہے تو پھر زمین سے پیدا ہونے والی یہ تمام چیز آلودہ پانی کی وجہ متعفن بلکہ سخت مضر ہوتی ہیں۔ آج پھیلی ہوئی متعدد بیماریوں کا ایک اہم سبب یہی ہے کہ آلودہ پانی سے اُگنے والے اناج، پھیل، سبزیاں مضر سخت ہیں اور یہ سب انسانوں کی خود کارستانی ہے۔ صاف و شفاف دریا، چشمے اور جھیلیں طر ح طرح کی گندگیاں ڈالنے سے زہر آلود کر دیتے ہیں اور نتیجتاً خود کو اور دوسرے انسانوں کوہی نہیں بلکہ جانور وںاور زمین سے اُگنے والی تمام اشیاء کوطرح طرح کی مضرتوں کا شکار بنا رہے ہیں۔
پانی ضائع کرنے کا غلط طرز عمل یہ بھی ہے کہ پینے کا پانی مہیا کرنے والا محکمہ بڑی محنت اور تندہی سے پانی مہیا کرتا ہے مگر لوگ وہ پینے کا پانی گاڑیوں کے دھونے میں، فٹ پاتھ صاف کرنے میں اور اپنے گھروں کےلان اور پارکیں سیراب کرنے میں ضائع کرتے ہیں ،یہ سخت مجرمانہ فعل ہےاوراس سے سختی سے بچنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح چوری کے کنکشن لے کر پانی لینا شرعاً بھی ناجائز ہے اور قانوناً بھی جرم ہے ۔ حیرت اور حسرت ہے کہ انسان پانی بھی حلال طریقے سے استعمال کرنے میں کوتاہی کرے تو پھر کمائی ہوئی دولت اور کون سے ایسے مصرف پر صرف کرنی ہے جو اس سے زیادہ ضروری ہے۔
مساجد میں چوری کا کنکشن لے کر پانی مہیا رکھنا اور فیس ادا نہ کرنے کی غرض سے یہ چوری کرنا اور پھر اُس پانی سے وضو کرکے نماز یں ادا کرنا کیسے درست ہوگا اور اُن نمازوں کی قبولیت کی اُمید رکھنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ اس چوری کا کنکشن چاہئے گھروں کےلئے ہو یا مسجدوں کے لئےسراسرغیر شرعی ہے ۔اس لئے مساجد کی منتظمہ ہر گز ہر گز چوری کا پانی استعمال نہ کرائیں اور نمازی بھی اس کی فکر کریں کہ اُن کی مسجدوں میں جو پانی استعمال ہو رہا ہے وہ شرعی ضوابط کےمطابق پاک وصاف اور حلال ہے بھی یا نہیں اس لئے باقاعدہ کنکشن لینا اور پوری پوری فیس ادا کرنا ضروری ہے۔ یہی شرعی حکم ہے اور اس پر کار بند ہونا ہر مسلمان پر لازم ہے اس کے ساتھ ساتھ پانی کو گندہ کرنے کا ہر وہ طرز عمل پوری قوم کو ترک کرنا ضروری ہے جو اس وقت چل رہا ہے اس لئے گھروں ، ہوٹلوں، ہائوس بوٹوں اور سڑکوں کا فضلہ پانی میں ڈالنے سے پوری طرح پرہیز کرنا ضروری ہے۔ ورنہ پوری قوم لعنت کی مستحق ہوسکتی ہے ۔ اسلئے حدیث رسول ؐ میں اس کو مورد لعنت بنانے والاجرم قرار دیا گیا ہے۔
پانی مہیا رکھنے والا ادارہ اور اس کے افسران و ملازمین خدمت خلق کے ایک عظیم کام کو انجام دینے کی ذمہ داری لئے ہوئے۔ وہ یہ حدیث پیش نظر رکھیں۔ ایک شخص درباررسالتؐ میں سوال عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے بہت گناہ سر زد ہوتے ہیں،میں کیا کروں تو زبان رسالت ﷺ سے ارشاد ہوا لوگوں کو پانی پلائو تمہارے گناہ جھڑ جائیں گے۔ ایک بدکار خاتوں نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تو اس پر اس زنا کار خاتون کی مغفرت ہوگئی۔ ایک جنگل میں ایک عابد اور ایک گنہگار شخص تھے پیاس کی وجہ سے عابد مرنے کے قریب ہوگیا ۔ گنہگار نے اپنا پانیعابد کو پلایا اور خود کو پیاس کی مصیبت میں ڈال دیا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صرف اس پیاسے کو پانی پلانے کی وجہ سے اُسے مغفرت اور جنت ملے گی۔