مطالعہ
ڈاکٹر مشہود رضا
عورت سماج کاآئینہ ہے عورت کے توسط سے نسل انسانی آگے بڑھتی ہے اور عورت تین مراحل سے گزرتی ہے۔ بیٹی زوجہ ماں اور ان مرحلہ میں سماج پرست افراد کی بیجا تنقید اور غیر منصفانہ سر پنچوں کے حالات کا سامنا بھی ہے ۔عورت کے مسائل فقط ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی پیمانہ پر رونما ہوئے ،عورت کی چیخ و پکار نے لوگوں کو اس بات پر مجبور کیاکہ مسائل نسوان کے لئے اپنی آواز کو بلند کریں۔لہٰذا دنیائے ادب نے اپنے ادبی شہپاروں میں عورت کی داستان چھیڑی۔جب کبھی سماج یا معاشرہ نے حقوق کی پائمالی وناانصافی کی یا پھر سماج غلط راستہ کا شکار ہوا تو ادباء و شعراء نے اپنے قلم کے ذریعہ سے افسانوں،ناولوں،ڈراموں اور نظموں میں بڑے بے باک انداز میں نصیحت آمیز اور منصفانہ گفتگو کی ہے۔ ہندوستان میں سر سید کی علی گڑھ تحریک نے عوام وخواص کو مغربی تعلیم سے روشناش کرایا اور اس تحریک نے تعلیم کے حوالے سے کافی بیداری پیدا کی حالانکہ سر سید کی بڑی شدت سے مخالفت ہوئی۔ سر سید کی تحریک کے بعد ہندوستان میں ایک بڑی تحریک اُبھر کر سامنے آئی، جسے ترقی پسند تحریک سے جانا جا تا ہے ۔ترقی پسند تحریک نے جن مسائل سے بحث کی ہے۔ ان مسائل میں ایک مسئلہ عورت کا بھی ہے، ہندوستان میں عورت کے جو مسائل تھے ،مصنفین نے ادب کاایک اہم موضوع قرار دیا۔ زیر نظر کتاب’’ترقی پسند اردو افسانہ میں عورت کی عکاسی‘‘ ڈاکٹر اشرف لون کی تخلیق ہے۔ ان کاتعلق وادیٔ کشمیر سے ہے، جسے دورہء قدیم میں ایران صغیر کے نام سے جاناتھا ،جہاںا ردو زبان کو ایک سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ مذکورہ بالا کتاب موصوف کی تنقید و تحقیق کا ثمرہ ہے ،یہ کتاب۲۱۶ صفحات پر مشتمل ہے اور پانچ باب میںتقسیم کی گئی ہے اور اس تقسیم میں ذیلی ابواب بھی شامل ہیں۔
باب اول جدید ہندوستانی سماج میں عورت اس کو تین ذیلی عنوانات میں مقرر کر کے ہندوستان میں عورت کی تاریخ پر نظر ڈالی ہے اور قدیم ہندوستان میں عورت کے مقام و مرتبہ کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے اور ۱۸۵۷ ء سے لے کر عورت کے بدلتے ہوئے حالات پر مدلل بحث کی ہے ۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے عورتوں کے حالات میں کافی سدھار ہوا،عورتوں کو اپنے حقوق کا احساس ہوا اور اسکے حصول کے لئے کوشاں ہوئیں، اصلاح نسواں کے لئے با قاعدہ طور پر عورتیں متحرک ہو ئیںاور اس کے لئے انجمنوں کا قیام عمل میں آیا اور ان انجمنوں کو مردوں کی سرپرستی حاصل تھی۔تقسیم ہند کے بعد عورتوں کو جن مسائل سے دو چار ہونا پڑا، اس کا بھی اس باب میں اشارہ ہے ۔تحریک آزادی میں عورتوں کی شمولیت نے عورتوں مردوں کے برابر حقوق دلانے کی نیز مصنف نے اس باب میں ہندوستان میں موجودہ دور میں طرح طرح کے مسائل عورتوں کے لئے پیدا ہیں، اس کا تجزیہ اور عورتوں کے لئے جو ایکٹ بنائے گئے ہیں ان پر اپنا تنقیدی نظریہ پیش کیا ہے۔
دوسرا باب ماقبل ترقی پسنداردو افسانہ میں عورت اس باب کے ضمنی باب میں ترقی پسند افسانہ سے پہلے ادب لطیف کے افسانے میں عورت کی عکاسی اور نمائندہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کااور حقیقت پسند افسانہ میں عورت کے روپ کو تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ان افسانہ نگاروں میں یلدرم، نیاز فتحپوری، ل احمد، مجنوں گورکھپوری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔باب سوم اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے ابتدائی نقوش، باقائدہ آغاز اور ترقی پسند تحریک کے مصنفین و ناقدین کے ادبی تصورات و خیالات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ غدر کے بعد اردو ادب میں سر سید،حا لی اور آزاد وغیرہ کے رحجانات ترقی پسند کی علامات ہیں ۔ باب چہارم میں واضح کی گیا ہے کہ کس طرح ترقی پسند افسانہ نگاروں نے کھلم کھلا سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف آواز بلند کی اور یہ کہ سماج میںعورتوں،مزدوروںاور دبے کچلے لوگوں پرمظالم کابیان صنف افسانہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس باب میںترقی پسند افسانہ میں عورت کے مختلف روپ اورتحریک کے نمائندہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کا تنقیدی جائزہ اودیگر ترقی پسند افسانہ نگاروںمیں عورت کی عکاسی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان افسانہ نگاروں میں پریم چند، کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، ترنم ریاض وغیرہ جیسے بڑے افسانہ نگاروں کے نام قابل ذکر ہیں۔ باب پنجم اس باب میں افسانہ کے اجزائے ترکیبی اور ان کے فن پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے کردار نگاری افسانہ کا ایک اہم جز ہے جس کا افسانہ کے فن کو متحرک کر نے میں اہم حصہ ہوتاہے اگر کردار بے جان ہوں گے تو افسانہ قاری کو متاثر نہیں کر سکے گا اور پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیںہو گی اور انسان کو بوریت محسوس ہوگی۔ اس میں ترقی پسند افسانہ میں عورت کو بحیثیت مرکزی کردار پیش کیاگیا ہے۔ نما ئندہ افسانہ نگاروں کی کردار نگاری جن کے جاندار کردار افسانہ کی جان میں روح پھونکتے ہیں۔ ان کے انداز بیان اوراس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دیگر افسانہ نگاروں میں،سہیل عظیم آبادی،جیلانی با نو،حیات اللہ انصاری،صالحہ عابد حسین وغیرہ نے عورت کے مقام اور کردار سے بحث کی گئی ہے ۔مصنف نے ہر افسانہ نگار کی کردار نگاری کے فن پر بحث کی گئی لیکن ان افسانہ نگاروں میں کس کے کردار زیادہ جاندار ہیں اس سے گریز کیا ہے۔
اختتامیہ میں عورت کے مسائل کا مجموعی طور پرافسانہ میں بتد ریج ذکرکیا ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ اردو ادب میں عورتوں کے حقیقی مسائل کو سب سے پہلے مولوی نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں پیش کیا۔ ادب لطیف کے توسط سے ہندوستانی افسانہ نگاروں نے عورت کے مسائل کو جگہ دی ہے حالانکہ یہاں افسانہ پر رومانویت کا غلبہ تھا ۔ عورت کو جن مسائل کا سامنا قدیم دورمیں تھا، آج بھی وہ مسائل درپیش ہیں خواہ جنسی ہوں، سیاسی یا دیگر حصہ داری کے معاملات ،عورت کو وہ تمام مسائل کا سامنا آج بھی ہے ۔مصنف اس بات کے قائل ہیں کہ عہد حاضر کے افسانہ نگاروں نے بھی عورت کے مسائل کو اپنے افسانہ کا موضوع بنا یاہے لیکن ان کے افسانہ ترقی پسندوں کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اس فن کو آراستہ اور شہرت دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ڈاکٹر اشرف لون نے ترقی پسند افسانوں میں عورت کی عکاسی کو بہت ہی صاف گوئی اور سلیس اور انداز میں بیان کیا ہے اور بیجا تنقید سے بھی گریز کیا ہے۔ امید ہے یہ کتاب قارئین باخصوص یونیورسٹی ریسرچ سکالروںکے لئے فائدہ مند ثابت ہو گی۔