کتاب وسنت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : بہت سارے امام صاحبان گھروں میں بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے آتے ہیں،مگر بعض پورا مہینہ نہیں آتے بلکہ بہت دن غیر حاضر رہتے ہیں۔بچوں کے والدین دل ہی دل میںکڑھتے رہتے ہیں مگر احتراماً انہیں کچھ نہیں کہتے ہیں۔اس سلسلے میں شرعی اصول اور حکم کیا ہے؟
۔۔۔۔۔ محمد طاہر نقشبندی۔ سرینگر

قرآن کریم کی تعلیم کا معاملہ،ذمہ داری اور معاوضہ کی ادائیگی
جواب : شرعی اصول یہ ہے کہ جب کسی شخص نے کوئی بھی کام کرنے کی ذمہ داری لی اور اُس کام کے لئے اُس نے ماہانہ معاوضہ طے کیا تو یہ معاوضہ پورا مہینہ اور جو وقت طے ہوا ہے ،اُس پورے وقت وہ کام انجام دینے کے بعد حلال ہوگا۔کسی مزدور نے مالک سےکام کے لئےجتنا وقت طے کیا ہے،اُس پورے وقت میں جب وہ پوری پابندی سے کام کرے گا تو مزدوری حلال ہوگی ۔اس لئے کسی بھی ملازم نے کوئی کام اپنے ذمہ لیا اور اُس نے دن ،وقت جو بھی مقرر کیا ہے،اُس کو پورے وقت وہ کام انجام دینا لازم ہے۔اسی اصول کے مطابق جب کسی شخص نے شخص قرآن کریم گھر میں پہنچ کر پڑھانے کا عہد کیا اور اُس کا معاوضہ ماہانہ کے حساب سے طے کیا،تو اس پورے وقت اور ہر دن قرآن کریم پڑھانے کے لئے آنا لازم ہے۔اگر کسی دن چھٹی کرنے یا کسی بھی وجہ سے رخصت لینے کی مجبوری ہو تو پہلے بچے کے والدین سے اجازت لینی ہوگی۔اگر مہینے میں بار بار کسی بھی وجہ سے غیر حاضر ہونے کا واقعہ پیش آتا ہو تو اِس کا حل یہ ہے کہ تعلیم قرآن کا معاوضہ ماہانہ نہیں بلکہ یومیہ مقرر کیا جائے۔مثلاً یومیہ سو روپے طے ہو ،پھر پورے ماہ جتنے دن پڑھائی ہو،اُتنے دن کا معاوضہ دیا اور لیاجائے۔حلال و حرام کی فکر تو لینے والے کو بھی کرنا ضروری ہے اور دینے والے کو بھی۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم پڑھانے والا ماہانہ بنیاد پر معاہدہ کرے،پھر معاہدے کے مطابق وہ پورے ماہ ہر ہر دن پڑھانے کے لئے موجود رہے۔اگر کسی دن مجبوری ہو تو باقاعدہ اجازت لےلیں،یا معاہدہ کرتے وقت طے کریں کہ فلاں دن میری تعطیل ہوگی۔یا پھر یومیہ پڑھانے کا معاہدہ کرکے جس دن پڑھائیں ،اُس دن کا معاوضہ لے لیںاور جس د ن نہ پڑھا سکیں اُس دن کا معاوضہ نہ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال : قضا نمازوں کا حکم کیا ہے؟ کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ جو نمازیں قضا ہوگئی ہیں اُن کے لئے صرف توبہ کرنا ہے اور اتنا ہی کافی ہے ۔اگر قضا ادا کرنا ضروری ہے تو اس کی ترتیب اور پورا طریقہ کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ ماسٹر محمد یوسف شیخ۔زینہ گیر
قضاء نمازوں کی ادائیگی لازم،توبہ کافی نہیں
جواب : مسلمان عمداً نماز چھوڑ ہی نہیں سکتا ۔اس لئے حضرت نبی کریم علیہ السلام کا ارشاد ہے : جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی وہ کفر تک پہنچ گیا یا کافر ہوگیا ۔اس لئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں کوئی مسلمان کُجا کوئی منافق بھی نماز نہیںچھوڑتا تھا۔اس لئے عمداً اگر مسلمان نماز چھوڑے تو اُس کے قضا کرنے کے متعلق حضرت رسول اللہ علیہ السلام نے صراحتہ ًیہ نہیں فرمایا کہ وہ اُن نمازوں کی قضا کرے۔ہاں یہ فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول گیا یا نماز کے وقت سویا رہ گیا ،وہ جب بیدار ہوجائے نماز ادا کرے۔(ترمذی)۔ خود حضرت رسول اللہ علیہ السلام نے بھی نماز فجر پوری جماعت کے ساتھ قضا پڑھی۔یہ واقعہ سفر میں پیش آیا، نیز غزوہ خندق کے موقعہ پر متعدد نمازیں قضا ہوئیںاور وہ نماز بعد میں آپ نے قضا پڑھیں۔جب عذر کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے چھوٹی ہوئی نمازیں پڑھنا لازم ہے تو جو نمازیں کسی مسلمان نے عمداً چھوڑی ہونگی اُن کو پڑھنا بدرجہ اولیٰ لازم ہے۔یہی حنفیہ کا مسلک ہے ،یہی مالکیہ و شافعیہ کا مسلک ہے۔
حدیث و فقہ کی کتابوں میں قضا نمازوں کی ادائیگی کا پورا باب موجود ہوتا ہے۔اس لئے طے ہے کہ قضا نمازوں میں یہ تقسیم ہےہی نہیں کہ عمداً نماز قضا ہوئی ہے یا عذرکی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے یا سوئے ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان سے جو نماز چھوٹ گئی ہے ،چاہے عمداً یا سہواً یا عذراً اُس کی قضا لازم ہے۔اب چھوٹی ہوئی نمازوں کی تعداد مقرر کریں اور تعداد متعین کرنے میں محتاط سے محتاط اندازہ لگائیں،اور پھر ہر ہر نماز کے لئے الگ تعداد لکھ لیں۔پھر ہر نماز کی ادائیگی ترتیب سے کرتے رہیںاور نیت اس طرح کریں قضا شدہ نمازوں میں سے پہلی یا آخری نماز ادا کرتا ہوں۔پھر جو جو نماز پڑھتے جائیں وہ وہ نماز لکھتے جائیں،یہاں تک کہ تعداد مکمل ہوجائے۔
دراصل مسلمان پر نماز ،روزہ ،زکوٰۃ ،حج جب فرض ہوتا اور ہر فرض کے لئے کچھ شرائط ہیں۔جب یہ فرض لازم ہوجائے تو پھر ادائیگی ہی لازم ہے۔صرف توبہ کافی نہیں ہے۔اگر ادائیگی وقت پر نہ ہو تو قضا کرنا لازم ہے۔یہی ضابطہ تمام عبادات کے لئے ہے،نماز کے لئے بھی یہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :میں ایک نوجوان ہوں ۔ جدید تعلیم سے وابستہ ہوں ۔آج کل اکثر نوجوان انٹرنیٹ سے جڑ ے ہوئے ہیں ۔اس بارے میں آپ سے گذارش ہے کہ کیا ہم کسی اسلامی ویب سائٹس سے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔اس بارے میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور جو ضروری باتیں ہوںگی وہ ضرور بتائیں ۔
۔۔۔۔ کامران سجاد

انٹر نیٹ حد سے زیادہ مفید لیکن بے انتہا خطرناک بھی
اسلامی معلومات کے لئے مستند سائٹس کا انتخاب کرنا ضروری
جواب:-انٹرنیٹ ہرقسم کی معلومات حاصل کرنے کی ایک پوری کائنات کاخزانہ ہے ۔ یہ بے انتہا مفید بھی ہے اور حد سے زیادہ خطرناک بھی ۔اس مفید ترین ذریعہ سے معلومات کا بڑے سے بڑا ذخیرہ بھی حاصل کیاجاسکتاہے اور اس کے ذریعہ انسان اُن خرابیوں اورخباثتوں کا شکار بھی ہوسکتاہے جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ گندی اور فحش ویب سائٹس کا حال توجیساہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔بظاہر اس کی اچھی ویب سائٹسوں کا حال بھی بہت خراب ہے ۔الا ماشاء اللہ۔مثلاً مذہبی ویب سائٹس دیکھئے ۔اسلام کے علاوہ مختلف مذاہب کے تعارف وتبلیغ کے لئے ہزاروں بلکہ لاکھوں سے زیادہ ویب سائٹس سرگرم ہیں ان میں تو ہماتی اور خرافاتی باتوں کو طرح طرح سے پُرکشش بناکر پیش کیا جاتاہے تاکہ ان ویب سائٹس سے استفادہ کرنے والا لاعلم نوجوان اس سے متاثر ہوسکے ۔ اسلام کے نام پر بہت کم ویب سائٹس ہیں اوراُن میں سے کچھ ایسے افراد کے ذریعے جو خود اسلام سے نہ صحیح طور پر واقف ہیں نہ اسلامی ذہنیت سے آراستہ ۔ نہ اسلام کے بنیادی افکار وتصورات کے متعلق اُن کی ذہنی حالت درست ہے ۔ اس لئے وہ صحیح ترجمانی کر ہی نہیں سکتے ۔ کہیں وہ مغربی تصورات سے متاثر، کہیں وہ اپنے علاقائی یا گروہی اثرات لئے ہوئے ہیں ۔یاتجدد پسندی کے نتیجے میں پیداہونے والے خیالات کو وہ اسلام بناکرپیش کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دینِ حق کی ترجمانی غلط ہاتھوں سے ہوتی ہے اور طرح طرح سے تحریف کردہ تعلیمات پیش کی جاتی ہیں ۔

اسی طرح کچھ لوگ اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر اسلام کی ایسی ترجمانی کرتے ہیں جس سے اسلام سے نفرت پیداہوجائے یا اُس کے متعلق شکوک پیدا ہوجائیں یا استفادہ کرنے والے کنفیوژن کا شکار ہوجائیں ۔ چنانچہاسلام دشمن طبقات جس انداز اور ترتیب سے اسلام کے کسی بھی نام سے کوئی ویب سائٹس یا چینل چلائیں اُن میں یہی صورتحال ہوتی ہے ۔

اس لئے جب کسی اسلامی ویب سائٹ سے رسائی حاصل کرنا ہوتو پہلے اچھی طرح یہ تحقیق کریں کہ یہ کس کی لانچ کی ہوئی ہے یا کسی مستند شخص سے پہلے اس کی تصدیق کرالیں کہ کیایہ ویب سائٹ قابل استفادہ ہے ؟اسی طرح کسی بھی فتویٰ ڈاٹ کام سے ہرگز فتوے حاصل نہ کریں جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس پر جواب دینے والا مستند ہے یا نہیں ۔ آج بے شمار لوگوں نے اسلام کی تشریح ، اس کے احکام بیان کرنے، اُس پرلیکچر دینے ،اُس پر تبصرے کرنے اور اس پر اپنی رائے بطورحکم شرعی بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جن کا اسلامی علم مستند ومعتبر نہیں ہے۔اس لئے نیم حکیم چاہے وہ کتنی اچھی زبان واسلوب اور کتنے ہی ماڈرن انداز میں سامنے آئے ہیںوہ جان کے لئے خطرہ ہوتا ہے۔نیم حکیم خطرہ جان ،اسی طرح نیم مولوی خطرۂ دین۔ آج کل نیم سکالر اور دانشورخطرہ دین وایمان ہیں ۔دراصل وہ اسلام کے اسکالر ہوتے ہی نہیں، بنے ہوئے ہیں ۔

فحش ویب سائٹس سے دور رہنا لازم ہے ۔اس طرح انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرنا وقت ضائع کرناتو ہے ۔ بسااوقات یہ بہت ساری خرابیوں میں مبتلا ہونے کا سبب بھی بنتاہے ۔ اسی طرح اگر چیٹ کرکے دوسرے کو دھوکا دیا جائے تو حرام ہے۔ اگرکسی بھی ویب سائٹ پر کسی سے چیٹنگ ہو تو اسلام کا تعارف ، اوراس کی حقانیت کے متعلق بس وہی باتیں کہیں جو مستند ہوں یا کسی مستند ومعتبر سائٹ کا پتہ بتائیں ۔ ذاتی ونجی زندگی یا تفریحات ومنکرات کوزیر گفتگو لانا دراصل اپنے آپ کوزہردیناہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-جس جگہ مسجد تعمیر تھی ، پھر شہید کی گئی اور نئی مسجد کسی دوسری جگہ تعمیر کی گئی ۔پرانی مسجد کی جگہ کے کیا احکامات اور حقوق ہیں ؟

سوال:۲- کیا مسجد کے لئے وقف کی ہوئی چیزیں مثلاً فرش ، لیمپ ، گھڑیاں وغیرہ کسی دینی ادارہ یا درس گاہ یا مسجد کے مولوی صاحب کے ذاتی استعمال میں لائی جاسکتی ہیں یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔ محمد اکبر ۔ پلوامہ

مسجد کو شہید کرکے دوسری جگہ منتقل کرنا درست نہیں
جواب:۱-مسجد اللہ کا گھرہے اور جہاں ایک مرتبہ مسجد بن گئی وہاں سے مسجد کو شہید کرکے دوسری جگہ منتقل کرنا ہرگزدُرست نہیں ۔ اگر کہیں مسجد شہید کردی گئی تو وہاں دوبارہ مسجد تعمیر کرکے اسے آباد کرنا وہاں کے مسلمانوں پر لازم ہے ۔ اگروہاں مسلمان آبادی نہ ہوتو دوسری جگہوں کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اُس مسجد کی جگہ کی دیوار بندی کرکے اسے محفوظ کرایں ۔

مسجد کے لئے وقف شدہ اشیاء کا استعمال
جواب:۲-مسجد کے لئے وقف شدہ اشیاء کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اس لئے وقف شدہ اشیاء اس ادارے(مسجد ، مدرسہ ، یتیم خانہ وغیرہ)کی ملکیت ہوتے ہیں ۔اس لئے حدیث میں املاک وقف کے متعلق ارشاد ہے کہ نہ وہ فروخت کی جائیں ، نہ کسی کو بطور تحفہ دی جائیں نہ بطور وراثت کسی کو دی جائیں ۔ بخاری شریف میں حضرت عمربن خطابؓ کے اراضی خیبر کے متعلق حکم رسول ؐ یہی تھا ۔ اسی لئے تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ وقف کی املاک کو کسی دوسری جگہ صرف نہیں کرسکتے ۔ مسجد کا لیمپ،گیس وغیرہ اگر وقف کرتے وقت منتظمین کو اختیار دیا گیا ہے اور وہ انتظامیہ اس واقف کے دئے ہوئے اختیار کی بناء پر یہ اشیاء امام صاحب کو یا کسی دوسرے ادارے کو دیں تو اس کی گنجائش ہے ۔ اگر اجازت نہ ہو تو پھر دُرست نہیں ہے ۔