کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

 سوال:۔ آج کل سردیوں کے موسم میں بہت سارے نمازی حضرات کو پریشانی رہتی ہے کہ بار بار وضو ٹوٹتا ہے۔ سردی کی شدت سے پیشاب آنے کی پریشانی رہتی ہے۔ پیشاب پھیرلینے کے بعد بھی قطرے آتے رہتے ہیں۔ کبھی پیشاب کیا، وضوکرنے بیٹھ گئے پھر قطرہ آگیا۔ کچھ لوگوں کو گیس کی شکایت رہتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ شخص کیا کرے۔کیا معذور شخص اس طرح نماز ادا کرسکتا ہے۔ بار بار وضو کرنا بڑی مشکل بات ہے ۔شرعی طور پر اس کےلئے کوئی رخصت ہے کہ ایسے نمازی کو کوئی آسانی یا معافی میّسرآئے۔ شرعی طور پر یہ معذور ہے یانہیں؟
محمد عادل
باغ مہتاب سرینگر

قطروں کا عارضہ اور وضو کی بار بار ضرورت۔۔۔۔ ایک اہم مسئلہ 

جواب:۔ شرعی طور پر معذور وہ شخص کہلاتاہے جس پر ایک نماز کا مل کا وقت اس حالت میں گذر جائے کہ اس کا عذر تسلسل سے اس طرح جاری رہے کہ وہ وضو کرکے طہارت ہی کی حالت میں نماز مکمل نہ پڑھ پائے۔ مثلاً کسی شخص کو پیشاب کے قطرے لگاتار اس طرح آتے رہے کہ اس کو اتنا وقت نہ مل پایا کہ وہ وضو کرکے پاک حالت میں نماز ادا کر پائے، ایسے شخص کو شرعی معذور کہا جاتا ہے۔ معذور قرار پانے کے بعد اب دوسری کسی بھی نماز کے پورے وقت میں اگر ایک دفعہ بھی یہ عذر پیش آگیا تووہ معذور ہے ۔اب پورےوقت اس عذر کے محیط ہونے کی شرط نہیں رہے۔
جب ایسے معذور شخص پر ایک پوری نماز کا وقت اس حال میں گذر جائے کہ اُسے عذر پیش نہیں آیا تو اب وہ غیر معذور نہ رہے گا اور اس کا شرعی حکم بھی بدل جائے گا۔
معذور بننے کےلئے صرف عذر کا بار بار پیش آنا کافی نہیں بلکہ عذر کا ایک پوری نماز کے پورے وقت پر محیط ہونا ضروری ہے۔ پھر معذور بن جانے کے پورے وقت کے درمیان صرف ایک مرتبہ عذر پیش آنے پر معذور بنے رہنے کےلئے کافی ہے۔
جب کوئی شخص شرعی درجہ میں معذور قرار پائے تو اس کے لئے شرعی طور پر یہ سہولت اور رخصت ہے کہ نماز کا وقت شروع ہو جانے پر وہ وضو کر لے۔ پھروقت کے ختم ہونے تک اس کا یہ وضو برقرار رہے گا چاہئے اس درمیان یہ عذر اُسے بار بار پیش آتا رہے، توہ معاف ہے۔ ہاں! اس کےعلاوہ کوئی اور ناقضِ وضو پیش آیا تو اس سے یہ شخص بے وضو بن جائے گا۔ اب اس کےلئے حکم ہے کہ جب کسی نماز کا وقت داخل ہوگیا تو یہ شخص وضو کرے اوراس وضو سے وہ فرض نماز بھی ادا کرسکتا ہے، نوافل پڑھ سکتا ہے اور تلاوت بھی کرسکتا ہے۔
مثلاً ایک شخص کو مسلسل پیشاب کے قطرے خارج ہوتے رہتے ہیں اور اتنا وقت اُسے نہیں مل پاتا کہ وہ وضو کرکے نما زپاک حالت میں مکمل پڑھ پائے تو یہ نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرے اور اس عذر کے بار بار  پیش آنے کے باوجود اس کو نماز پڑھنے کی اجازت ہوگی۔ ہاں اگر کوئی دوسرا ناقضِ وضو پیش آگیا، مثلاً ریح خارج ہوگئی تو اس سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
جو شخص معذور بن ،گیا اُس کو اجازت نہیں کہ وہ دوسروں کو نماز پڑھائے لہٰذا وہ امامت نہیں کرسکتا۔
جس شخص کو پیشاب کر لینے کے بعد کافی دیر تک قطرے آتے رہتے ہیں اُس کو چاہئے کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد کھڑا ہو کر اچھی طرح مٹی یا ٹیشو پیپر استعمال کرے۔ چند قدم دائیں بائیں چلے۔ پیٹ کے نیچے حصے کو اور پسلیوں کے نیچے تھوڑا دبائے تاکہ تمام قطرے نکل آئیں۔ اس کے بعد استنجا کرے اس طرح کرتے ہوئے اگر جماعت کی نماز فوت ہو جائے تو اس کا دھیان نہ کرے بلکہ پورا اطمینان کرنا ضروری ہے کہ قطرے آنے کا خدشہ ختم ہو گیا۔
جس شخص کو پیشاب کے بعد کافی دیر تک قطرے آنے کی پریشانی رہتی ہو وہ نماز کی تیاری کےلئے اتنا وقت پہلے وضو کرنے چلایا جائے کہ وہ پیشاب کرے قطرے نکلنے تک انتظار کرے۔ پھر وضو کرکے جماعت میں شامل ہو جائے۔
اس کےعلاوہ وہ نظامِ بول کے درست کرنے کےلئے علاج بھی کروائے۔ عام طور پر اس طرح کے امراض کےلئے حکیمِ حاذق سے علاج مفید ہو جاتا ہے، یعنی طب یونانی کا علاج زیادہ مفید ہے۔
معذور شخص پر وہم اور وسوسوں کے حملے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی کبھی عذر پیش نہیں آتا مگر وہم ہوتا ہے کہ شاید پیشاب کا قطرہ نکل گیا۔ ایسے شخص کو اگر مشاہدہ کرنے کی ضرورت پڑے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں۔
اگر پیشاب کے بعد کافی دیر تک قطرے آتے رہتے ہوں تو اس کا ایک حل یہ ہے کہ نماز سے پہلے صرف وضو کرکے نماز ادا کرے۔ پھر پیشاب کی ضرورت پوری کرے اور کچھےکے استعمال کو معمول بنائے۔ پیشاب کے بعد ٹیشو پیپر کے چار پانچ پیس عضو ِمخصوص پر رکھے اور کچھے کو چست کر دے تاکہ اگر قطرے آتے رہیں تو ٹیشو میں جذب ہوتے رہیں اور کپڑے ناپاک ہونےسے بچ جائیں۔ پھر اگلی نماز سے پہلے اچھی طرح استنجا ء کرے اور عضو مخصوص کے دائیں بائیں اچھی طرح صفائی کےلئے خوب پانی استعمال کرے۔ آخر ی بات یہ کہ جس شخص کو کسی بھی وضو ٹوٹنے والی چیز کا عذر بار بار پیش آنے کا عارضہ لاحق ہو جائے وہ کسی مستند عالم کی رہنمائی میں رہے اور معلومات کراتار ہے ،تاکہ فریضہ ٹھیک طرح سے ادا ہوتا رہے۔
سوال:۔ حال ہی میں سرکار نےیہاں جموںوکشمیر کے سرکاری ملازمین کےلئے میڈیکل انشورنس سکیم کو لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس سکیم کے تحت ملازمین سے کچھ رقم ماہوار ان کی تنخواہوں سے کاٹی جائےگی۔ جس کو Premiumکہتے ہیں اور پھر ملازمین کی فیملی میں جب کوئی کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اس کے علاج پر گورنمنٹ یا متعین کی گئی کمپنی ،جس کے ساتھ یہ معاہدہ ہوگا، 6لاکھ تک آنے والا خرچہ برداشت کرے گی ۔اس سکیم کی رو سے ملازم اور اس کے فیملی کے 5افراد ملک کے کچھ مشہور و معروف سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں بھی اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔ اب اس حوالےسے آپ کی تحقیق کیا ہے؟ کیا یہ سکیم اختیار کرنا درست ہے اور اس کے تحت جو مالی فائدے علاج کی بنا پر ملتے ہیں کیا ان ہسپتالوں سے استفادہ حاصل کرنا درست ہے؟بہتر صورت کیاہے؟جو رقم Premiumکی صورت ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے کیا اس کو سود کے پیسوں سے ادا کرنا درست ہے۔
ابوعقیل 
دار پورہ زینہ گیر

سرکاری ملازمین کےلئے میڈیکل انشورنس ۔۔۔۔۔  استفادہ کی گنجائش موجود

جواب:۔ میڈیکل انشورنس کے نام سے جو اسکیم گورنمنٹ نے ملازمین کےلئے مرتب کی ہے اس کے متعلق ادارہ تحقیقات فقہیہ ،جو المباحث الفقہیہ جمعیتہ علماء کی ایک ذیلی تنظیم ہے اور علماء و فقہاء پر مشتمل ایک علمی فورم ہے، کا فیصلہ یہ ہے کہ اس لازمی میڈیکل انشورنس کی سکیم سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے ۔ہر ملازم سے لازمی طور پر جو رقم پریمیم کے نام سے کاٹی جاتی ہے اس پر بصورت علاج جو زائد رقم گورنمنٹ کی طرف سے دی جائے گی وہ تعاون قرار پائے گی۔ اور اگر خود ملازم یا اُس کے قریبی رشتہ داروں کو علاج و معالجے کی نوبت نہ آئی تو ملازم سے لی گئی رقم اس ملازم کو واپس نہیں کی جائے گی۔ ادارہ المباحث الفقہیہ کا یہ فیصلہ دارالعلوم رحیمیہ کے ایک عظیم فقہی اجتماع میں ہوا تھا جس میں تقریباً تین سو علماء شریک تھے۔
 
سوال:۱- ایک لڑکی اگر طلاق لینا چا ہے تو کیا وہ یا زمین اور دیگر اموال ،واپس لاسکتی ہے یا کہ اس پر شوہر کا ہی حق ہے اور وہ اس کو اپنے پاس رکھ سکتاہے ۔جب کہ بدلِ خلع میں شوہر صرف حق مہر کا ہی حقدار ہوتاہے ۔ 
سوال:۲-دوسری صورت اگر لڑکا طلاق دینا چاہے تو وہ لڑکی کو مائیکہ اور سسرال اور سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے دیئے گئے تحائف لڑکی کو واپس کرسکتاہے یا نہیں ؟
نورالحسن 

شوہر میں خرابی ہو تو خلع کا عوض لینا گناہ 

جواب:۱-جب زوجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو شوہر کو حق ہے کہ وہ عوضِ طلاق کا مطالبہ کرے لیکن اگر شوہر کے ظلم یا کسی دوسری کوتاہی کی بناء پر زوجہ مجبورہوکر طلاق کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں شوہر کا عوض طلب کرنا جائز نہیں ہے ۔ اب اگر اس نے عوض طلب کرلیا اور لڑکی اپنی گلوخلاصی کے لئے مجبوراً عوض دیدے تو عورت کو کوئی گناہ نہ ہوگا۔اگر بدل طلاق جس کو بدلِ خلع بھی کہتے ہیں ،میں صرف مہر طے ہوا تو بقیہ تمام چیزیں عورت کا ہی حق ہے اور اگر بدلِ خلع میں مہر اور دیگر اشیاء کا مطالبہ کیا گیا اور عورت نے اپنی جان چھڑانے کے لئے مجبوراً قبول کرلیا تو پھر مہر اور دیگر وہ اشیاء جو بدلِ خلع میں طے کی گئیں وہ شوہر کو دینی ہوں گی ۔
جب کوئی شوہر یہ کہے کہ میری بیوی مجھ سے چھٹکارا چاہتی ہے میں کس کس چیز کا مطالبہ کرسکتاہوں تو جواب یہ ہوگاکہ اگر وہ خواہ مخواہ رشتہ ختم کرنے پر مُصر ہے تو پھر جومہر اور زیورات شوہر نے دئے ہیں اُن کی واپسی کی شرط پر خلع کرسکتے ہیں لیکن اگر خامی اورخرابی شوہر میں ہے تو کچھ بھی لینا گناہ ہے ۔
جواب:۲-جب شوہر از خود طلاق دے تو ایسی صورت میں عورت کو مہر اور دیگر تمام اشیاء چاہے وہ میکے والوں کی طرف سے دی گئی ہوں یا سسرال والوں کی طرف سے ، یہ سب اُس مطلقہ کا حق ہے اور شوہر اُن میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا۔  
 سوال: عورتوں کے لباس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
لباس کا مقصد
جواب: قرآن کریم کے بیان کے مطابق لباس کا سب سے اہم مقصد بدن کو چھپانا ہے ۔ خاص کر جسم کے وہ حصے جن کا ستر لازم ہے ۔اُن کا پردہ ہو جائے یہ لباس پہننے کا پہلا اور اہم ترین فرض ہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ ہر ایسا لباس کہ جس سے جسم کا حجم ظاہر ہو جائے وہ شرعی لبا س نہیں اس لئے کہ جسم چھپانے کا قرآنی مقصد فوت ہو گیا۔ جیسے وہ باریک اور مہین کپڑا جس میں جسم کی رنگت باہر سے نظر آئے غیر شرعی لباس ہے ایسے وہ تنگ اور چست لباس جس میں اعضاء کی موٹائی اور لمبائی چوڑائی نمایاں ہو وہ بھی غیر شرعی ہے۔ لہٰذا جینز، سُتھنا، اور جسم سے چپکا ہوا کوئی بھی لباس غیر شرعی ہے۔ 