اشرف اپنی فیملی کے ساتھ برف کا نظاہرہ کرنے کے لئے پہاڑیوں کے راستے اس خوبصورت وادی میں پہنچ گیا جس کو دیکھنے کے لئے پوری دنیا سے سیاح آیا کرتے ہیں ۔
اُس کے ساتھ بیوی اور تین چھوٹے بچے بھی تھے۔اس نے اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ وہاں تین چار گھنٹے خوب سیر کی اور جب بچوں کو سردی لگنے لگی تو بیوی نے اس سے کہا۔
"بچے بیمار ہو جائیں گے، اب گھر چلنا چاہیے ۔"
اشرف جب اپنے بچوں کو لے کر گاڑی میں سوار ہو گیا تو اچانک موسم نے اپنا رخ بدل لیا اور زوروں کی برف باری شروع ہو گئی ۔وہ بہت پریشان ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس تیز برف باری کی وجہ سے راستہ بند ہوجانے کا خطرہ ہے۔
وہ کار کو تقریبا ایک میل آگے نکال لایا لیکن اس کے بعدکار برف پر سلپ کرنے لگی،جس کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ رہی تھی ۔
اب تو اشرف اور اس کے اہل و عیال پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی۔اُس نے کار کسی صورت سڑک کے کنارے کھڑی کر دی اور بیوی بچوں کو لے کر قریب کے ایک ہوٹل میں گیا۔سردی کے مارے سب کی حالت خراب ہو رہی تھی۔
"بھائی صاحب، کیا کوئی کمرہ مل جائے گا؟" اشرف نے ہوٹل کے منیجر سے پوچھا۔"ہاں صاحب مل جائے گا ۔" منیجر کے لہجے میں تمکنت تھی۔
"ایک رات کا کیا ریٹ ہے؟"
"پندرہ ہزار روپے!" منیجر نے لاپروائی سے کہا۔
"ارے یہ آپ کیا بول رہے ہیں؟۔۔۔۔کچھ دن پہلے بھی میں اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں ٹھہرا تھا۔۔۔اس وقت تو ایک کمرے کا کرایہ صرف سات سو تھا۔"
"ارےصاحب،اگر کمرہ چاہیے تو بولئے ورنہ کسی اور جگہ جائیے۔۔۔۔ہم کو ڈسٹرب مت کریں ۔"منیجر نے بے رخی سے جواب دیا ۔اشرف نے مایوسانہ انداز میں جیب میں پڑی اپنی رقم کو دیکھا ،صرف دو ہزار روپے تھے۔ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اس نے اپنے بیوی بچوں کی طرف دیکھا۔
اس نے ہمت نہیں ہاری ۔باہر نکل کر دو تین ہوٹلوں میں گیا کہ وہاں کمرہ مل جائے لیکن مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا۔سبھی بہت بڑی رقم کا مطالبہ کر رہے تھے۔کوئی بھی ہزار پندرہ سو میں کمرہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ ایسے خطرناک موسم میں گھرے سیاحوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔جب سبھوں کو زیادہ سردی لگ گئی تو میاں بیوی نے مشورہ کیا کہ وہ رات کو اپنی ہی گاڑی میں بند ہو کر رہیں گے ۔پوری فیملی کار میں بیٹھ گئی۔ سارے دروازے بند کئے اور ہیٹر آن کر دیا،جس سے تھوڈا سکون ملا۔
لیکن باہر زوروں کی برف گر رہی تھی۔کار کے ارد گرد اتنی برف جمع ہو گئی کہ وہ نہ تو آگے جا سکتی تھی نہ ہی پیچھے۔
اشرف بہت دیر تک فون کر کے دوستوں، رشتہ داروں سے مدد مانگتا رہا لیکن کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔مایوس ہو کر اشرف اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رات بھر کار میں محبوس رہا۔
اور صبح جب برف باری تھم گئ تو آتے جاتے لوگوں نے دیکھا کہ کار کے اندر چار لاشیں موسم اور موقع پرستوں کا شکوہ کر رہی ہیں ۔
ان لاشوں کی تکفین و تدفین کے لیے قریب کے سبھی ہوٹل والے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے ۔یہ کار ثواب جو تھا۔
���
تلگام پٹن، موبائل نمبر9797711122