یگوں کو بیتنا تھا۔بیت گئے۔۔۔۔۔۔۔۔میری روح کی طرح اداس اداس میں جب کبھی اپنی گذری ہوئی زندگی کی محرومیوںاور تلخیوں کا حساب کرتا ہوں تو مجھے اپنے اندر دور کہیں کسی کوے کی کائیں کائیں سنائی دیتی ہے ۔پہلے میں نے سوچا کہ یہ میرا وہم ہے، فریبِ نفس ہے ۔بھلا مجھ میں ایک آدمی میں کوّے کی کائیں کیا معنی۔۔۔لیکن بار بار اس کائیں سے میرا واسطہ پڑنے کے سبب مجھے یقین ہو چلاکہ کہیں نہ کہیں پرکوئی کوّا مجھ میں موجود ہے ضرور۔۔۔۔کسی کہانی کی صورت میں یا کوئی اور روپ دھارے۔۔۔۔۔!
ایک دھند سی ہے کئی روز سے میرے اندر باہر چھائی ہوئی۔اِس دھند میں سے ایک چہرہ، قریب چھ سات سال پہلے دیکھا ہوا، تیکھے ناک نقوش والی۔۔۔۔۔ایک جوان لڑکی کا چہرہ بار بارابھرنے کی کوشش کررہاہے۔لیکن پھر دُھند اُسے کھا جاتی ہے۔۔۔چہرہ ڈوب جاتا ہے۔پھر کچھ ہی وقفہ بعد یہی چہرہ دوبارہ ا بھرنے کی سعی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
میں بھی کچھ پریشان سا ہوں۔
چاہتا ہوں کہ اس چہرے کو کچھ دیر کے لئے ہاتھوں میں لوں۔ اپنے سامنے ایک مورتی کی طرح رکھوں۔پھر اِسے دیکھتا رہوں۔۔۔اور ایک کہانی ترتیب دوں کہ میں نے کبھی وعدہ کیا تھا اُس سے ۔۔۔!
’’یہ ژھومو ہے ‘‘
سامنے میرے ہسپتال میں کام کرنے والا لداخی ملازم کہہ رہا ہے ۔
’’سالی بڑی گھمنڈی ہے ‘‘
’’ نہیں۔۔۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے۔’’ گھمنڈی نہیں ہے ۔یہ اِس لڑکی کا اپنا سٹائل ہے۔‘‘
’’ تم۔۔۔۔۔!‘‘ ساتھی ملازمِ رفتن مجھے گھور کے دیکھتا ہے ۔’’ تم کیسے کہہ سکتے ہو ‘‘
’’ میں۔۔۔! ‘‘ کچھ کہتے ہوئے رک جاتا ہوں۔واقعی میں خود بھی نہیں جانتا۔یہ بات میں نے کیسے کہہ دی۔میں تو ابھی اس لڑکی سے ملا بھی نہیں ہوں۔نہ اِس سے کوئی بات کی ہے۔محض چند روز قبل ہی تو ہسپتال کے ٹھیک سامنے کے پرائمری سکول میں بحیثیت ٹیچر آئی تھی۔خاموش طبع لڑکی تھی خوبصورت تھی اور مجھے اچھی لگی تھی۔
اُن دنوں میری پوسٹنگ لداخ کے خلصی بلاک کے ایک خوبصورت گاوئں تگماچک میں ہوئی تھی۔چھوٹا سا گاوئں تھا۔آبادی کم تھی۔زیادہ تر لوگ دیسی علاج کو ہی انگریزی علاج پر ترجیح دیتے تھے۔اسلئے ہاسپٹل میںکرنے کو کچھ کام نہ ہوتا تھا۔اپنی بے کاری اور بوریت سے بچنے کے لئے میں اپنا زیادہ تر وقت کھیت کھلیانوں اور پہاڑوں کے چکر کاٹنے میں صرف کرتا۔یا پھراسی سکول میں بچوں اور استانیوں کے ساتھ گپ شپ میں گزار دیتا۔ایک بار سکول کی ہیڈ مسٹرس انگمو نے پوچھا۔
’’ بابو آپکی شادی ہوئی ہے ‘‘
’’ ہاں پچھلے سال ہوگئی ۔‘‘
’’ پھر اپنی میڈم کو ساتھ کیوں نہ لائے ۔‘‘وہ مسکراکر بولی۔
میں کچھ دیر خاموش رہا۔جواب کے لئے اُسے منتظر پاکرلاپرواہی سے کہا ۔
’’ دیکھتے ہیںآگے کیا ہوگا ۔‘‘
’’ اچھا ہے لے آئو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بھی دیکھیں آپ کی بیگم کیسی ہے ۔‘‘ ژھومو کے لہجے میں شوخی تھی۔
میں مسکراکر چل دیا۔
ایک خوبصورت سی شام کا ذکر ہے۔میں ایک بڑی سی چٹان سے ٹیک لگائے اپنی تنہائیوں میںڈوباکچھ لکھنے میں محو تھا کہ اچانک سامنے سے ژھوموآتی ہوئی دکھائی دی۔میں نے قلم روک کر اُسےغور سے دیکھا۔
اُسکی چال میں محتاط پن تھاحالانکہ وہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ بڑی آزاد خیال ہے۔اسمارٹ ہے۔قریب پہنچ کر بڑی لگاوٹ کے ساتھ پوچھا ۔
’’ بابو۔۔۔آپ کیا لکھتے رہتے ہیں ؟ ‘‘
’’ کچھ نہیں۔۔۔۔بس یونہی۔‘‘
’’ پھر بھی۔۔۔۔‘‘ اُسکے لہجے میں اشتیاق تھا
مجھے کہنا پڑا
’’ ایک کہانی لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔لکھ نہیں پا رہا ہوں ‘‘
’’ اچھا۔۔۔آپ ناولسٹ ہیں۔‘‘
’’ جی نہیں۔۔۔ایک چھوٹا سا کہانی کار ہوں ‘‘
وہ کچھ سوچنے لگی
چند لمحے کی خاموشی کے بعد بولی۔
’’ تو پھر آپ مجھ پر بھی ایک کہانی لکھئے۔۔۔۔‘‘
’’ تم پر۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ میں چونک سا پڑا۔جی میں ایک خوشی سی محسوس ہوئی۔ایک نیا سگریٹ سلگاکرکچھ کہنے ہی والا تھاکہ اُسی پل دور سے ایک مقامی عورت نے اسے آواز دی۔
’’ ہا لے ژھومو۔۔۔۔‘‘
ژھو مو مسکرا ئی۔پھر اپنے کندھوں کو سمیٹا اور چل دی۔
کچھ روز بعد ژھومو ہاسپٹل آگئی۔صحت کچھ ناساز تھی۔چہرے کی بشاشت غائب تھی۔ بخار تھا اور تھوڑی کھانسی بھی ۔میں نے دوائی لکھ کے دی۔چونکہ رفتن، جو نرسنگ آڈرلی تھا،کہیں باہر گیا تھا اس لئے اُسے انتظار کرنا پڑا۔کچھ لمحے بعد وہ پُر خیال نظروںسے مجھے دیکھتی ہوئی بولی۔
’’ بابو۔۔۔۔۔۔۔آپ لکھیں گے نا مجھ پرکہانی ‘‘
’’ ہاں ضرور۔۔۔‘‘میں نے چونکتی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھا۔’’ تم پر ایک کہانی ضرور لکھوں گا۔ ‘‘
’’ آپ اُس میں کیا لکھیں گے۔‘‘
اس نے بڑے بھولپن سے پوچھا
میں کچھ دیر اُسے دیکھتا رہا۔اُسکی آنکھوں میں جانے کن خوابوں کی جھلملاہٹ تھی
’’ وہی جو تم ہو۔۔۔جو تمہارا ظاہر بتاتا ہے ۔جو تمہاری اصلیت ہے ۔‘‘
وہ یکایک مسکرا دی۔’’ آپ میری اصلیت جانتے ہیں۔‘‘
میں سٹپٹا سا گیا۔اپنی خفت مٹانے کے لئے جلدی سے کہا۔
’’ جاننے کی کوشش کررہا ہوں۔‘‘
واقعی آدمی دوسرے کو جاننے کی کوشش ہی کرتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جان کر بھی وہ کتنا جانتا ہے۔؟
رِفتن آگیا تو اجازت لے کر وہ چل دی۔میں دیرتک اُس کے خیالوں میں کھویا رہا۔
موسم میں ایک خوشگوار تبدیلی آگئی تھی۔
بہار جوبن پر تھی۔ہر شے سے ایک نکھار جھلک رہا تھا۔خواب سا روشن کرنوں کا دن تھا۔میں ندی کنارے چھوٹے چھوٹے گول پتھروں پر بیٹھا پانی سے کھیل رہا تھا۔پانی سے باتیں کر رہا تھا۔اتنے میں ایک بچی میرے قریب آکر ہانپتی ہوئی سی۔۔۔۔۔۔۔کہتی ہے۔
’’ میڈم کپڑے مانگتی ہے ‘‘
’’ کس کے کپڑے۔؟ ‘‘
’’ آپ کے کپڑے ‘‘
’’ میرے کپڑے۔۔۔۔۔مگر کیوں۔‘‘میں نے حیرانگی ظاہر کی۔
’’ نقشہ کھینچنا ہے۔۔۔۔۔‘‘وہ بولی
’’ نقشہ۔۔۔۔! ‘‘ میں کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا۔پھر جب نقشہ کی حقیقت جاننے کے لئے میں سکول پہنچ گیا تو بات سمجھ میں آگئی۔میڈم ژھومو کے ہاتھوں میں ایک چھوٹا سا کیمرہ تھااور وہ بچوںکو لائن میں کھڑا کرکے انکی تصویریں لے رہی تھی۔مجھ پر نظر پڑی تو ایک دو شاٹس میرے بھی لئے۔
پھر دوسری میڈم کو کیمرہ تھماکر مجھ سے بولی۔
’’ چلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اپنا پینٹ دیجئے اور وہ بلیو شاٹ بھی۔‘‘
’’ کیوں۔؟ ‘‘
’’ مجھے فوٹو کھنچوانا ہے۔ایک یادگار فوٹو۔۔۔‘‘
انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔میں نے مسکراکر کہا ۔’’ جو حکم سرکار۔۔۔۔۔۔۔۔آیئے میرے ساتھ ‘‘
میرا ڈھیر ا زیادہ دورنہ تھا۔ہم ساتھ ہی نکل گئے۔اُس کے مطلوبہ کپڑے سامنے رکھ کر میں کمرے سے باہر نکل آیااور اگر میں وہیںرہنے کی ضد کرتا تو شاید وہ انکار نہ کرتی ۔ میرا وہم تھا یا حقیقت۔۔۔جانتا نہیں ہوں۔خیر پانچ منٹ بعد وہ باہر نکل آئی۔تو میںاُسے بس دیکھتا ہی رہ گیا۔بڑی حسین لگ رہی تھی۔تنگ شائٹ میں اسکا سینہ زیادہ اُبھرا ہوا لگا اور میری نظریںباربارالجھتی گئیں۔
عجیب سا خوابناک دن تھا وہ۔واپسی پر ہمیں دیکھکر انگمو معنی خیز انداز میںمسکرائی۔ ہم دونوں کے کچھ شاٹس بھی لئے۔ژھومو نے پھر کیمرہ سنبھالا۔سکول کی بچیاں دُھلی وردی میںچمک رہی تھیں، چہک رہی تھیںاور ژھومو انہیں مختلف پوز اختیار کے لئے کہہ رہی تھی ۔کبھی ڈرل کرتے ہوئے کبھی گول دائرے میں ناچتے ہوئے۔۔۔تصویریںلینے میں وہ محو ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعدوہ ساری تصویریں مجھے دکھائیں ۔کچھ مجھے رکھنے کے لئے بھی دیں ۔جو کہ گردِ را میں کہیں کسی گلیارے میں کھو گئیں۔مگر وہ عکس جو میرے ذہن کے کیمرہ میں محفوظ تھے۔آج بہت یاد آرہے ہیں۔
یاد رہے ۔۔۔کہانی کہہ رہا ہوں میں۔ژھومو کی۔۔۔تگماچک اور کوّے کی سہ پہر کو ہی اُس دن شام کا گماں ہورہا تھا۔آسمان کو کالے ابر نے ڈھک لیا تھا۔قدرے سرد سا دن تھا۔سویرے زور کی بارش ہوئی تھی۔شاید اسی لئے بچوں کو چھٹی دی گئی تھی کیونکہ سکول کیاابھی کوئی عمارت نہ تھی اورنزدیک ہی کہیں پرتعمیرہو رہی تھی۔فی الحال وہ بچوں کو ایک ہموارخطہ زمین پر بڑے سے پیڑکے سائے میں پڑھا تے تھے۔
میں ورانڈے پر اکیلا کرسی پر بیٹھا اپنی کسی سوچ میں گم تھا۔ایک میٹھی کھنکتی ہوئی آواز کانوں سے ٹکرائی۔’’جُولے صاحب ۔۔۔‘‘
ژھومو تھی۔بنی ٹھنی ۔۔۔آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر یںتھیں۔
’’جُولے۔‘‘ میں نے مسکراکرجواب دیا۔’’بیٹھو۔۔۔۔‘‘
وہ ٹھیک میرے ٹیبل کے سامنے آکرکرسی پر بیٹھ گئی۔اپنے ماتھے پر آئی ہوئی ہلکی سی لٹ ہٹاکر بولی۔
’’رِفتن کہاں ہے ؟ ‘‘
’’گھر گیا ہے۔زانسکار ‘‘
’’زانسکار۔۔۔۔۔‘‘وہ چونک سی پڑی۔’’ مجھ سے تو کچھ کہا نہیںاُس نے۔۔۔پکا فراذیہ ہے وہ ‘‘
مجھے یاد آگیا۔رفتن نے بھی اسکے متعلق اچھی رائے نہیں دی تھی اور یہ بھی اُسے پکا فراڑیہ کہتی ہے ۔دونوں کے بیچ کیامعاملہ ہے اصل میں۔۔۔میں کچھ سمجھ نہ پایا ۔میری سوچوں کو اُس کی آواز نے توڑ دیا۔
’’ آئو ۔۔۔ایک دو بازی کھیلیں ۔‘‘
’’ چلو۔۔۔جیسی آپ کی مرضی۔‘‘
اُس نے ہینڈ بیگ سے تاش کی گڈی نکالی ۔پتے پھینٹے اور ہم سیپ کھیلنے میں لگ گئے۔پہلی بازی میں نے جیت لی ۔دوسری اور تیسری اُس نے۔اس دوران وہ اپنی عادت کے خلاف خاموش سی رہی ۔کچھ پوچھا تو ہوں ہاں میں جواب دیا ۔
’’ کیا بات ہے ژھومو۔۔بہت چپ ہو۔کیا سوچ رہی ہو ‘‘
’’ کیا بتاوں ۔جو سوچ کے آئی تھی وہ میںبھول گئی ہوں۔‘‘
’’ پھر بھی۔۔۔۔کچھ تو یاد ہوگا ۔‘‘
’’ ہاں وہ…بابومیں آپ سے۔ ۔ ۔۔ ۔۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں یک بہ یک جھُک گئیں۔
چہرے پر حیا کی لالی پھیل گئی اور اُسکا جسم مجھے کانپتاہوا محسوس ہوا۔میں نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلایا۔
’’ژھومو۔۔۔میرے دل میں تمہارے لئے بہت عزت ہے۔ بہت پیار ہے۔‘‘
’’سچ بابو۔۔۔! ‘‘اُس نے سر اٹھاکر میری آنکھوں میں دیکھا۔اسکی آنکھوں میںمستی تھی۔جھومتی سی بہار تھی۔ میں لمحہ بھر کے لئے کہیںکھو ساگیا۔
پھر اچانک میرے کانوں میں ہلکی سی کائیں سنائی دی۔
میں چونک پڑا ۔ کائیں کائیں۔۔۔کائیں کائیں۔۔۔۔ ایک شور سا اٹھا۔میں اِس شور سے ا لجھنے لگا ۔کانپنے لگااندر ہی اندر۔۔۔دور کہیں۔پھر وحشت ذدگی کے عالم میں میرے لب اچانک ہلے ۔
’’ ژھومو۔۔۔۔تم تو کہہ رہی تھی۔آج ہماری بڑی پوجا ہے ‘‘
’’او ہاں ۔میں تو بھول ہی گئی تھی۔‘‘ وہ جیسے گہری نیند سے بیدار ہوگئی ۔بولی۔
’’ ٹھیک یاد دلایا آپ نے۔اچھا میں جاوُں۔۔۔بڑے گھمپا میں آج میلہ ہے۔۔۔آو تم بھی۔۔۔‘‘
اس کے لہجے میں ایک التجا تھی۔لیکن میں بے حرکت رہا۔
وہ اٹھ کے چلی گئی۔
ساتھ ہی کوّے کی کائیں کائیں بھی بند ہوگئی۔میں حیران اور اداس سا شاخ پر بیٹھے خاموش کوّے کودیر تک گھورتا رہا۔۔۔۔۔
���
مدینہ کالنی۔مَلہ باغ۔سرینگر کشمیر