فیشن کیلئےکتّے پالنا حرام اوراس پر آنے والے خرچ اور وقت کیلئے اللہ کے حضور حساب طلب ہوگا
سوال :-کُتّوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کتنے مسائل پیدا ہورہے ہیں ،یہ آئے دن اخبارات میں آتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے چند سوالات ہیں ۔
کتوں کے متعلق اسلام کی تعلیمات کیا ہیں ۔ ماڈرن سوسائٹی میں فیشن کے طور پر کتّے پالنے کا رواج روز افزوں ہے۔اس کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے ؟کتّے کا جھوٹا اسلام کی نظر میں کیا ہے ؟کچھ حضرات اصحابِ کہف کے کتّے کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کتّے رکھنے میںکیا حرج ہے؟ یہ استدلال کس حد تک صحیح ہے ۔ اس سلسلے میں ایک جامع جواب مطلوب ہے۔
جاوید احمد…سرینگر
جواب: ایمان کی کمزوری ، مقصدحیات سے لاعلمی ، آنکھیں بند کرکے گمراہ قوموں کی نقالی اور سراسر بے فائدہ کاموں میں شوق اور فخر کے ساتھ پھنس جانا اور پھراُس پر خوشی محسوس کرنا ۔ اس صورتحال کا ٹھیک مشاہدہ کرنا ہو تو مارڈنٹی کے خبط میں مبتلا ہوئے اُن مسلمانوں کا حال دیکھئے جو کتّے پالنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے اوقات ، اپنی رقمیں کس شوق سے کتّوں پرلُٹا رہے ہیں ۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کیا ہم تم کو اُن سراسر بے فائدہ بلکہ خُسران والے کاموں کی تفصیل بتا دیں جن کاموں میں پھنسے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بہت عمدہ اور بہترین کام کررہے ہیں۔(الکہف) ۔
کتوں کے ان خدمت گذاروں کا شوق ، فخر اور اپنے جھوٹے تفوق کو دیکھئے اور اوپر کی آیت کا اُن پر منطبق ہونے کا مشاہدہ کیجئے ۔
قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ جن لوگوں کو آخرت پر ایمان نہیں(اس لئے اپنے شوق اپنی عادت اور اپنی سرگرمیوں میں ان کے پاس آخرت کے لئے کسی تیاری کا کوئی خانہ ہی نہیں ہے۔)۔اُن کے بے فائدہ کام اُن کے لئے ہم مزیدار بنا دیتے ہیں ۔ (النمل)
نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کا جنون رکھنے والے یہود ونصاریٰ کی نقالی میں جس شوق او رفخر کے ساتھ کتّوں کی خدمت میں لگے ہوئے اُن کے حالات دیکھ کر اور سُن کر بے اختیار اوپر کی آیات سامنے آتی ہیں جس کام کا نہ دینی فائدہ ، نہ دینوی ، نہ جسمانی فائدہ ، نہ عقلی ، نہ گھریلو فائدہ ، نہ سماجی ، نہ کوئی انسانی فائدہ ہے ، نہ حیوانی اُس کام میں اپنا وقت اپنی محنت ، اپنی دولت لٹانا اور پھریہ سمجھنا ہم نے کچھ کیا یا ہم بھی کچھ ہیں ۔ یہ وہی اوپر کی آیات کا نقشہ ہے جو مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتاہے ۔
کتّوں کے نام بینک بیلنس رکھنا ، اُن کی شادیاں کرانا ، ویب سائٹوں کے ذریعے رشتے طے کرنا پھر شادیوں میں ان کو دلہا دُلہن بناکر لاکھوں ڈالر خرچ کرنا ، کتوں کی مارننگ وایوننگ واک کرانے کی لازمی ڈیوٹی انجام دینا ، کتوں کو گھمانے اور سیر وتفریح کے لئے صبح وشام ہزاروں روپے خرچ کرنا ، کتوں کے کلینک کھولنا پھر ان کے علاج معالجے کی فکر اپنے والدین اور بچوں سے زیادہ کرنا اور پھر کتوں کے متعلق بڑے بڑے سٹور ،اُن کے کھانے پینے کے لے قسم قسم کی مصنوعات یہ سب وہ تماشے ہیں جو یورپ میں عام ہیں جہاں اپنی بوڑھی ماں کو دن میں پانچ منٹ دینے کے لئے بیٹا تیار نہیں ہے مگر اپنے کتّے کو چار گھنٹے دینے پر خوش ہے ۔ یہ عدالت کے مقدمہ اورمیڈیا کی رپورٹوں اور وزارتِ قانون کی بحث وتمحیص سے سامنے آنے والے حقائق ہیں ۔
کتّوں کو پالنے کا شوق رکھنے والے ان سچی حقیقتوں پر غور کریں ۔ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ جو کسی کشمیری نژاد کو برطانیہ میں کرنا پڑتاہے کہ وہ صبح وشام اپنے کتوں کو سیر کرانے لے جاتاہے اور ہاتھوں میں ٹشو پیشر بھی لینا پڑتاہے تاکہ اگر راستے میں اس کے کتّے نے غلاظت کردی تو وہ اپنے ہاتھ سے اُٹھاکر کوڑے دان تک پہنچائے ورنہ سو پونڈ جرمانہ دینا ہوگا ۔
کتوں کے متعلق اسلام کیا کہتاہے ۔ چند حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔
بخاری شریف ، مسلم ،ترمذی وغیرہ میں ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے (شوق نہ کہ ضرورت) کی وجہ سے کتّا پالا اُس کے عمل میں سے ہر روز دو قیراط اجر ختم کردیا جاتاہے ۔
مسلم میں حدیث ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس گھر کے لوگ ضرورت کے بغیر کتّا رکھیں اُن سب کے اجر وثواب میں ہر روز دو قیراط کم کرایا جاتاہے ۔
ابن ماجہ میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ جو قوم کتّا رکھتی ہے اُن کے ثواب میں سے ہر روز دوقراط ختم کردئے جاتے ہیں ۔
قوم سے مُراد پورا خاندان اور ضرورت کی بناء پر کتّاپالنے کا مطلب ہے شکار کی غرض سے یا کھیتی یا مکان یا مویشیوں کی حفاظت کیلئے جیسے بکروال لوگ وغیرہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورصلعم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھ سے ایک خاص وقت آنے کا ارادہ کیا تھا۔جب وہ اُس وقت پر نہ آئے تو میں نے سوچا کہ اللہ اور اس کے سارے قاصد وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ پھر جبرئیل ؑ کیوں نہیں آئے ۔ اسی کے بعد میں نے دیکھا کتّے کا بچہ ایک کونے میں چھپا بیٹھاہے ۔ جب وہاں سے اُسے نکال دیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے ۔ حضورؐ نے فرمایا میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ وعدہ کے وقت کیوں نہیں آئے تو جواباً کہا کہ جس گھر میں کتا ہوتاہم اس گھر میں نہیں آتے ۔
ایک دوسری حدیث جو بخاری شریف میں ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو تو اس گھر فرشتے نہیں آتے ۔
حضرت مولانا اسمٰعیل شہیدؒ نے ایک شخص کو دیکھاکہ وہ کئی کتّے پالے ہوئے ہے تواُن سے برداشت نہ ہوا کہ ایک مسلمان اس غیرشرعی کام میں عمر ضائع کرے ۔ اس سے وہ بولے جس گھر میں کتاہوتاہے اس میں فرشتے نہیں آتے ۔ اُس شخص سے اس برے کام کو درست کرنے کے لئے کہا تو وہ شخص جواباً بولا اس لئے رکھے ہیں تاکہ حضرت ملک الموت بھی نہ آئیں ۔ جب وہ بھی نہیں آسکیں گے تو میری موت بھی نہ آئے گی ۔ حاضر جوابی کا بہت عمدہ مظاہر کرتے ہوئے مولانا شہیدؒ نے فرمایا تمہاری روح قبض کرنے وہی فرشتے آئیں گے جو کتّوں کی روح قبض کرتے ہیں ۔(الفرقان جولائی 2011ء )
بخاری میں ہے :حضوراکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس برتن میں کتامنہ ڈالے اُس کو سات مرتبہ صبا کرو۔ ایک حدیث میں ہے کہ اُس برتن کو آٹھ مرتبہ دھوئو اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھ لو۔
اس لئے یہ بات طے ہے کہ کتّے کا لعاب نجس بھی ہے اور طرح طرح کے جراثیم سے آلودہ بھی ۔
اصحاب کہف کے کتّے سے استدلال کرکے کتے پالنے کے شوق کو درست قرار دینے کی کوشش اسلام سے ناواقفی بھی ہے او رایک حرام کام کو حلال بنانے کی تحریف بھی ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے شراب بھی مائع (Liqued)ہے او رپانی بھی۔ قرآن میں پانی کو ماء طہوراکہاہے لہٰذا شراب بھی پاک اور حلال ہے ۔
اصحاب کہف کا کتّا خودبخوداُن پاک نفوس جوانوں کے پیچھے چلتا گیا اور اس غار کے دہانے پر جاکر بیٹھ گیا جس غارکے اندر اصحاب کہف چھپ گئے تھے ۔اس سے کیسے ثابت ہوگاکہ شوق اور کافروں کی نقالی کے لئے پالیں ۔ حسرت اُس مسلمان پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نظر انداز کرکے کہف کا حوالہ دے ۔
کتّوں کے متعلق اسلامی قانون وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا نہ کہ اصحاب کہف کے کتّے سے کئے جانے والا باطل استدلال۔
لہٰذا فیشن کی بنیاد پر کتّاپالنا حرام ہے ۔ اس کا جھوٹا نجس ہے ۔ اس پر خرچ ہونے والا روپیہ حرام پر خرچ کرناہے اور اُس پر صرف ہونے والا وقت ضاع عمر ہے اور اس کا بھی قیامت میں حساب دینا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۱- آج کل کمپنیاں قسطوں پر گاڑیاں وغیرہ کو فروخت کرتی ہیں ۔بعد میں یہ قسط مہینہ وار اداکرناپڑتی ہے لیکن اس پر کمپنی سود لیتی ہے ۔کیا یہ زائد رقم جو قسط کے ساتھ ادا کرنی پڑتی ہے شرعی سود میں داخل ہے جس کی سخت ممانعت ہے جب کہ کمپنی کی گاڑی وغیرہ خریداراستعمال کررہاہے ۔
سوال :۲-کیا ایسے اما م کے پیچھے نماز ادا کرنا درست ہے جس کی داڑھی ایک مشت سے کم ہو ۔ فقہ حنفیہ میں کیا اس کی کوئی جوازیت ہے ؟
سوال:۳- شادی کے موقع پر ڈھول ،دف وغیرہ اور عورتوں کے ناچ گانے کے متعلق کیا حکم ہے اور ایسے موقع پر علماء او ربالخصوص نکاح خوان کو کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ؟
نظام الدین ناظم…
قسطوں پر خریداری اورا دائیگی
جواب:۱-اگرکمپنی سے خرید کر گاڑی پر اپنا نفع رکھ کر پھر کسی کو گاڑی فروخت کی جائے او رپھر قیمت قسطوں میں ادا ہوتو یہ صورت جائز ہے ۔مثلاً دو لاکھ کی گاڑی کمپنی سے خرید کر اڑھائی لاکھ کی فروخت کی گئی اور یہ قیمت قسطوں میں وصول کی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر یہ گاڑی دو لاکھ کی خرید کر دو لاکھ کی ہی فروخت کی جائے ،مگر اس دو لاکھ پرفیصد کے اعتبار سے سودی رقم کا اضافہ کیا جائے تو یہ زائد رقم سود قرار پائے گی۔ اس میں سود دینے کاجرم ہے جیساکہ حدیث میں سود لینے او ردینے والے دونوں کے لئے لعنت آئی ہے ۔
امام کیلئے داڑھی کی شرعی مقدار
جواب:۲-ایک مٹھی سے کم داڑھی رکھنے والے کو امام بنانا ہی درست نہیں تاہم جو نمازیں اسکی اقتداء میں پڑھی گئیں وہ ادا ہوجاتی ہیں ۔اس لئے حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر نیک اور فاجر کی اقتداء میں نماز پڑھنی پڑے تو نماز پڑھ لینا ۔ اس کا گناہ اس امام پر ہوگا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کے کھجوروں سے روزہ افطار کیا جائے تو افطار ہوجائے گا مگر چوری کرنا گناہِ کبیرہ ہے او راس کا جرم برقرار رہے گا ۔ اسی طرح داڑھی منڈھے کے پیچھے نماز ادا ہوجائے گی مگر گناہ امام پر ہوگا ۔
شادیوں میں ڈھول بجانے کی ممانعت
جواب:۳-شادیوں میں ڈھول بجانا ، ناچ گانا اور رقص ونغمے گانا ہرگز جائز نہیں ۔ یہ مردوں کے لئے بھی حرام ہے اور عورتوں کے لئے بھی ۔ نکاح خوان کو اس پر تنبیہ کرنا بلکہ سختی سے روکنے کا اصرار کرنا لازم ہے ۔ ورنہ وہ نکاح خوانی سے معذرت کرسکتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-مسجد کی انتظامیہ اگر مسجد کا کوئی کام کسی سرکاری افسر سے کروانے کے لئے کسی بھی قسم کا نذرانہ بصورت نقدی یا جنس اداکریں تو اسے کیا کہا جائے ۔کیا ایسا کرناناجائز نہیں اور کیا دینے والے گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے ۔
محمد یوسف کنٹھ ……شانگس ، اسلام آباد (کشمیر)
مسجد کی حلال آمدنی کی حفاظت کی جائے
جواب۱- مسجد کی رقم کسی سرکاری افسر کو دینا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اگر کوئی سرکاری افسر مسجد کے جائز کام کو بھی صرف رشوت کی بناء پرروکے رکھے اور مسجد کے اُس کام کے لئے انتظامیہ مجبور ہو تو ایسی صورت میں انتظامیہ کے حضرات اپنی جیب سے یہ رقم اداکریں مگر مسجد کو دی گئی رقوم رشوت میں ہرگز نہ دیں ۔اگرکسی شخص کے پاس سود کی رقم ہو تو یہ سودی رقم بھی ایسے گندے ذہن کے افسر کو دے سکتے ہیں جو مسجد کے کام کے لئے بھی رکاوٹ کھڑی کرے تاکہ وہ اس رشوت کے مطالبہ سے جیسے اپنے لئے جہنم خریدنے پر مصرہے ویسے سود کی وہ رقم جو اُسی کو مزید لعنت کا مستحق بنادے گی اُس کو ہی دے دی جائے اور مسجد کی حلال آمدنی محفوظ رہ سکے ۔