’’کیا حکم ہے میرے آقا۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
’’فیروزی با با کے یاد کرتے ہی اس کے غلام تاجو دیو نے حاضر ہو کر ادب سے سر جھکاتے ہوئے کہا‘‘۔
’’تاجو ۔۔۔۔۔۔ میری طبعیت اُکتا گئی ہے اور سیر کرنے کو جی چاہتا ہے‘‘ ۔
’’جو حکم میرے آقا‘‘۔
’’تاجو ۔۔۔۔۔۔ آج مجھے کسی ایسی جگہ کی سیر کرادے جو میں نے کبھی دیکھی نہ ہو ‘‘۔
’’ضرور میرے آقا‘‘۔
تاجو دیو نے کہا اور فیروزی با با اس کی پیٹھ پر سوار ہوگیا اور وہ ہوا میں اُڑنے لگا ۔تاجو جنگلوں ،بیا بانوں ،سمندروںاور ویرانوں کے اوپر اُڑتا رہا اور فیروزی فرط نشاط و انبساط میںجھومتے ہوئے مزے لے لے کر نظارے کرتا رہا ۔اس دوران اُڑتے اُڑتے وہ ایک کالے پیڑوں کے جنگل کی فضائوں میں پہنچے، کالے پیڑوں کو دیکھ کر فیروزی نے حیران ہوکر تاجو سے پوچھا۔
’’تاجو ۔۔۔۔۔۔ یہ کونسی جگہ ہے ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’آقا ۔۔۔۔۔۔ اس جگہ کو کالا جنگل کہتے ہیں‘‘ ۔
’’نیچے جائو،یہاں تھوڑا وقت گزاریں گے‘‘ ۔
’’ جو حکم آقا‘‘ ۔
کہہ کر تاجو دیو نیچے اترا اور فیروزی اس وسیع وعریض کالے جنگل کا نظارے کرنے میں محو ہو گیا ۔کچھ دیر ادھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد وہ ایک جگہ بیٹھ کر سستانے لگا ،جس دوران اس کی نظر کچھ دوری پر واقع کالے رنگ کی ایک اونچی عمارت پر پڑی جہاں کالی رنگت کے عجیب قسم کے چھوٹے قد کے لوگ ادھر اُدھر گھوم رہے تھے ، اس نے چونک کر تاجو سے عمارت کے بارے میں پوچھا ۔
’’آقا ۔۔۔۔۔۔ اس اونچی قلعہ بند عمارت کو کالا قلعہ کہتے ہیں‘‘ ۔
’’کالا جنگل ۔۔۔۔۔۔ کالے پیڑ ۔۔۔۔۔۔ کالا قلعہ ۔۔۔۔۔۔۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے ؟فیروزی گہری سوچوں میں ڈوب گیا اور کچھ وقت بعد تاجو سے گویا ہوا‘‘۔
’’تاجو ۔۔۔۔۔۔ مجھے قلعے کے اندر لے جائو، میں اس قلعے اور وہاں موجود ان کالے لوگوں کا راز جاننا چاہتا ہوں‘‘ ۔
’’میرے آقا ۔۔۔۔۔۔ میں نے سنا ہے یہ لوگ بہت خطرناک ہیں اور وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے‘‘ ۔
’’تاجو۔۔۔ اگر ہم وہاں نہیں جا سکتے تو پھر تمہاری شکتی کس کام کی ؟‘‘
’’آقا ۔۔۔۔۔۔ آپ کا حکم ہے تومیں ضرور آپ کو وہاں لے کر جائوںگا لیکن ایک بات کا خیال رکھنا ہے کہ آپ تب تک با لکل زبان نہیں کھو لینگے جب تک نہ ہم وہاں سے واپس نکلیں ‘‘۔
’’مجھے منظور ہے‘‘ ۔
فیروزی نے کہا تو تاجو نے کوئی منتر پڑھ کر اسے اپنے کندھوں پر سوار کیا اور وہ قلعے کی طرف چل دیئے۔ قلعے کے صدر دروازے پردرجنوں انسانی کھوپڑیاں لٹکی دیکھ کرفیروزی سخت گھبرا گیا ۔درد کی ایک تیز ٹیس اس کے پورے وجود میں دوڈ گئی ،اس نے چیخنا چلانا چاہا لیکن تاجو کی بات پر عمل کرتے ہوئے خاموش رہا۔ وہاںایک کالے رنگ کا بڑا سائین بوڑد بھی نصب تھا جس پرایک طرف کالے چوہے اور دوسری طرف اُلو جیسے کسی جانور کی تصویر یں تھیں جب کہ کالے حروف سے کوئی عبارت بھی لکھی تھی جو فیروزی کے سمجھ میں نہیں آئی۔ تاجو اندر داخل ہو کر ایک کونے میں کھڑا رہ گیا جب کہ اس کے کندھوں پر سوار فیروزی کا وجود وہاں کا خوفناک منظر دیکھ کر دہل اٹھا۔وہاں بہت سی انسانی کھوپڑیوں کے علاوہ انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے اور کٹے ہوئے انسانی سر ہر طرف لٹکے ہوئے تھے ۔فیروزی نے چاہا کہ اپنا سر پیٹے لیکن زبان کھولنا خطرے کو دعوت دینے سے کم نہ تھا ۔کچھ دیر بعد اپنے آپ پر قابو پاکر غور سے وہاں ہورہی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے لگا ۔وہاں کافی گہما گہمی تھی ،بونے قد کے کالے لوگ،جن کی گردنیں بپھر ے ہوئے خنزیروں کی طرح تنی ہوئی تھی ، کالے برتنوں میںانسانی سر اور انسانی خون لے کر ایک بڑے ہال کے اندر داخل ہو رہے تھے ،جب کہ درجنوں لوگ خون میں ڈبوئی ہوئی کالی تلواریں لے کر پُھرتی سے ہر طرف گھوم رہے تھے ۔فیروزی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ کیوں کہ وہاں کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا بلکہ سب خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔۔۔۔
’’آج کے جشن میں سردار بہت خوش ہونگے ‘‘۔
’’اور نہیں تو کیا ۔۔۔ دھرتی پر ہمارے دشمن انسان کے خون کی ندیاں جو بہہ رہی ہیں‘‘ ۔
دفعتاً فیروزی کے سامنے سے ہاتھوں میں تلواریں لئے دو لوگ باتیں کرتے ہوئے گزرے اور اس کی سماعت سے یہ جملے ٹکرائے ۔ اب اس کا تجسس بڑھ گیا اور وہ توجہ سے آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا تاکہ کوئی کچھ اور بتائے لیکن کسی نے بھی کچھ نہیں کہا ۔کچھ دیر بعد ایک عجیب قسم کا سائیرن بج اٹھا جیسے بہت سے کُتے ایک ساتھ بھونک رہے ہوں،جس کے ساتھ ہی بجلی کے کالے قمقموں سے کالی لہریں پھونٹنے لگیں، جن سے قلعے میں اندھیرا چھا گیا اور ہر طرف یہ آواز گونجنے لگی ۔
’’کالے دنیا کے کالے بادشاہ پدھار رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سب لوگ ہال کے اندر داخل ہو جائیں ‘‘۔
جب سارے لوگ اندر داخل ہو گئے تو تاجو بھی پُھرتی سے چل کر اندر داخل ہو گیا اور سب کے پیچھے بیٹھ گیا ۔چند منٹ تک ہال میں موت جیسی خاموشی چھائی رہی جس کے بعد اونچی آواز میں ایک مختصر ترانہ بجا اور وہاں موجود سارے لوگوں نے کھڑے ہو کر سر جھکا لئے اور بڑے اعزاز کے ساتھ لمبے قد والاکالا سردار،جس کی کالی آنکھوں سے سفاکی ٹپک رہی تھی، سر پر کالا تاج سجائے اصیل مرغ کی طرح چھاتی پُھلائے ہال میں داخل ہو گیا ۔وہاں موجود لوگوں نے تالیاں بجا بجا کر اور شی شی کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا ۔اس کے نشت پر براجمان ہوتے ہی سامنے رکھی کالی طشتریوں سے پردے اٹھائے گئے جن میں انسانی کھوپڑیاں اور کٹے ہوئے سر تھے ۔کالے سردار نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور وہاں موجود برہنہ مرد و خواتین رقص کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔
’’سردار خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
دفعتاً اس نے کھڑے ہو کر ا نتہائی متکبرانہ لہجے میں کہا جس کے ساتھ ہی ایک بار پھر ہال زور دار تالیوں سے گونج اٹھا اوراس کے انگ انگ میں پھلجھڑیاں پھوٹنے لگیں۔جس کے بعد اس نے پر فریب انداز میں اپنا بھاشن شروع کیا اور سارے لوگ ہمہ تن و گوش سننے لگے ۔
’’مجھے خوشی ہے کہ ہمارا مشن اطمینان بخش طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن منزل ابھی بہت دور ہے اس لئے ہمارے سارے چاہنے والے اپنی اپنی کمر کس لیں اور اس کالے بادشاہ کا کالا مشن انتہائی چال بازی اور چابک دستی سے دنیا کے کونے کونے میں پھیلا کر اپنے دشمنوں کو تباہ و برباد کرکے رکھدیں‘‘۔
کہتے ہوئے اس نے طشتری سے ایک انسانی سراٹھا کر ہوا میں اچھالا اور ایک زور دار قہقہہ لگا کر انتہائی طنزیہ انداز میں اپنا بھاشن جاری رکھا ۔۔۔۔۔۔ بھاشن کا لب لباب یہی تھا کہ اولاد آدم کو بلا لحاظ مذہب ،رنگ ،نسل ،عمر ،جنس اس طرح اپنی مقروہ سازشوں کا شکار بنائو تاکہ ہر طرف تباہیاں پھیل جائیں ۔غرور تکبر اور انا کی حشیش ان کی رگ رگ میں اس طرح بھردو کہ ان میں غلط اور صحیح کی تمیز کرنے کی صلاحیت نہ رہے۔ بے ایمانیوں، خون ریزیوں ،لڑائیوں ، جنگوں،کالے جادو ،فحاشی، نشیلی ادویات کے چلن ،جھوٹ اورفریب کو عام کردو۔ عہد شکنوں ،حق تلفیوں ۔۔۔۔۔اور دیگر بھیانک جرائیم کو ساری دھرتی پر پھیلاکران کے نعرئہ انسانیت اور محبت کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔ان کے سینوں میںحرص اور ہوس کی بھٹیوں کو ایسے سلگادو تاکہ یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں۔اس طرح اس صدیوں پرانے دشمن سے ہمارا بدلہ پورا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
کالے بادشاہ کی نشتر نما باتیں فیروزی کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ بن کر اتر رہی تھیں۔اس نے یہ اخذ کر لیا کہ یہ کالے دیوئوں کا قلعہ ہے لیکن یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ انسانیت کے یہ دشمن انسان سے کس رنجش کا بدلہ لینا چاہتے ہیں؟ اس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ معاملے کے بارے میں تاجو سے جان کاری حاصل کرے گا ۔بھاشن کے دوران اچانک قلعہ ہلنے لگا تو خوف وڈر کے مارے فیروزی کے پسینے چھوٹنے لگے ،خوف وہراس نے اسے بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ حفظ ما تقدم کے طور دل ہی دل میںاوپر والے کو یاد کرتے ہوئے رحم وکرم کی دعائیں کرنے لگا لیکن ہر لمحے کے ساتھ قلعے کی تھر تھراہٹ تیز ہونے لگی ۔
’’قلعے میں ہمارے دشمن داخل ہوئے ہیں ،میں اپنی خاص کالی شکتی سے انہیں بے نقاب کرونگا ،تم لوگ جلدی سے انہیں پکڑو اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے میرے سامنے لائو‘‘ ۔
وہ اپنا بھاشن روک کر بے بسی کے انداز میں چلانے لگا،اس کے کالے چہرے پر ہل چل مچ گئی اور غیض وغضب سے کالی آنکھیں لال ہو گئیں،پورے قلعے میں اتھل پتھل مچ گئی جس کے ساتھ ہی تاجو تیزی سے بھاگنے لگا اور قلعے سے باہر نکل کر پُھرتی سے اڑان بھری ۔۔۔۔۔
’’ میرے آقا ۔۔۔۔۔۔ اب ہم محفوظ ہیں‘‘ ۔
کچھ دیر بعد تاجو نے کہا ۔
’’تاجو ۔۔۔ کسی محفوظ جگہ زمین پر اترو ،مجھے سخت پیاس لگی ہے‘‘ ۔
فیروزی ،جسے لگ رہا تھا جیسے موت اسے چھو کر گزری ہو ،نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا اور کچھ منٹوں بعد وہ ایک بستی کے نزدیک ایک خوبصورت باغ میں اُتر گئے ۔تاجو نے پاس ہی موجود بازار سے پانی اور کھانے کی کچھ چیزیں لا کر فیروزی کے سامنے رکھدیں ۔ فیروزی پانی کے چند گھونٹ حلق سے نیچے اتار کر گویا ہوا۔
’’تاجو ۔۔۔۔۔۔ آج ہم بال بال بچ گئے ‘‘۔
’’آقا ۔۔۔۔۔ میں اپنے بچائو کے لئے مکمل تد بیر کر چکا تھا‘‘ ۔
’’ زلزلے میں تدبیریں کام نہیں آتی ہیں‘‘ ۔
’’آقا ۔۔۔۔۔۔وہ زلزلہ نہیں تھا‘‘ ۔
تو پھر کیا تھا ۔۔۔۔۔۔؟
’’جب وہ مردود انسانیت کو تباہ کرنے کی باتیں کر رہا تھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا ، میں دل ہی دل میں اللہ کی بڑائی بیان کر نے لگاجسے اس کالے قلعے میں ہلکا سا زلزلہ پیدا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’اسی وقت تو میں نے بھی اوپر والے کو پکارنا شروع کیا‘‘۔
’’فیروزی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا‘‘ ۔
’’آقا ۔۔۔۔۔۔ اسی لئے تو قلعے کی تھر تھراہٹ میں اضافہ ہو گیا اور اس سے پہلے کہ وہ اپنی کالی شکتی کے استعال سے ہمیں دیکھ لیتے اور پکڑ کر ہماری بَلی چڑھا دیتے میں وہاں سے بھاگ نکلا ‘‘۔
’’لیکن اتنی دیر تک انہوں نے ہمیں پکڑا کیوں نہیں ؟‘‘
’’کیوں کہ میں نے ایک ایسا منتر پڑھا تھا جس کے اثر سے وہ ہمیں دیکھ نہیں پا رہے تھے‘‘ ۔
’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ شیطانی طاقت والے یہ کالے دیو اتنے بھیانک اور انسانیت کے ازلی دشمن ہیں ۔
’’ نہیں آقا ۔۔۔۔۔ یہ کالے دیو نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ تو پھر کون ہیں ؟اور اپنے آپ کو کالا بادشاہ کہنے والا کون تھا ؟اور یہ جشن۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ میرے آقا ۔۔۔۔۔۔وہ اس قلعہ کابادشاہ یعنی بڑا شیطان تھا اور وہاں موجود سب لوگ اس کے حواری ۔ قلعے کے صدر دروازے پر لگے سائین بورڈ کے مطابق وہ اپنے شیطانی مشن کی لگاتار کامیابیوں کی خوشی میں جشن منا رہے تھے‘‘ ۔
تاجو نے جواباً کہا ۔
٭٭٭
اجس بانڈی پورہ (193502 ) کشمیر
موبائل نمبر؛9906526432