تلخ و شیریں
عبدالماجد
چند دن قبل وادی کشمیر میں ہاہاکار مچ گیا ۔گلّی گلی نگر نگر الگ سماں تھا۔ہر خاص و عام اور سماجی میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر یہی موضوع بحث بنا ہوا تھا اور ہر ایک صحافی بن بیٹھا تھا۔موضوع بحث یہ تھا کہ نانوائی بھائیوں نے پانچ روپے کی روٹی دس روپیہ میں بیچنے کا فیصلہ کیا۔سماج میں اس فیصلے کے حوالے سے شدید غصہ پیدا ہوا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک دم سو فی صد کا اضافہ کیا جائے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو۔جب سماج کے ہر ایک فرد نے اس حوالے سے آواز اٹھائی تو نانوائی برادی کا موقف تھا کہ یہ یونین کا متفقہ فیصلہ ہے نہ کہ ان کا کوئی ذاتی فیصلہ۔بہرحال سماجی دباؤ کے تحت اس فیصلے کو تبدیل کیا گیا اور سو فی صد کے بجائے چالیس فی صد اضافہ کی نوید عوام کو سنائی گئی۔ ابھی بھی اس فیصلے کے حوالے سے ابہام بدستور جاری ہے کہ آیا سو فیصد یا چالیس فیصد اضافی رقم پر عمل کیا جائے گا۔اس معاملے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے جس کی طرف کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ توجہ نہیں دے رہا ہے کہ روٹی کی قیمت پر تو ہر ایک بات کر رہا ہے اور کرنی بھی چاہیے، اس کو مہنگے داموں بیچنا نانوائی بھائی حضرات اپنی منصبی ذمہ داری سمجھتے ہیں لیکن اس روٹی کی وزن،اس کی شکل و صورت ،غیر معیاری آٹے کا استعمال اور روٹی میں مضر صحت کمکلس کا بے دریغ استعمال کو لے کر سبھی سرکاری و غیر سرکاری ادارے ،صحافی حضرات بالکل خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور مجرمانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ خیر یہاں تو نانوائی بھائیوں کا پلڑا ہی بھاری رہے گا اور ان ہی کی بات عملائی جائے گی بھلے ہی وہ مضر صحت کمکلس کا بے دریغ استعمال کریں۔ یہ عنوان کا ایک رخ تھا۔اس کا دوسرا رخ کالجوں میں کام کر رہے اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ صاحبان ہیں ،جن کو ہم کالج کنٹریکچول لیکچریرس کے نام سے جانتے ہیں۔انہوں نے بھی کئی سالوں سے اپنی حالات زار حکام بالا کے سامنے پیش کیے مگر کسی نے ان کی داد رسی نہ کی اور نہ صحافیوں کی طرف سے کوئی موثر آواز سامنے آئی ۔ایک طرف وہ معمولی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ بھی وقت پر ادا نہیں کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے جب انہوں نے مختلف حکومتوں کے مختلف افسر صاحبان تک اپنی بات پہنچائی، بجائے داد رسی اور مداوا کے الٹا سرما اور گرما کے دنوں کی چھٹیوں کی تنخواہ کی کٹوتی کا حکم اجراء کیا گیا۔جس کے نتیجے میں ان بے بس اور بے کس اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان بندی کی گئی۔ ان نانوائی حضرات کا جو معاملہ سامنے آیا اور جس طرح انہوں نے اپنی بات منواکے ہی دم لیا تو محسوس ہوتا کہ اس سماج میں تعلیم یافتہ ہونا ایک ناقابل معافی جرم بن گیا ہے۔ اعلی تعلیم لوگوں کی اس سماج میں کوئی قدروقیمت نہیں۔ ان کی کوئی منزل نہیں۔تبھی ان کی جائز آواز کو سنا نہیں جارہا ہے۔ یہاں ہر طبقہ کو سنا جارہا ہے سوائے ان معمولی اجرتوں پر کام کر رہے اساتذہ صاحبان کو جو کالجوں میں قوم کا مستقبل سنوارنے میں مصروف عمل ہے۔ یہاں اگر ٹرانسپورٹ والوں کی بات کریں تو وہ بھی صرف چند دنوں میں اپنی بات کو منوا دیتے ہیں،نانوائی حضرات کی تو بات ہی نہیں۔ یہاں کے اسمبلی ممبران نے بھی پچھلے سیشن میں بیک وقت ایک ہی آواز میں اپنی تنخواہ دوگنی تقریباً دو لاکھ ماہنامہ کر کے اپنی لاچاری ختم کر کے ہمت کا ثبوت دے دیا۔ بات یہاں اگر کسی طبقہ کی نہیں سنی جا ر ہی ہے، وہ ہے مختلف کالجوں میں کام کر رہے اعلی تعلیم یافتہ کالج کنٹریکچول لیکچریرس کی جو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جن کو ماضی قریب میں سماج کے مختلف طبقوں نے پٹریوں پر جوس اور خشک میوہ بیچتے دیکھا مگر متعلقہ حکام اور با شعور عوام کے ماتھے پر بل تک نہیں آیا۔
[email protected]