۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں اب صرف ایک سال رہ گیا ہے۔مودی حکومت کے ۴؍برس یوں بیت گئے جیسے کل کی بات ہو۔وقت کے بیت جانے کے باوجود بھی وقت کے نہیں بیتنے کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی تبدیلی نہ ہو یا کسی میں کوئی اہم تبدیلی نہ ہو۔کسی ایک شخص کی بات کی جائے تو جیسے اُس نے ایک گھرکے رہتے ہوئے کوئی دوسرا گھر لے لیا ہویا موجودہ گھر کی تجدید کاری ہی کروا لی ہو،کوئی نئی موٹر گاڑی خرید لی ہو یا کسی نئے آفس میں زیادہ عملے کے ساتھ شفٹ ہو گیا ہو تو اسے اس شخص کی زندگی میں تبدیلی کہیں گے اور اُسے محسوس ہوگا کہ جو گزشتہ ۴؍برس بیتے ہیں وہ بڑے ہی ڈھنگ سے بیتے ہیں اور اُس نے اچھی خاصی تفریح کی ہے۔اُسے قطعی یہ محسوس نہیں ہوگا کہ اُس کے اوقات جلدی گزر گئے ہیں ۔اسی طرح کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے ساتھ بھی ہے۔اِس مدت میں اُن کا ریونیو اگر بڑھا ہے تو ظاہر ہے کہ منافع بھی بڑھا ہوگا اور کمپنی نے مزید ترقی کی ہوگی لیکن حالات اور اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ ۴؍برسوں میں سب کچھ جوں کا توں پڑا ہوا ہے(گورنمنٹ کے پیش کردہ اعداد و شمار جانے دیجئے،زمینی حقائق کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں)۔پورے ملک کی حالت جامد و ساکت ہے اور لوگ اِس انتظار میں ہیں کہ کب ۲۰۱۹ء آئے اور وہ اپنی رائے دہی کا استعمال کر کے اِس کیفیت سے چھٹکارہ پائیں لیکن کیا بی جے پی و آر ایس ایس اور مودی وامیت شاہ کی جوڑی ایسا ہونے دے گی؟ لوگوں میں جو غصہ ہے کیا اُسے زائل کر دینے میں یہ جوڑی ید طولیٰ نہیں رکھتی ہے؟جوڑ توڑ کی سیاست میں کیا یہ اعلیٰ مقام پر فائز نہیں ہے؟اگر ایسا ہے تو کانگریس( اور دیگر پارٹیوں) کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو بچانے کے ساتھ ساتھ یہ خود کے وجود کو بھی سنبھالا دے سکے۔
ویسے کانگریس نے کوشش شروع کر دی ہے جس کا ثبوت ابھی حال ہی میں دہلی میں منعقدہ کانگریس کا عظیم پلینری سیشن تھا جس میں دونوں دِنوں کانگریس کے کارکنوں اور قابلِ قدر لیڈروں میں جوش و خروش دیکھا گیا اور کچھ کر گزرنے کی خواہش اُن کے ساتھ ہی کانگریس صدر میں بھی دیکھی گئی۔راہل گاندھی کے بارے میں عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کے لالچی نہیں ہیں اور چند مہینوں پہلے تک اُن کے اندر وزیر اعظم بننے کی تمنا تک نہیں تھی۔بھلا ہو سیم پٹرودا کا کہ اُنہوں نے گجرات الیکشن سے ۲؍ ماہ پہلے امریکہ کی یونیورسٹی میں طلبہ کے سا تھ راہل گاندھی کا ایک کامیاب مناظرہ رکھوایا اور وہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم بننے کے لئے تیار ہیں ۔ورنہ اِس سے پہلے وزیر اعظم کے عہدے کو شاید وہ اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے یا ممکن ہے کہ اسے اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہوں اور انہوں نے یہ قیاس کر لیا ہو کہ جب چاہیں گے حاصل کر لیں گے۔یہ بھی رعونت کا ہی ایک انداز ہے۔۔۔لیکن مودی اور امیت شاہ کی جوڑی جس طرح کانگریس کا نام و نشان مٹا دینے کے درپے ہے اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ راہل کے لئے ڈگر آسان نہیں ہے اور اگر ڈگر کو آسان کرنا ہے تو انہیں دوگنی محنت کرنی ہوگی۔گجرات کی فتح ( تھوڑی دیر کے لئے مان لیا جائے) کے بعد راہل گاندھی جیسے سو گئے حالانکہ وہ پارٹی کے صدر بنائے جا چکے تھے۔اِس رفتار کو جاری رکھنے کے لئے انہیں شمال مشرقی ریاستوں پر نظر رکھنی چاہئے تھی اور جم کر وہاں مہم بھی چلانی چاہئے تھی لیکن راہل نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔صرف میگھالیہ میں انہوں نے اپنی انتخابی مہم پر توجہ مرکوز کی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
راہل گاندھی اگر اپنے سیشن سے یہ خطاب کرتے ہیں کہ اُن کے کارکنان اور پارٹی کے بڑے لیڈروں نیز اعلیٰ لیڈر شپ کے درمیان ایک دیوار حائل ہے اور جب تک اُس دیوار کو وہ نہیں ڈھائیں گے اُس وقت تک کانگریس اچھی پوزیشن میں نہیں آئے گی ،تو اُنہیں ہمنتا وشوا شرما (آسام کے موجودہ وزیر اور بی جے پی شمال مشرقی ریاستوں کے پربھاری)کے ساتھ ہوئے سلوک کو یاد کر لینا چاہئے اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ ایک اچھا لیڈر شرما کی صورت میں کانگریس نے ضرور کھو دیا ہے۔شرما نے ایک بڑی مدت کانگریس میں گزاری تھی،اُن کی بات یا فریاد کو سننا ہی چاہئے تھا۔۲۰۱۵ء ہی میں بی جے پی میں اُنہیں جانا پڑا تھا۔اب ایسا شرما بنانے میں کانگریس کو برسوں لگیں گے۔اسی طرح اروناچل پردیش میں اسمبلی الیکشن ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کے ساتھ ہی ہوئے تھے لیکن اروناچل نے مودی لہر کو ٹھینگا دکھا دیا تھا اور کانگریس اکثریت کے ساتھ بلکہ دوتہائی سے بھی زیادہ چُن کر آئی تھی لیکن بی جے پی نے تمام ۴۲؍ کانگریسی ایم ایل ایز کو راتوں رات اپنے پالے میں ملا(کر) لیا اور اب وہاں کے موجودہ وزیر اعلیٰ پیما کھنڈو بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کہلاتے ہیں۔آج کے حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ اروناچل میں پھر سے کانگریس آسکے جہاں۲۰۱۹ء کے ساتھ ہی انتخابات ہونے ہیں؟ کانگریس کو پھر سے پورے شمال مشرق میںکھڑا ہونے میں پچیسوں برس لگ جائیں گے اور جب تک ملک کا نقشہ کیا سے کیا ہوجائے گا!اس لئے ضروری تھا کہ بر وقت کارروائی کرکے اِن دل بدل کو روکا جاتا جو کانگریس ہائی کمان نے نہیں کیا۔
اسی طرح آندھرا پردیش کے دوحصے کر دینے کے بعدکانگریس کو کیا ملا؟ کچھ بھی تو نہیں۔پہلے حصے تلنگانہ میں چندرشیکھر راؤ کی پارٹی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی حکومت کر رہی ہے تو دوسرے حصے آندھرا پردیش میں چندرا بابو نایڈو کی پارٹی تیلگو دیشم پارٹی کی حکومت ہے۔حالانکہ اصول اور خوشی سے دونوں ریاستوں میں کانگریس کو حکومت کرنی چاہئے تھی کیونکہ کانگریس نے یہ نیک کام انجام دیا تھا۔یاد کریں کہ یوپی اور مدھیہ پردیش کے جب بی جے پی نے حصے کئے تھے تو الگ ہوئے حصے پر پہلی پہلی بار بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی تھی۔اس رو سے دیکھیں تو کم از کم تلنگانہ پر تو کانگریس کی حکومت ہونی ہی چاہئے تھی لیکن کانگریس کوئی سبق لینا نہیں جانتی۔ایک زمانہ تھا کہ وائی ایس آر کی آندھرا میں طوطی بولتا تھا اور آنجہانی نے کانگریس کو نئی بلندیوں پر پہنچایا تھا اور مسلسل دو میعاد تک چُن کر آئے تھے۔اُن کی حادثاتی موت کے بعد اُن کے بیٹے نے وزیر اعلیٰ کی ذر ا سی دعویداری پیش کر دی تھی تو کانگریس ہائی کمان چراغ پا ہو گیا اور بیٹے جگموہن ریڈی کو دھول چٹا دی۔اُس کو کورٹ کچہری اور اِی ڈی نیز سی بی آئی کے اتنے چکر لگوائے کہ بیچارا ابھی تک اُبھر نہیں پایا ہے۔کانگریس اگر اپنے لوگوں کے ساتھ ہی ایسا سلوک روا رکھے گی تو پھر مقامی لیڈر شپ کیسے اُبھرے گی؟کانگریس کا یہ کلچر رہا ہے کہ اپنے مضبوط مقامی لیڈروں کے پروں کو وہ کاٹ دیتی ہے تاکہ وہ سر نہیں اُبھار سکیں اور مرکزی لیڈر شپ یعنی ہائی کمان کے لئے کوئی چیلنج نہ بن جائیں۔کیا یہی کام بی جے پی کرتی ہے ؟ بالکل نہیں۔اِس پر راہل گاندھی کو غور کرنے کی ضرورت ہے اور پارٹی کس طرح مضبوط ہو اور انتخابات جیت سکے یہ زیادہ ضروری ہے۔پارٹی کی جیت ہی اُس کی ٹی آر پی ہے اور ہار نے والے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا،یہ بات بھی راہل گاندھی کو ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ہو سکے تو جگموہن ریڈی،شرد پوار،ممتا بنرجی جیسے لوگوں کو تھوڑا نچلا ہوکر کانگریس میں پھر سے لانے کی راہل گاندھی کوشش کریں یا کم سے کم اُن سے دوستانہ مقابلے کی داغ بیل ڈالیں تو ایک بار پھر سے کانگریس کا سنہرا دور آسکتا ہے۔ کوشش کر لینے میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔کر کے تو دیکھیں! ٭
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883