سوال :لباس انسان کی اہم ضرورت بھی ہے اور یہ زیب و زینت کا ایک ذریعہ بھی ہے ۔آج لباس کے معاملے میں جوصورت حال ہے اس بارے میں شریعت کے احکام بیان فرمائیں۔
محمد یاسر خان۔ڈوڈہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لباس کی شرعی اہمیت ،احتیاط لازم
جواب :شریعت اسلامیہ نے لباس کے متعلق کچھ حدود مقرر کی ہیں۔اُن حدود کی رعایت ہر مسلمان پر لازم ہے۔جب کوئی شخص اُن امور کی پابندی کرے تو اُس کا لباس شرعی لباس ہوگا،جو اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کا لباس غیر شرعی ہوگا ۔اُن حدود کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۔ لباس اتنا چُست اور تنگ نہ ہو کہ جسم کے جن اعضاء کو چھپانے کا حکم ہے ،اُن کی ساخت اور نشیب و فراز ظاہر ہوجائے ۔لہٰذا آج کے تنگ و چُست شئرٹ و پتلون غیر شرعی ہیں۔
۲۔ مرد کو عورتوں جیسا اور عورتوں کو مردوں جیسا لباس پہننا حرام ہے۔یہ بخاری و مسلم کی احادیث سے ثابت ہے ۔لہٰذا جن عورتوں نے آج کل مردوں جیسی پتلون پہننا شروع کیا ہے وہ غیر شرعی اور غیر اسلامی لباس پہننے کی مرتکب ہیں۔
۳۔ کفار و فساق کا لباس پہننا غیر اسلامی ہے۔ لہٰذا وہ لباس جس کو پہن کر یہ پتہ نہ چلے کہ یہ شخص مسلمان ہے یا غیر مسلم ،ایسا لباس پہننا غیر اسلامی ہے۔
۴۔ مرد ٹخنوں سے اوپر اور عورتیں ٹخنوں سے نیچے اپنا شلوار رکھیں۔ اس کی خلاف ورزی غیر اسلامی ہے۔
۵۔ لباس میں جسم چھپانا اور جسم سجانا مقصود ہو۔اگر صرف نمائش اور ریا کاری مقصود ہو تو یہ نیت کی خرابی ہے۔اسی وجہ سے فیشن کا لباس غیر اسلامی ہے ،اس لئے کہ مقصد عموماً اظہار ِ نمائش ہوتا ہے۔
۶۔ مرد ایسا لباس نہ پہنیں جس سے ران کھلی ہو۔لہٰذا صرف کچھا پہننا یا ایسی انڈر شرٹ جس سے ناف سے نیچے کا حصہ کھل جائے تو یہ غیر اسلامی ہے۔
۷۔ایسی چھوٹی شرٹ پہننا ،جس میں جھکنے پر پیچھے سے نچلا کمر یا آگے ناف سے نیچے کھل جاتا ہے،وہ غیر اسلامی ہوگا ۔اس لئے جو لوگ ایسی بنیان یا چُست انڈر شرٹ پہن کر نماز پڑھنے کھڑے ہوتے ہیں کہ رکوع سجدے میں آگے سے ناف کے نیچے یا کمر سے نیچے کا حصہ کھل جائے ،وہ غیر اسلامی ہے اور نماز بھی فاسد ہے۔
۸۔ مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا ممنوع ہے۔
۹۔ مردوں یا عورتوں کو ایسی پتلون پہننا ،جس میں کچھ حصہ کا ٹ دیا گیا ہو وہ غیر اسلامی لباس ہے۔اس میں ستر عورت بھی نہیں رہتا اور فساق کی مشابہت بھی ہے۔
۱۰۔اسلامی لباس میں ننگے سَر رہنے کاکوئی تصور نہیں۔حضرت رسول اللہ علیہ السلام ،حضرات صحابہ ،تابعین ،تبع تابعین ،فقہاء کرام ،محدثین عظام ،اولیاء و مشائخ کبار اور آج کے عہد کے صلحائے اُمت میں کوئی بھی ننگے سر رہنے،ننگے سَر نماز پڑھنے اور تقریبات میں ننگے سَر جانے کا کوئی عمل نہیں پایا گیا ،لہٰذا ننگے سَر نمازیں پڑھنا ،ننگے سر رہنے کا معمول بنانا غیر اسلامی ہے ۔دس نکات پر مشتمل یہ منشور لباس کے متعلق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا کسی نا محرم عورت سے ہاتھ ملانا ،چاہے وہ مصافحہ ہو یا کسی اور وجہ سے ہواس کے متعلق شریعت ِاسلام کا کیا حکم ہے۔آج کل کالجوں ،ٹیوشن سنٹروں اور شادی تقریبات میں اس کو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔کسی کو منع کریں توجواب ملتا ہے کہ یہ اخلاق کا تقاضا ہے اور اس میں حرج کیا ہے۔اس کو منع کس نے کیا ہے۔لہٰذا جواب درکار ہے۔
یاسیمین۔ بمنہ سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا محرم خاتون کو چھُونا شرعاً حرام
جواب :حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی (نامحرم) عورت کے ہاتھ کو نہیں چھُوا ہے۔بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے ،کسی انسان کے ہاتھ میں لوہے کی کیل ٹھونک دی جائے یہ بہتر ہے اس سے کہ اس کا ہاتھ کسی نا محرم عورت کو چھو جائے۔شریعت اسلامیہ میں اس نامحرم عورت کا ہاتھ، چاہے مصافحہ کی غرض سے ہو یا کسی اور غرض سے ،چھونا حرام ہے۔نا محرم کو دیکھنا ،اُس سے ملنا ،اُس سے باتیں کرنا ،یہی وہ ناجائز تین کام ہیں جو آخری اور بڑے حرام تک پہنچنے کا سبب بنتے ہیں ،خلاصہ یہ کہ نا محرم سے ہاتھ ملانا ہر گز جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :معاشرے میں منشیات کا سیلاب ہے۔ خاص کر نوجوان نسل اس میں تیزی سے مبتلا ہورہی ہے۔منشیات پھیلانے ،فروخت کرنے ،پہنچانے اور استعمال کرنے کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے۔خاص کر منشیات کی کمائی کے متعلق کیا حکم ہے۔
محمد امین خان ۔کولگام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشیات معاشرے کی تباہی کا سبب
جواب :وہ نشہ جو آج کل یہاں کے مسلمانوں کو تباہ کررہا ہے ،وہ پھیلانا بھی حرام ہے،فروخت کرنا بھی حرام ہے اوراس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی حرام ہے۔ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا بھی حرام ہے۔خود استعمال کرنا ،دوسروں کو نشہ کرانا یا دوسروں کو عادی بنانا حرام ہےاور یہ نسلِ نو ختم کرنے کا جرم ہے۔منشیات انسانوں کی جسمانی صحت اور دماغی صحت دونوں کو تباہ کردیتی ہے۔یہ مالی بربادی کا یقینی سبب ہے نیز اخلاقی خرابیوں کا بھی ذریعہ ہے۔گھریلو زندگی اور عوامی زندگی دونوں متاثر ہوتی ہیںبلکہ بُرباد ہوتی ہیں۔منشیات کی خرابیاں بے شمار ہیں۔اس لئے اسلام نے اس کو سختی سے حرام کیا ہےاور منشیات سے جُڑے ہوئے تمام لوگوں پر لعنت کی گئی ہے۔میڈیکل کی وہ دوا جو دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہے اورکچھ لوگ بطور ِ نشہ استعمال کرتے ہیں،ایسی چیز یا دوا اگر نشہ کے لئے خریدی جائے یا بیچی جائےتو یہ بھی حرام ہے۔صرف دوا کے طور پر لے سکتےاور مریض استعمال کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:آج کل قسم قسم کے مقابلے ہوتے ہیں۔مثلاً اسکولوں میں مختلف مقابلے ، جن میںسیرت کوئز بھی شامل ہے ،منعقد ہوتے ہیں ۔اس میں سیرت رسولؐ کے بارے میں کچھ اچھوتے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن کے متعلق بھی مختلف سوالات کئے جاتے ہیں جن میں بعض سوالات انوکھے ہوتے ہیں۔ان مقابلوں کا بالعموم مقصد اسلام، قرآن اورسیرت پاک ؐکے بارے میں طلبہ میں دلچسپی کو جگانا ہوتاہے ۔ یہ سلسلہ کیساہے؟
ملک سجاد احمد۔سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینی معلومات کے لئے علمی مقابلے کرانا مفید
جواب:دینی معلومات کے لئے اس طرح کے علمی مقابلے کرانا یقیناً دُرست ہیں ۔ خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی حضرات صحابہؓ سے سوالات فرماتے تھے کہ وہ اپنے علم وفہم سے جواب دیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے پوچھا : درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جو مومن کے مشابہ ہے ،بتائو وہ کون سا درخت ہے ؟ صحابہ سوچتے رہے مگر جواب نہ دے سکے ۔اس کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا وہ کھجورکادرخت ہے ۔ بعد میں حضرت عبداللہ نے اپنے والد گرامی حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ اس سوال پر میرے ذہن میں یہی جواب آیا تھاکہ وہ کھجورکادرخت ہے مگر میں اپنے چھوٹے پن کی وجہ سے ہمت نہ کرسکا اور شرما گیا اس لئے خاموش رہا کہ بڑوں کی موجودگی میں کسی چھوٹے کا بولنا بے ادبی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے کی یہ بات سن کر فرمایا ۔ کاش تم نے جواب دیا ہوتاتو مجھے زیادہ خوشی ہوتی ۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ہے ۔ اب کھجورکے درخت کو مومن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ یہ ایک تفصیلی بحث ہے جو حدیث کی شروحات سے معلوم ہوسکتی ہیں ۔بہرحال علمی ترقی کے لئے اس طرح سوالات کرنا دُرست ہے ۔ کوئز چاہے قرآن وسیرت کی معلومات سے متعلق ہوں یا کسی دوسرے شعبۂ دین سے متعلق بہرحال مفید ہیں ۔ مگر اس میں چند باتیں اصلاح طلب ہیں۔ بے فائدہ معلوماتی سوالات کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔مثلاً بتائیے قرآن میں شیطان کا لفظ کتنی بار آیاہے ۔ یہ ایک بے فائیدہ سوال ہے ۔ اس کے مقابلے میں مثلاً روزہ کا حکم قرآن میں کتنی مرتبہ آیا ہے ۔ یہ ایک مفید سوال ہے یا کہ فرعون کا لفظ کہاں کہاں ہے ۔یہ بے فائدہ سوال ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات ضروری ہے کہ سوال کا جواب دینے والے خود اپنی محنت اور مطالعہ سے جوابات پیش کریں ۔ دوسروں سے پوچھ کر جواب دینا اس مفید سلسلہ کی افادیت کو ختم کردیتاہے ۔
ظاہرہے کہ کوئز کا مقصد مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا ، معلومات حاصل کرنے کا مزاج بنانا اور کتابوں کی ورق گردانی اور محنت وسعی کا خُوگر بنانا ہے ۔اب اگر سوالات کا پرچہ لے کر ایک دوسرے سے معلومات اکٹھا کی گئیں تاکہ متوقع انعام حاصل کریں تو یہ بے فائیدہ کام ہے ۔ اس میں ممکن ہے انعام مل جائے مگر جس ذوق کی آبیاری ہونی چاہئے تھی وہ تن آسانی اور دوسروں سے معلومات لے کر خود مطالعہ وتحقیق نہ کرنے کے سست مزاج کی وجہ سے مفقود ہوگیا ۔
لہٰذا کوئز تیار کرنے والے اس پہلو کو ضرورملحوظ رکھیں کہ جواب دینے والے دوسروں سے پوچھنے کے بجائے خود مطالعہ ومحنت پر مجبور ہوجائیں ۔ کبھی سوالات مرتب کرنے والے خود کوئی کتاب لے کر انوکھے قسم کے سوالات جمع کردیتے ہیں جب کہ خود اُن کو بھی اس قسم کے سوالات کے جوابات دینے کی اہلیت نہیں ہوتی مگر کتاب کے سہارے سوالات مرتب کردیئے گئے اور اب وہ دوسروں سے جوابات کے منتظر ہوتے ہیں ۔
سوالات مرتب کرنے میں انوکھے پن کے بجائے افادیت کے پہلوکو اور اس سے زیادہ فکری پہلو کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے ۔یہ فکری پہلو ایمانی ،عباداتی ، اخلاقی او راصلاحی ہو۔ مثلاً یہ سوال کہ بتائیے قرآن کی وہ کون سی سورت ہے جس میں نبی (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ آپ کا فروں سے کہئے تمہارا دین الگ میرا دین الگ ہے ۔یا یہ سوال کہ بتائیے وہ کون سی سورت ہے جس میں اُن نمازیوں کے لئے ویل (بربادی)بیان کی گئی ہے جو نماز میں سستی وغفلت برتتے ہیں ۔ وغیرہ۔
�����������������������