کا ہے کی تبدیلی ؟

 اکیسویں صدی میں جہاں سائنسی ایجادات سے انسان کے جینے کا ڈھنگ ہی بدل گیا ،وہاں ہمارے سماج سے بہت سارے بیش بہا روایات اور اقدار ناپید ہوئے۔لوگوں میں جدیدیت آگئی ،اُن کے سوچنے کا انداز بدل گیا،  ان کی زندگی میںنئی مصروفیات شامل ہوئیں ،نئے تقاضے کھڑے ہوئے ۔غرض ہر لحاظ سے ہمہ گیر تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں ۔زندگی میں یہ بدلاؤ صرف شہروں اور قصبوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کے اثرات دور دراز دیہاتوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بنابریںہمارے یہاں کسی بھی علاقے یا خطے میں اپنا روایتی اور خالص تمدن نہ رہا ۔اس میں مختلف قسم کی ثقافتی ،لسانی، سماجی ملاوٹیں ہوئیں اور ایک مخلوط تمدن وجود میں آیا ۔اس بدلاؤ کے پیچھے دراصل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے،جس نے اب پوری دنیا کو گلوبل ولیج بنا کر رکھ دیا ہے ۔لوگ ایک دوسرے علاقوں اور خطوں کے رہن سہن اور طر زِحیات سے متاثر ہو کر اُن کا اثرات قبول کرتے رہتےہیں ۔
 عام مشاہدہ یہی ہے کہ شہروں کی زندگی گاؤں کی زندگی سے مختلف ہوتی ہے، لیکن جہاں تک موجودہ دور کا تعلق ہے ، اب اس باب میں ہمارے یہاں بہت ساری مماثلتیں پائی جاتی ہیں ۔ماضی میں گاؤں کی زندگی خالص کشمیری تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی ،لیکن آج وہاں بھی صورت حال کچھ اور ہی ہے۔ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ دو ایسی چیزیں ہیں جو دنیا کے ایک خطے کا تمدن، رنگ ڈھنگ اور فیشن دوسرے علاقوں تک جنگل میں آگ کی طرح پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے جارہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سارے ایسے نوجوان دیکھنے کو ملیں گے،جن کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے آیا وہ کشمیری ہیں یا کسی اور خطے اور ملک کے ۔مثال کے طور پر بعض نوجوان عجیب و غریب قسم کے ہیر اسٹائل لئے گھومتے پھیرتے ہیں ۔ اسی طرح ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جو مختلف قسم کی خرافات کی سماجی قبولیت کا پتہ دیتی ہیں ۔ معاشرے کی اس تبدیلی میں ٹیلی ویژن ، کیبل اور ڈش کا کردار بھی بہت اہم ہے ، خاص کر ان چنلوں پر پیش کیے جانے والے ڈرامےسیرئل سماج  برتاؤمیں تبدیلیوں کے باعث بن رہے ہیں ۔ویسے بھی ڈرامہ ایک ایسا صنفِ ادب ہے جس کو انسانی زندگی کی نقل کہا گیا ہے، لیکن ٹیلی ویژن ڈرامہ سیر یلوں میں معاملہ کچھ اُلٹا ہوتا ہے۔ یہاں ڈرامہ زندگی کی نقل نہیںبلکہ ان کی وساطت سے ناظرین کی زندگی نقل بن کے رہ گئی ۔مطلب یہ کہ ہم آج ان ڈراموں کے پیچھے پیچھے سوچ اور عمل کے حوالوں سے ایسے چلتے پھرتے ہیں کہ اُن میں جو باتیں پیش کی جاتی ہیں، اُن کو ہم مِن وعن اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یوں ہماری تہذیب میں دوسری نئی چیزوں کا اضافہ ہو  نے سے بدلاؤآجاتا ہے۔میرے کہنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ان ڈرامہ سیر ئلوں میں کوئی کسر ہوتی ہےبلکہ مراد یہ بتانا بھی ہے کہ ہم کو ان کی اپنی سوچ ، ثقافت اور انفرادیت کی قیمت پر ان کی بےجا پیروی نہیں کرنی چاہیے ۔ آج ہمارے سماج میں ایک اور بات کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے ،اوروہ یہ ہے کہ ہمارے چھوٹے بچے بچیاں اپنا زیادہ تر وقت ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں ۔ایسا کرنا اُن کے لئے کسی بھی صورت میں سُود مند ثابت نہیں ہو سکتا ۔ماہرین اکثر و بیشتر تحقیق کی بنیادپر عوام کو مطلع بلکہ متنبہ کرتے رہتے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کیلئے ان چیزوں کا بے اعتدال استعمال کتنا مضر ہے اور نوخیز نسل کو ان سے دور رکھنے کے لئے کیا کیا چیزیں کی جانی چاہیے ۔
کمپیوٹر یا موبائل فون پر ہر وقت کھیلے جانے والے گیمز تو نئی نسل کے لئے اتنی مضر صحت ہوتی ہیں کہ ایک باحس وباشعورانسان کے رونگٹے اُس وقت کھڑے ہو جاتے ہیں جب وہ اُن کمپیوٹر گیمز کے بارے میں ماہرین کی آرا سنتے ہیں۔ یہ نہ صرف مضرِ صحت ہیں بلکہ کہیں کہیں جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں ۔ بلیو ویل گیم کا نام تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔کیا ہے یہ گیم؟ صرف موت کو گلے لگانے کی خطرناک مشق! کئی  معصوم نوخیز کلیوں نے اس گیم کی کارستانی میں پھنس کر خود کو موت کے حوالے کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔یہ نتیجہ ہے بچوںاور بچیوں کے تئیں والدین کی لاپرواہی اور عدمِ توجہی کا۔جب ہم بچوں اور بچیوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہیں تو پھر اس کا ثمرہ لازماً ایسا ہی نکلتا ہے۔حال ہی میں وادئ کشمیر کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ایک ویڈیو گیم ’’پب جی ‘‘ کو مضر ادویات لینے سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے ۔آج کل کے بچوں میں ایک قسم کا رحجان پیدا ہوا ہے کہ وہ ایسے فضول کاموں کےلیے بر بنائے تجسس ایک دوسرے کی تقلید کرکے اس میں سبقت لے کر اپنی بربادی کا سامان کر تے ہیں ۔والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح اخلاقی تربیت کریں اور اُن کی جسمانی وروحانی افزائش کا خاص خیال رکھیں ۔ اس چیز کی طرف بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچے بچیاں کسی بُرائی کےمرتکب تو نہیں ہو رہے ہیں ۔جب کچی عمر میں بچوں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے تو بعد میں وہی بچے اپنے والدین کے نافرمان وروگرادن بن جاتے ہیں اور ہپم سب جانتے ہیں کہ جو بچے اور بچیاںاپنے والدین اور بزرگوں کی اطاعت نہ کریں، سماج کےلیے اُن سے کسی بھلائی اور خیرکی توقع نہیں رکھی جا سکتی ہے ۔اس طرح سے سماج میں ایسے غلط کار شہریوں کی تعداد بڑھ جانے کا احتمال رہتا ہے جو آگے زندگی کے تمام شعبوں میں منفی کردار کی بوائی کرتے ہیں ۔
آج کا حساس و باہوش دانش ور طبقہ اس سوچ میں پڑ گیا ہے کہ اگر بچوں اور بچیوں کی مناسب اخلاقی تریبت کے حوالے سے جاگ نہ جائیں تو ہمارا مستقبل کیسا بھیانک ہوگا؟ آج کل کے بعض نونہال اور نوعمروں کو ہم ایک ایسی راہ پر گامزن پاتے ہیں جس کوئی اچھی منزل نظر نہیں آتی ۔بات چاہے عجیب و غریب ہیر اسٹائل کی ہو یا پھٹے جینز پہننے کی،موبائل فون کا غلط استعمال ہو یا سوشل میڈیا کا ناروا ئیاں ،غرض سماج میں واضح طور ایک ہوش رُبا منفی تبدیلی آچکی ہے۔ ایسے غلط رحجانات کو دن بہ دن فروغ ملنے سے ہماری نئی نسل کا مزاج بھی غلط طور تبدیل ہو چکا ہے۔ یہاںاکبر الہ آبادی کی نظم ’’نئی تہذیب ‘‘ کا ایک شعر مجھے یادآرہا ہے   ؎ 
  بدل  جائے  گا  اندازِ  طبائع   دورِ  گردوں   سے 
   نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسبابِ غم ہوں گے 
واقعی یہ پیش گوئی سو فیصد درست ثابت ہو رہی ہے ۔سوشل میڈیا ایک ایسا موثر ذریعہ ہے، جس کی بدولت ایک عام آدمی بھی اپنی بات دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچا سکتا ہے، لیکن اس کا نامناسب استعمال بھی وبال بن چکا ہے۔ایک طرف جہاں ہمارے معاشرے کا باضمیر طبقہ اپنے روشن خیالی سے ہمیں اس میڈیا کے وسیلے سے نوازتا رہتا ہے اور لوگوں کے مشکلات و مسائل کو بہت خوبی کے ساتھ اُجاگر کرتے ہیں ، دوسری طرف کچھ ناسمجھ اس میڈیاکا غلط استعمال کر گزرتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر بسااوقات ایسے ویڈیو زاور ایسی تصاویر اَپ لوڑ کی جاتی ہیں، جن سے لاج شرم و الے با حیا لوگوں کے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں ۔ آج کل یہ رِ یت بھی چلی ہے کہ کسی مجبورو ناتواں کا ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال کر اُس کا تماشہ بنا دیا جائے ’’ٹک ٹاک‘‘ایک جدید قسم کی وبا ہے، جس سے بعض لوگ بے ہودگیاں اور ناشائستہ باتیں سوشل میڈیا پر وائرل کر تے ہیں ۔ مجموعی طوراس کا بھی منفی اثر سماج پر مرتب ہو تا ہے، خاص کر کچے ذہن کے بچے بچیاںایسی غلط باتیں اپنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔افسوس صد افسوس کہ ان لغویات میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ کچھ لڑکیاں بھی شامل ہیں ۔ایسا کرنے والے تو اکثر نابالغ ہوتے ہیں ،اُن میں اگر اتنی سمجھ نہیں کہ یہ سمجھ سکیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، لیکن تعجب ان کے والدین اور بڑوں کا ہے جو یہ ساری کارستانیاں دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بن جاتے ہیں ۔ جب والدین اور دوسرے بزرگ ایسی منفی تبدیلیوں کا مشاہدہ کسی سرزنش اور تنبیہ کے بغیر خاموشی سے کریں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ خدانخواستہ آنے والی تباہی کوئی بڑی آفت و شامت ہونی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام نے اپنے پیش رؤں کے اخلاقی وتمدنی میراث کو چھوڑ کر دوسروں کے بےہودہ طور طریقے اپنائے ، بالآخروہ کہیں کے نہ رہے اور انہیں پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ملا۔شاعرِمشرق علامہ اقبال اسی حقیقت کی ترجمانی یوں کرت ہیں    ؎ 
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
 ثُریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
رابطہ:متعلم شعبہ ٔ ارود، کشمیر یونیورسٹی ، سری نگر