شیخ ولی محمد
اگر نظام تعلیم پر غور کیا جائے تو اس کے کئی ستون ہیں جن پر اس پورے نظام کی عمارت کھڑی ہے۔ جن میں (ا) استاد (۲) طالب علم (۳) والدین (۴) انتظامیہ اور (۵) نصاب شامل ہیں ۔ لیکن اس بندوبست میں اُستاد کی اہمیت بنیادی ہے ۔ اگر اس ستون کو گرایا جائے تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی اور اگر کسی اور ستون کو کم کیا جائے یا نکالا جائے تو عمارت قائم رہ سکتی ہے۔ استاد اچھا ہو تو وہ برے نصاب کو بھی اس طرح پڑھا سکتا ہے کہ اس سے تعلیم کا بلند معیار بر آمد ہو۔ اور اگر استاد اچھا نہ ہو تووہ اعلیٰ درجے کے نصاب کو بھی معمولی بنا سکتا ہے ۔ اگر تعلیمی ادارے میں فلک بوس اور جدید ترین اسکولی عمارت بھی نہ ہو تو ایک اچھا استاد کُھلے میں بھی بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرسکتا ہے ۔ اس طرح استاد تعلیمی نظام کا مرکز ہے اور اس میں استاد کو کلیدی رول ادا کرنا ہے ۔ اس رول کو احسن سے طریقے سے ادا کرنے کے لیے استاد کے لئے دو اہم خوبیوں Qualitiesکا ہونا نہایت ہی ضروری ہے یہ دو نوں خوبیاں لازم و ملزم ہیں ۔
قرآن پاک کسی پیشے سے متعلق اس کے اختیار کرنے والے کے لئے جن اوصاف کو لازمی قراردیتاہے۔ ان میںپیشہ کی مہارت اور امانت داری کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ اس کا تذکرہ قرآن پاک کی سورۃالقصص میں عظیم المرتبہ پیغمبر حضرت موسیٰ ؑکے واقعہ میں کیاگیا ہے۔چنانچہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کو قتل کرنے کے لیے اپنے سپاہی روانہ کیے تو حضرت موسیٰ نے ؑ مصر سے نکل کر مدین کی طرف رُخ کیا ۔ مصر سے نکل کھڑے ہوئے مگر راستہ بھی کہیں نہ جانتے تھے مگر اپنے رب پر بھروسہ تھا۔ جب شہرمدین کے قریب پہنچے تو شہر سے باہر ایک کنویں پر لوگوں کا اجتماع دیکھا جو اس پر اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے اور دیکھا کہ دو لڑکیاں بکریوں کو سمیٹے ہوئے کھڑی ہیں ۔ موسیٰؑ نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تم الگ کیوں کھڑی ہو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے والد ( حضرت شعیب ؑ ) بوڑھے ہیں لہذا ہم اپنی بکریاں لے کر یہاں آئی ہیں لیکن ہم سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ان سب لوگوں سے مزاحمت اور مقابلہ کریں ۔ اس لیے ہم اس انتظار میں ہیں کہ جب یہ سب لوگ فارغ ہوجائیںتو جو کچھ بچا پانی مل جائے گا اس سے ہم اپنا کام نکالیں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی شرافت دیکھ کر خود ان کے لیے کنویں سے پانی نکالنا شروع کر دیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے قوت و طاقت بخشی تھی ، بہت جلدی ان کی بکریوں کو سیراب کردیا۔ یہ لڑکیاں اپنی بکریاں لے کر اپنے گھر گئیں اور موسیٰ ؑ ایک درخت کے سایہ میں چلے گئے اور اﷲ تعالیٰ سے دعاء کی ۔ یہ لڑکیاں جب معمول کے وقت سے پہلے بکریوں کو سیراب کرکے گھر پہنچیں تو ان کے بوڑھے والد کوتعجب ہوا اور فرمایا : آج تو کوئی نئی بات ہے۔ لڑکیوں نے موسیٰ ؑ کے پانی کھینچنے اور پلانے کا قصہ والد کو سنایا ۔ والد نے ان میں سے ایک کو حکم دیا کہ جس شخص نے یہ احسان کیا ہے اس کو یہاں بُلالاؤ ۔ وہ بُلالائی ۔ والد نے موسیٰ ؑسے ان کے حالات دریافت کیے اور فرمایا اب آپ خوف و ہراس اپنے دل سے نکال دیجئے، آپ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاچکے ہیں ۔ ہم نہ فرعون کی سلطنت میں ہیں نہ اس کا ہم پر کچھ حکم چل سکتا ہے۔ ان دو لڑکیوں میں سے ایک نے اپنے والد سے کہا :
ترجمہ : ’’ ابا جان ! ان کو آپ ملازم رکھ لیجئے کیوں کہ ملازمت کے لیے بہترین آدمی وہ ہے جو قوی بھی ہو اور امانت دار بھی ‘‘۔( سورہ القصص ـ : ۲۶ )
والد کو اپنی لڑکی سے یہ بات سُن کر غیرت سی آئی کہ میری لڑکی کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ قوی بھی ہے اور امین بھی ۔ اس لیے اسے سوال کیا کہ تمہیں ان کی قوت کا اندازہ کیسے ہوا اور ان کی امانت داری کس بات سے معلوم کی ْ؟ لڑکی نے عرض کیا کہ ان کی قوت کا مشاہدہ تو ان کے کنویں سے پانی کھینچنے کے وقت ہوا کہ سب چرواہوں سے پہلے انہوں نے اپنا کام کر لیا اور دوسرا کوئی ان کے برابر نہیں آسکا اور امانت کا حال اس طرح معلوم ہوا کہ جب میںان کو بلانے کے لیے گئی اور اول نظر میں جب انہوں نے دیکھاکہ میں ایک عورت ہوں تو فوراً اپنا سر نیچا کر لیا اور اس وقت تک سر نہیں اُٹھایا جب تک کہ میں نے ان کو آپ کا پیغام نہیں پہنچایا ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے پیچھے چلو مگر مجھے اپنے گھر کا راستہ پیچھے سے بتلاتی رہو اور یہ بات صرف وہی مرد کرسکتا ہے جو امانت دار ہو ۔ والدکو لڑکی کی اس دانش مندانہ بات سے مسرت ہوئی اور اس کی تصدیق فرمائی اور خود بھی ان کے بارے میں قوت و امانت کا یقین ہوگیا ۔ حضرت موسیٰؑ کی اس امانت داری سے متاثر ہوکر لڑکیوں کے والد نے ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا ۔
مفسر قرآن مولانا مفتی محمد شفع صاحب اس قرآنی واقعہ سے حکمت اور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ لڑکی نے اپنے والد کو یہ مشورہ دیا کہ ان کو ملازم رکھ لیا جائے۔ اس مشورہ کی دلیل یہ بیان فرمائی کہ بہترین اجیر ( ملازم ) وہ شخص ہوسکتا ہے جو قوی بھی ہوں اور امین بھی ۔ قوی سے مراد اس کام کی قوت و صلاحیت والا ہونا ہے جو کام اس کے سپرد کرنا ہے اور امین سے مراد یہ ہے کہ اس کی سابقہ زندگی کے حالات اس کی امانت ودیانت پر شاہد ہوں ۔ آج کل مختلف ملازمتوں اور سرکاری و غیر سرکاری عہدوں کے لیے انتخاب کا جو اصول رکھا جاتا ہے اور درخواست گزار میں جن اوصاف کو دیکھا جاتا ہے اگر غور کریں تو سب کے سب ان دو لفظوں میں جمع ہیں بلکہ ان کے تفصیلی شرائط میں بھی یہ جامعیت عموماً نہیں ہوتی کیوں کہ امانت و دیانت تو کہیں زیر غور ہی نہیں آتی۔صرف علمی قابلیت کی ڈگریاں معیار ہوتی ہیں اور آجکل جہاں کہیں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے نظام میں ابتری پائی جاتی ہے بیشتر اسی اصول دیانت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ قابل اور عاقل آدمی جب امانت و دیانت سے کورا ہوتا ہے تو پھر وہ کام چوری اور رشوت خوری کے بھی ایسے ایسے راستے نکال لیتا ہے کہ کسی قانون کی گرفت میں نہ آسکے ۔ اسی نے آج دنیا کے بیشتر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو بے کار بلکہ مضر بنا رکھا ہے ۔ اسلامی نظام میں اسی لئے اس کو بڑی اہمیت دی گئی ہے جس کے برکات دنیا نے صدیوں تک دیکھے ہیں ۔ کاش لوگ اس قرآنی ہدایت کی قدر کریں تو سارا نظام درست ہوجائے‘‘۔ ( معارف القرآن : جلد ششم )
اس الہامی ہدایت سے یہ بالکل واضح ہے کہ استاد کے لئے پیشہ ورانہ مہارت اور امانت داری لازم و ملزوم ہیں ۔ اُساتذہ اپنے عظیم پیشے کو انجام دینے کے لیے اپنی تعلیمی ، فنی اور پیشہ ورانہ صلاحتیوں کے فروغ کو ممکن بنائیں ۔ ایک بہتراور کامیاب استاد بننے کے لیے ضروری ہے کہ استاد اپنی خوبیوں اور کمزوریوں سے واقف ہو۔ اساتذہ جب اپنی کمزوریوں سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان میں نئے تعلیمی و تدریسی رجحانات سیکھنے کا جذبہ سراٹھانے لگتا ہے ۔ استاد اپنی تدریسی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے لیے دیگر اساتذہ سے مشاورت کریں ۔ اپنی ناکامیوں اور تدریسی مشکلات کو دیگر اساتذہ کے علم میں لاتے ہوئے اُن سے مسائل کے حل طلب کریں ۔ تنقید کو تعمیر سے تعبیر کریں ۔ نکتہ چینی اور تنقیدوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں ۔ تدریسی سرگرمیوں میں بہتری کے لیے حکمت عملیاں وضع کریں ۔ نئے تعلیمی رجحانات و نظریات سے آپ کو متصف کریں ۔ جدید اختراعی ، تخلیقی نظریات ، تجربات اور طریقوں کو اپنی تدریس کا حصہ بنائیں ۔ ساتھی اساتذہ سے بہتر میل ملاپ قائم رکھیں ۔ اساتذہ کا باہمی میل جول تجربات اور مشاہدات کے اشتراک کا ایک کامیاب وسیلہ ہوتا ہے ۔ باہمی تعاون کی وجہ سے نظریات رجحانات اور ٹیکنیک کا تبادلہ عمل میں آتا ہے ۔ اساتذہ اپنی تعلیمی فنی اور پیشہ ورانہ صلاحتیوں کو پروان چڑھانے والے ہر پروگرام میں خوش دلی ، جوش و ولولے سے حصہ لیں ۔ تعلیمی سیمنارس ، ورکشاپس ، تربیتی ورکشاپس اور ادبی ، سائنسی پروگرامس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں ۔جدید نظریات کو اپنے کمرہ جماعت میں نافذ کرنے کے لیے اگر ان میں تبدیلیوں کو جگہ دینی پڑے تو ضرور کلاس روم کے مطابق اپنے طریقہ تدریس اور ٹکنیک میں تبدیلی کو جگہ دیں۔ قدیم تکنیک کو جدید تکنیک سے بدل دیں ۔ اساتذۃ کی تربیت سازی کا کام انجام دینے والے افراد سے رابطے میں رہیں ۔ ان کے تجربات اور مشاہدات سے اپنی صلاحیتوں کو پروان پڑھائیں ۔ تعلیمی رسائل ، جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کریں ۔ تعلیمی رسائل جرائد اور اخبارات کے ذریعے جدید تعلیمی نظریات ، رجحانات ، تجربات اور ٹکنیک تک رسائی آسان ہوجاتی ہے ۔ سوشل میڈیا کے استعمال اور نٹر نیٹ کا استعمال بھی اساتذہ کے پیشہ ورانہ صلاحتوں کے فروغ میں بے حد معاون ہوتا ہے ۔ انٹر نیٹ کے ذریعے اساتذہ نہ صرف اپنی نصابی معلومات میں اضافے کویقینی بناسکتے ہیں بلکہ درس و تدریس کے جدید طریق ہائے تدریس سے بھی اپنے آپ کو مزین کرسکتے ہیں ۔
پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب استاد کے لئے امانت و دیانتداری کی صفت نہایت ہی ضروری ہے ۔ یہی صفت اسے اپنے پیشہ کے ساتھ انصاف کرکے پر مجبور تی ہے ۔ وہ بچوں کو ایک امانت تصور کرتے ہوئے انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کر نے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔ اپنی ڈیوٹی کا پابند ہوتاہے ۔ اسکول میں چاہئے امیر کا بچہ ہویا غریب کا ، جسمانی یا ذہنی طور کمزور ہو ہر ایک کے ساتھ مساویانہ اورہمدردانہ سلوک کر تا ہے ۔ اس کے برعکس اگر قابل استاد پیشہ ورانہ تربیت سے بھی لیس ہو لیکن امانت داری کی خوبی سے محروم ہو تو وہ احسن طریقے سے اپنے پیشہ کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے گا ۔ وہ بچوں کو پڑھانے کے لئے اسکول کے بجائے پرائیو ٹ ٹیوشن سینٹر کو ہی ترجیح دئے گا۔ امتحانات میں بچوں کی کامیابی کے لئے غیر اخلاقی اور غیر قانونی راستے تلاش کرنے میں اس کے نزدیک کوئی قباحت نہیں ۔ کام چوری لئے مختلف حیلے بہانے تلاش کرنا اس کا معمول ہوتا ہے ۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے اساتذہ کرام کو ان دونوں مطلوبہ صفات سے نوازیں کیونکہ ان کا کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے ۔ برسوں کی عرق ریزی کے بعد بے ہنگم پتھروں کو تراش کر وہ ہیروں میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے