سبزار احمد بٹ
ہوش میں آتے ہی وہ اپنے گردونَواح کا مشاہدہ کرنے لگا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک غار میں پایا جو پوری طرح سے لہولہان تھی ۔دیواروں پر خون کے چھینٹے خوفناک منظر پیش کر رہے تھے ۔ اس کے کپڑے اور ہاتھ پیر خون سے لت پت تھے۔ ہر طرف خون ہی خون تھا اور غار کے چاروں طرف باز منڈلا رہے تھے – وہاں بہت سارے کبوتر لہولہان تھے، پنکھ ہی پنکھ بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ باز کبوتروں کی آنکھیں نوچ رہے تھے اور کچھ پنکھ ۔ ہر طرف سے کبوتروں کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی – کہیں پر کبوتروں کی آنکھیں تھیں تو کہیں پر سر، کہیں پر پنکھ تھے تو کہیں پر انتڑیاں ۔ کچھ کبوتر مرے ہوئے تھے اور کچھ ادھ مرے ۔ ایک کونے میں چند زندہ کبوتر سہمے ہوئے تھے۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ پتہ نہیں کب اُن کی باری آجائے اور دیوار پر بیٹھے باز انہیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔وہ ابھی تک یہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہے اور وہ یہ کیا دیکھ رہا ہے ۔ ہاتھ پیر زخمی تھے۔ جسم کا انگ انگ تھکن سے چور تھا ۔ اس نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی کہ اتنے میں ایک طاقتور باز آیا اور اپنے پنکھ سے اسے زور دار وار کیا ۔ دفعتاً اسے یاد آیا کہ وہ تو شہر گمنام سے پینتیس کلومیٹر دور وادی بے پُرسان کا رہنے والا ساجد ہے ۔ ساجد کو کبوتر پالنے کا بڑا شوق تھا۔ علاقے کا بڑا کبوتر باز مانا جاتا تھا ۔ اکثر اپنے کبوتروں کو باقی کبوتروں سے لڑواتا تھا۔ اس نے اپنے کبوتروں کو لڑنے کا ہُنر خوب سکھایا تھا ۔ اس کے کبوتر اکثر باقی کبوتروں کو پچھاڑ دیتے تھے ۔ساجد کی ماں اسے پیار سے بڑا کبوتر کہتی تھی ۔ صبح سویرے درسگاہ سے آکر کبوتروں کو دانہ پانی ڈالتا تھا اور پھر اسکول جاتا ۔ اسکول سے لوٹتے ہی سب سے پہلے اپنے کبوتروں کی خبر لیتا تھا ۔ پتہ نہیں وہ ان کبوتروں کا اتنا گرویدہ کیوں بن گیا تھا ۔ شاید اس لئے کہ بے زبان تھے یا شاید اسلئے کہ بہت معصوم پرندے ہیں اور کسی کو تکلیف نہیں دیتے ہیں ۔اس کی ماں بھی اس سے ناراض ہوتی تھی اور اکثر کہتی تھی
“ساجد تمہیں بس کبوتر پالنے ہیں پڑھنا لکھنا نہیں ہے کیا” ؟
“ماں پڑھتا تو ہوں بس ان سے محبت ہو گئی ہے “۔ ساجد مسکراتے ہوئے کہتا تھا ۔ اُس دن بھی کافی برفباری ہو رہی تھی اور سارے کبوتر بالکنی میں جمع ہو گئے تھے شاید دانہ پانی کے لئے کیونکہ برفباری کی وجہ سے باہر کچھ ملنا بہت مشکل تھا۔ ساجد دانہ پانی ڈال ہی رہا تھا کہ اس کی ماں بھی بالکنی پر آئی ۔ ساجد…….
جی اماں……!
آپ نے کچھ سنا؟
نہیں تو…ساجد نے پانی کی کٹوری کبوتروں کے سامنے رکھتے ہوئے کہا-،،
سنا ہے آج فضا میں باز نمودار ہو گئے ہیں جو کبوتروں کو اُٹھا لے جاتے ہیں یا زخمی کردیتے ہیں-
یا اللہ رحم …. ساجد کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا
” یاد رکھنا وہ باز تمہارے ان کبوتروں پر بھی حملہ کرسکتے ہیں _
“نہیں نہیں………! اُنہیں پہلے مجھے اُٹھانا ہوگا ۔ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا”
ساجد کا یہ کہنا تھا کہ اماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ارے پاگل یہ کیا کہہ رہا ہے ۔ تمہیں میری عمر بھی لگ جائے ۔ تم تو میری جان ہو
” ہاں ماں جس طرح میں تمہاری جان ہوں اسی طرح یہ کبوتر میری جان ہیں”
ساجد نے چٹکی لیتے ہوئے کہا
” یوں کہو نا کہ یہ تمہارے کبوتر ہیں اور تم میرے” ۔ پیاری اماں نے کان کھیچتے ہوئے کہا ۔ بس وہ دن اور آج کا دن ۔ اماں اسے کبھی بھی کبوتر پالنے پر ناراض نہیں ہوتی ۔ وہ جان چکی تھی کہ اس کی جان کبوتروں میں اٹکی ہوئی ہے ۔ کبھی کبھی رات کے وقت بھی ماں کا یہ جملہ اس کے کانوں میں گونجنے لگتا تھا کہ “فضا میں باز نمودار ہو گئے ہیں جو کبوتروں کو اٹھا لے جاتے ہیں” ۔ تب سے ساجد اور بھی چوکنا ہو گیا تھا ۔ ایک دن شدید برفباری ہو رہی تھی کہ اس نے اپنے مکان کی چھت پر ایک باز دیکھا ۔ اسے اپنی امی کی بات یاد آگئی ۔اس نے کبوتروں کو فوراً بند کر دیا ۔ جمعرات کی صبح فجر نماز پڑھ کے آیا تو اس نے کبوتروں کو دانہ ڈالا اور اور بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک بالکنی پر ایک باز نے کہیں سے اُڑان بھری اور کبوتروں کے بیچ میں سے ایک کبوتر کو اپنے نوکیلے پنجوں میں اٹھا کر اُڑ گیا، کبوتروں میں کھلبلی مچ گئ ۔ ساجد چیختے چلاتے نیچے اترا اور باز کا پیچھا کرنے لگا۔ ننگے پاؤں برف پر سے پاگلوں کی طرح دوڑتا رہا ۔ باز نے اس کے پیارے کبوتر کو اپنے پنچوں میں دبایا اور ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھ گیا۔ کبوتر کے سر پر ابھی چونچ مارنے ہی والا تھا کہ ساجد زور سے چیخا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ اسے کچھ نہیں سوجھا ۔ اس نے برف کا گولہ بنا کر باز کی جانب پھینک دیا ۔ لیکن وہ وہاں نہیں پہنچ سکا ۔ ساجد سردی سے کانپ رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ پیر سن پڑ چکے تھے لیکن اس نے مزاحمت کرنا نہیں چھوڑی ۔ وہ چِلاتا رہا ۔ باز خشمگیں نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگا۔ اتنے میں باز نے ایک عجیب سی آواز نکالی جو سنتے ہی بازوں کا ایک غول وہاں آ پہنچا اور ساجد پر حملہ آور ہوا ۔ ساجد ہاتھ پیر مارنے لگا لیکن ان خونخوار بازوں کے سامنے اسکی ایک نہ چلی ۔ اس سے پہلے کہ اس کی ماں اس تک پہنچ پاتی ۔ ان بازوں نے اسے اپنے ساتھ اٹھا لیا اور اس ویران غار میں پہنچا دیا –
ساجد ان ہی خیالوں میں گم تھا کی کچھ باز ایک اور کبوتر کو پکڑ کے لائے اور سب اس معصوم کبوتر پر ٹوٹ پڑے ۔ کبوتر چند لمحوں میں ہی لہولہان ہوگیا ۔ اسے ہر ایک کبوتر میں اپنا کبوتر نظر آتا تھا ۔ دن گزرتے گئے اور اسے اس غار میں رہنے کی عادت سی پڑ گئ ۔ ہر طرف باز ہی باز تھے۔ روز نئے کبوتروں کو لایا جاتا تھا اور انہیں بڑی بے دردی اور بے رحمی سے نوچا جا رہا تھا ۔ان کی چیخوں نے ساجد کو جیسے ذہنی مریض بنا دیا تھا ۔ پھر ایک دن ساجد کی طرح ایک اور کبوتر باز کو بازوں کا ایک غول اٹھا لایا ۔ جو بے ہوش پڑا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ہر تیسرے چوتھے دن ایک نئے کبوتر باز کو اس غار میں لایا جاتا تھا ۔
اس طرح وقار، عالم، باسط اور نہ جانے کس کس کو اس اندھیری غار میں لایا گیا ۔
“آخر ہم کب تک اسی طرح خاموش رہیں گے ۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا اس طرح سے ہمارے علاقے میں کبوتر پالنے کا سلسلہ ہی بند ہوگا اور فضاؤں میں معصوم کبوتر نہیں ظالم باز نظر آئیں گے ” ایک کبوتر باز نے کہا
” لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ آپ نے ان کی نوکیلی چونچ اور نوکیلے پنجے دیکھے ہیں ۔ یہ تو ہم سب کو مار ڈالیں گے “ساجد نے دھیمی آواز میں کہا
” ویسے بھی ہم کون سے زندہ ہیں ۔ تُھو…..!!! ایسی زندگی پر ۔ ہر روز ہمیں معصوم کبوتروں کی چیخیں سننی پڑتی ہیں ۔ کبوتروں کی لاشیں دیکھنی پرتی ہیں ۔ ہم چاہیں تو ان درندوں سے مقابلہ کر سکتے ہیں. شرط یہ ہے کہ ہم ان کی طرح ایک ہو جائیں ۔ پھر بھلے ہی ہماری قسمت میں موت ہی کیوں نہ ہو ۔ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے” ان میں سے کسی اور نے کہا ۔ یہ سب آپس میں سرگوشی کر رہے تھے اور خونخوار باز ان کی طرف خشمگی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔دھیرے دھیرے ان میں ہمت آتی گئی اور ایک دن انہوں نے ان سب بازوں پر ایک ساتھ حملہ کر دیا ۔ یہ خونی غار پھر ایک بار خون سے لت پت ہوئی ۔ لیکن اس بار خون کبوتروں کا نہیں بازوں کا تھا ۔ اور وہ سب وہاں سے نکل آئے ۔ اس طرح سے کبوتروں کے شکار کا کھیل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ۔ علاقے میں پھر ایک بار کبوتر آزاد فضاؤں میں سانس لینے لگے ۔ ہاں مگر اس گھمسان لڑائی میں ساجد کی دونوں آنکھیں ظالم بازوں نے نوچ لیں۔
���
اویل نورآباد، کولگام
موبائل نمبر؛7006738436