ڈاکٹر منظور احمد آفاقیؔ
دنیا میں ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا حق اور آزادی حاصل ہے اور ہر انسان کو پسند اور ناپسند کا شعور الگ ہے۔لیکن اگر پیشے کے اعتبار سے دیکھا جائے توسب پیشوں میں سب سے معتبر پیشہ استاد کا تصورکیا جاتا ہے۔استاد سچی معنوں میں ایک قوم کا معمارِ اول کا کردارادا کرتا ہے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مجھے دنیا میں ایک معلم کی حیثیت سے مبعوث فرمایا گیا ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار استاد کی عظمتِ رفتہ میں مخفی ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو ہر کسی کو بہ آسانی حاصل نہیں ہو سکتا ہے،بلکہ اس کے لئے محنت شاقہ کی ضرورت ہوتی ہے۔خیرجو بھی ہے ٹھیک ہے ،لیکن امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ تغیر وتبدل کا ہونا لازمی ہے لیکن آج کل استاد کی عظمت کا فقدان قریہ قریہ شہر شہر مل جاتاہے اور شاید وباید اسی لیے آج دنیا کے مختلف اقواموںکے اندر بے راہ روی اور مایوسی نظر آرہی ہے۔
ہر انسان کے اندر احساسات،فکریات اور جذبات کی بھرمار پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن اس کی بیداری کے لئے کچھ محرکات کا ہونا بھی ضروری ہے جو عام طور پر داخلی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان خیالات وجذبات کو بروئے کار لانے میں بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لیکن جب دل میںان جذبات واحساسات کا غبار حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو اس کو ہلکا کرنے کے لئے زبان سے بے ساختہ ایسے الفاظ اور کلمات ادا ہو جاتے ہیںجو ایک بیکراں سمندر کے مانندہوتے ہوئے اپنے دامن میں اتھاہ گہرائی رکھتے ہیں۔انسان کے رجحان کو وقت اور سماج کے تقاضوں نے کافی بدل دیاہے اور جب دل رازہا کا مجمع بن جاتا ہے، نگاہیں سوز اشک سے بے محابا جلسنے لگتے ہیںتو ایسی الجھنوں میںکوئی انسان راحت پا نہیں سکتا۔کیوں کہ غمزدہ انسان ماتم کرکے ہی فرحت اور مسرت پاتے ہیں ۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ شکستہ دل انسانوں کو غمخواری حاصل ہونے سے خوشی ملتی ہے۔فی الوقت میں یہاں اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کہ اسرارِ قلب کو دوسروں کے سامنے اجاگرکیا جاسکے تاکہ معاشرے میں پھیلی بدحالی کو کسی حد تک صحیح سمت دی جا سکیں۔
زمانے کی ستم ظریفی کہیں یا شومی قسمت ،ہر سال مرکز کے زیرِ انتظام جموں وکشمیر میں ہائر ایجوکیشن کی طرف سے کالجوں کی درس وتدریس کو جاری وساری رکھنے کے لئے کنٹریکچول لکچرروں کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے۔ٹھیک اسی طرح پچھلے سال بھی جب اس تقرری کو عمل میں لایا گیاہے تو اسمبلی انتخابات کے وجہ سے اس ان اساتذہ کی تقرری کرنے میں صاحب ِ اقتدار کو تھوڑی سی تاخیر ضرور ہوئی ہے ۔لیکن جیسے تیسے جب اکتوبر کے مہینے میں تقرری عمل میں لائی گئی ہے۔تب سے لے کر سرمائی تعطیلات تک انہوں نے اپنا کام بخوبی سرانجام دیا ہے لیکن آج تک انہیں اگر کسی چیز سے محروم رکھا گیا ہے تو وہ ان کی ماہانہ اُجرت ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسے حالات میں ان کی گزر بسر کیسے ہو پا رہی ہے اس بارے میں تھوڑی سی غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوںکیا جاتا ہے۔حالانکہ انہوں نے سردی کے موسم میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر گھروں سے نکل کر امتحانی مراکز میں اپنی تعیناتی مستقل بنانے میں کوئی کمی باقی نہیں رکھی۔لیکن حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ جو رویہ اختیارکیا گیا ہے وہ کافی افسوس ناک ہے ،جس کو بیان کرنے میں آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔
آج پوری دنیا کو نامساعد حالات اور ناگہانی آفتوں نے اپنے شکنجے میں لپیٹ لیا ہے جہاں ہر طرف انسانی جان کوخطرے کی گھنٹی منڈلا رہی ہے۔ انسان اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے زمین وآسمان کے قلابے ملا رہا ہے لیکن پھر بھی دو وقت کی روٹی مشکل سے مہیا ہوپاتی ہے۔ایسے حالات میں اوقاتِ زندگی بسر کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔بہرحال ان سنگین حالات کے پیش نظر بھی کالج کنٹریکچول لکچرر بغیر تنخواہ اپنی زندگی جی رہے ہیں اور ایسے حالات میں فاقہ کشی کی زندگی گزارنے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔کیا ان حالات میں حکومت اور اعلی عہدوں پر فائز افسران کی طرف سے کوئی مستحکم لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے یا نہیں؟جہاں تک ذرائع کا تعلق ہے آج تک حکومت اور اعلیٰ حکام کی طرف سے اس بارے میں کوئی سعی نہیں کی گئی ہے بلکہ حکومت کی طرف سے مسلسل بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے ان اساتذہ صاحبان کے علاوہ ان کے دیگر اہلِ خانہ کوسنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بلکہ انہیں دوسرے لوگوں کا مقروض بھی ہونا پڑ رہا ہے۔
بہرکیف زمانے میں تغیروتبدیلی آتی رہتی ہے لیکن جن لوگوں کو وقت ِمقررہ پر دوائی اور کھانے پینے کی چیزیں نہ ملنے سے جان چلی جائے گی ،اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف دہ بات کیا ہوسکتی ہے۔راقم الحروف کو ایک صاحب رفیق نے جب اپنی داستانِ زندگی بیان کرنی شروع کردی تو درد کا بوجھ اتنا بھاری تھا کہ آنکھیں ایک دم اشک بار ہوجاتی ہے۔ لیکن بندہ ٔناچیز اس درد آگین داستان کو قوت سمع فرما کر گوشہ نشینی کے لمحات بسر کرنے پر مجبور ہوا۔لیکن ایسے ستم زدہ لوگوں کے مشکل آسان کرناکسی اجرِ عظیم سے کم نہیں ہے۔ہائے کسی کا کیا قول ہے :’’دنیا میں لذتوں کا شمار نہیں لیکن کسی کی مشکل آسان کرنے میں جو لطف ہوتا ہے وہ کبھی عالمے دارد کہ درگفتن نمی آید۔‘‘ایسی کسمپرسی کے حالات میں کون کس کی حاجت روا کر سکتا ہے۔خیر اُنھیںکسی سے کوئی گلہ شکوہ تو نہیں ہے لیکن اظہارِ بیان کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہوتی ہے۔خیر جو ہوا سو بہتر ہو،ا اپنا تو یہ قول ہے کہ تقدیر سے گلہ ہے کسی سے گلہ نہیں۔آخر پر میں صاحب تدبیر سے ادباًالتماس کرتا ہوں کہ برائے کرم ان کنٹریکچول لکچرروں کی اذیت ناک حالت کو مد نظر رکھ کر تنخواہ کی فراہمی کے لئے سعی جمیل کریں۔تاکہ وہ اپنے اہل وعیال کے لئے دو وقت کی روٹی میسر کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔مجھے یقین واثق ہے کہ موجودہ حالات اور مہنگائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت بہت جلد اس مسلے کا کوئی مستقل حل نکال لے گی۔
رابطہ۔ 6005903959