ڈاکٹر اسرار احمد ایک ایسی شخصیت ہے جو سوانح نگاروں کو بھی شہرت کے مقام پر لا کھڑا کرتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
آدمیت تیری تلاش رہی
دیکھے ہیں پردہ ہائے نام بہت
ڈاکٹر اسرار صاحب نے ابتدائی تعلیم گورئمنٹ کالج لاہور میں حاصل کی اور اسی کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا اور پھر جماعت اسلامی کے قافلے کا حصہ بنے مگر جماعت سے اختلاف کے باعث ا س سے الگ ہو گئے۔ جماعت اسلامی سے اپنا راستہ الگ کیا لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد سے دست برداری اختیار نہیں کی اور آخر وقت تک مصروف عمل رہے۔ مسلم نوجوانوں کو نفاذِ شریعت اسلامی کے لئے ان کی تڑپ تڑپ اور جہد مسلسل دیکھ کر حوصلہ ملتا ہے۔بقول زاہد راشدی ڈاکٹر صاحب کا موقف تھا کہ شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے برطانوی استعمار کے خلاف آزادیٔ وطن کی جدوجہد میں مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال کی قید و بند کے بعد واپسی پر اپنی جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیاتھا، وہی اس محنت کا صحیح راستہ ہے اور وہ خود کو شیخ الہند ؒ کی اس تحریک کا تسلسل قرار دیتے ہوئے آخر عمر تک اسی راستے پر گامزن رہے۔ وقت کے گونتا مالا بے کالا پانی( مالٹا) میں ساڑھے تین سال قید وبند گزارنے کے بعد شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ واپس ہندوستان پہنچے تو انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پُر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ وہ اب ہتھیار اٹھانے کی بجائے آزادیٔ وطن کے لیے سیاسی جدوجہد کریں اور پُرامن عوامی جدوجہد کے ذریعے آزادی کی منزل کی طرف پیش رفت کریں۔ اس موقع پر شیخ الہند ؒ نے، جو نہ صرف اس وقت دیوبندی فکر اور تحریک کے سب سے بڑے قائد تھے بلکہ اب بھی انہیں دیوبند ی مسلک کے تمام داخلی مکاتب فکر میں متفقہ قائد کی حیثیت حاصل ہے، آئندہ جدوجہدکے لیے تین نکات کا ایجنڈا پیش کیا:
مسلمان باہمی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے متحدہ کردار ادا کریں۔
قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمان کو قرآن کریم سے شعوری طور پر وابستہ کرنے کے لیے ہر سطح پر دروس قرآن کا اہتمام کیا جائے۔
مسلمان اپنے شرعی معاملات طے کرنے کے لیے امارت شرعیہ کا قیام عمل میں لائیں اور ایک باقاعدہ امیر منتخب کر کے اس کی اطاعت میں کام کریں۔
ڈاکٹر اسرا ر احمد کا موقف تھا کہ وہ شیخ الہند ؒ کے اسی تین نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں، اُن کے نزدیک شیخ الہند ؒ کے تلامذہ اور ان کے حلقے کے لوگ اس ایجنڈے پر قائم نہیں رہ سکے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے اس موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ وہ خود اسی ایجنڈے پر ہمہ تن خلوص و استقامت کا پیکر بنے بلا ناغہ کام کرتے رہے اور انہوں نے اس مقصد کے لیے ملک بھر میں احباب اور رفقا ء کاایک پورا حلقہ تیار کیا تھا جو’’ تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور اس وقت ڈاکٹر صاحب کے فرزند جناب حافظ محمد عاکف سعید کی امارت میں متحرک اور سرگرم عمل ہے۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمداُن خوش نصیب انسانوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے گویا اپنے دین کی خدمت کے لئے چن لیا تھا۔آ پ نے ساری عمر قرآن پاک پڑھنے اورپڑھانے میں صرف کر دی۔آ پ کے منہج تفسیر کی یہ خوبی ہے کہ اس میں اسلاف کی اصل ثابت سے بھی رشتہ قائم رہتا ہے اوردور جدید کے جملہ مسائل کا حل بھی قرآن پاک کی روشنی میں سامنے آتاہے۔یعنی آ پ تفسیر بالماثور اور تفسیر ٰی بالرائے(محمود)کی حدود میں دور جدید کے محاورے اور علمی اسلوب کو اعلی سطح پر استعمال فرماتے ہیں۔چنانچہ آ پ کے طرز تفسیر میں شیخ الہندکی جامعیت،ابوالکالم کی تحریکیت،،مولانا سید ابوالاعلیٰ مودود ی کے جدید فلسفیانہ افکار اور دور حاضر کی سائنس کے ساتھ ساتھ مولا حمیدالدین فراہی اور مولاناامین احسن اصلاحی کے نظم قرآن، علامہ اقبال ؒ کی ملّی شاعری ،ڈاکٹر رفیع الدین( رحہم اللہ ) کی ادبیت کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا شمار ہمارے دور کے ان نامور اہل فکر میں ہوتا ہے جنہوں نے اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل، ان کے اسباب و عوامل اور اصلاح احوال کی حکمت عملی پر پوری آزادی، گہرائی اور originlaity کے ساتھ غور وفکر کیا اور ان کے غور وفکر نے جن نتائج تک انہیں پہنچایا، انہوں نے قدیم و جدید ،روایتی و غیر روایتی طبقاتِ خیال کی پسند و ناپسند کا لحاظ کئے بغیر بلاخوف لومۃ لائم پوری جرأت کے ساتھ ان کا برملااظہار بھی کیا۔ ان کے نتائج ِفکر اور اجتہادات سے علمائے کرام یقیناً اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔
بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیات اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیل نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہل دانش کے ہاں غور وفکر اور بحث ومباحثہ کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔ اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی واخلاقی اقدار اور متعین احکام وقوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے، اس لیے مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلوؤں کے ساتھ ان مفکرین کے غور وفکر اور مطالعہ وتحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی ونظریاتی اساسات پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ اس نوع کے اہل فکر کی جدوجہد اور خدمات کو دُرست تناظر میں دیکھنے کے لیے یہ نکتہ سامنے رہنا چاہیے کہ یہ سب حضرات بنیادی طور پر اُمت مسلمہ کے زوال کو موضوع بناتے ہیں، جو مغرب کے تہذیبی اور سیاسی استیلا ء کے نتیجے میں عالم اسلام پر مسلط ہوا اور جس نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے انداز فکر، ترجیحات اور طرز زندگی کو ان خطوط سے بالکل مختلف خطوط پر استوار کر دیا ہے، جس کی تعلیم ان کے دین نے دی ہے۔ کسی اجنبی تہذیب کے سامنے فکر واعتقاد اور تہذیب ومعاشرت کی سطح پر سر تسلیم خم کر دینا چونکہ خود داخلی سطح پر ایمان واعتقاد کی کمزوری اور فکری وعملی ترجیحات کی کجی کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے ان تمام اہل فکر کی توجہ فطری طور پر خود اُمت مسلمہ کے فکر وعمل کی اصلاح کی طرف مبذول ہوئی۔ اگرچہ ان سب کی فکری کاوشوں میں مغربی فکر و تہذیب کا حوالہ مسلسل پایا جاتا ہے اور اس کی فکری و نظریاتی اساسات کے تجزیہ وتنقید پر بھی انہوں نے بھرپور فکری توانائیاں صرف کی ہیں، تاہم اس ساری گفتگو کا مخاطب اصلاً مغربی ذہن نہیں بلکہ مغربی انداز نظر کے اثرات کو قبول کرنے والے مسلمان ہی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا دُرست دکھائی دیتا ہے کہ ماضی ٔ قریب اور حال کی تمام احیائی تحریکیں، اُن کے نتائجِ فکر سے یقیناًاختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اپنی حریت فکر اور آزادانہ انداز نظر کے لحاظ سے وہ بلاشبہ اقبالؔ کے اس مصرعے کے مصداق تھے ع نہ ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند چنانچہ جہاں ڈاکٹر اسرار صاحب نے تہذیب مغرب کی فکری ونفسیاتی اساسات اور اس کے تباہ کن نتائج اور خاص طور پر مسلمان معاشروں میں اس تہذیب کے فکری وعملی اثرات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے طبقات کو اپنے ناقدانہ تجزیوں کا موضوع بنایا، وہاں خود ان طبقات کے انداز فکر کی تنقید میں بھی انہوں نے کوئی رعایت نہیں برتی جو مغرب زدہ طبقے کے بالمقابل اسلام اور اُمت مسلمہ کی سربلندی کا جذبہ اور مسلمانوں کے قومی مفاد سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ایک صاحب فکر خود جس حلقہ فکر سے تعلق رکھتا ہو اور بحیثیت مجموعی اس طبقے کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتا ہو، اس کے لیے خودتنقیدی کا یہ عمل بہت مشکل ہوتا ہے، چنانچہ سطحی سیاست کاروں کے برعکس جو عوامی جذبات واحساسات کو محض سیاسی کھیل تماشے کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں، خود احتسابی کی یہ ذمہ داری سنجیدہ، دیانت دار اور حقیقی طور پر اُمت کے خیر خواہ اہل دانش ہی انجام دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اس نوع کے اصحاب ِفکر کے سب سے بڑے کنٹری بیوشن کا تسلسل ان کے حلقہ ٔ فکر اور متوسلین کو ہر حال میں قائم رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ نیز ان کے انداز فکر کے اس حرکی پہلو کو نظر انداز کر کے اگر مخصوص نتائج فکر تک اپنے آپ کو محدود کر لیا جائے تو اسی سے وہ تقلیدی جمود وجود میں آتا ہے جس سے خود یہ اصحاب فکر زندگی بھر نبرد آزما رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے غلبہ ٔ دین کا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان احیائی تحریکوں کی عجلت پسندانہ حکمت عملی پر بھی تنقید کی ہے،لکھتے ہیں:ان تحریکوں کی ناکامی کا سبب بظاہر تو یہ ہے کہ انہوں نے بے صبری سے کام لیا اور اپنے اپنے ملکوں میں سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی معتد بہ تعداد کے ذہنوں کو بدلے بغیر سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا، جس کے نتیجے میں قومی قیادتوں اور’ ’ترقی پسند‘‘ عناصر سے قبل ازوقت تصادم کی نوبت آ گئی، لیکن درحقیقت ان کی ناکامی براہ راست نتیجہ ہے اُن کے تصورِ دین کی خامی اور مطالعہ اسلام کے نقص کا۔‘‘ (نشاۃ ثانیہ ص ۱۱ تا ۷۱)۔
بے شک ڈاکٹر اسرار صاحب کی ایمان افروز تحاریر ، تقاریر اور بیانات ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جو بڑا کارنامہ انجام دیا ہے وہ’’ بیان القرآن‘‘ ہے۔ ان کی دینی ، اصلاحی اور تزکیاتی خدمات کو ہم کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب موصوف کے درجات بلند فرمائے ، ان کے حسنات کو شرف ِ قبولیت سے نوازے اور تمام انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو دینی فہم ، عقل وادراک عطا فرماکر طوفان ِ مغربیت سے بچ کر اپنے پروردگار اور آقائے نامدار تاجدار مدینہ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول ہائے زندگی کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین۔
چھینک آنا ایک نعمت ہے
فرمانِ رسول
مرسلہ :محمداسلم بٹ
خانیار سری نگر
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو چھینک پسند اور جمائی ناپسند ہے۔۔۔ جب کوئی چھینکے اور الحمداللہ کہے تو جو مسلمان سنے اس کے ذمے حق ہے کہ وہ اس چھینکنے والے مسلمان کو یرحمک اللہ کہے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہے جب کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہوسکے جمائی کو دفع کرے کیونکہ جب انسان جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے یعنی خوش ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ کسل مندی اور غفلت کی دلیل ہے اور ایسی چیز کو شیطان پسند کرتاہے ۔۔۔(بخاری )
کہتے ہیں کہ ایک انگریز ڈاکٹر نے جب یہ حدیث پڑھی کہ مسلمانوں کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا جو مسلمان چھینکے وہ الحمداللہ کہے جو مسلمان پاس بیٹھا ہو وہ یرحمک اللہ کہے اور پھر چھینکنے والا جواب میں یھدیکم اللہ کہے تو اس نے سوچا کہ ایک معمولی سے کام پر اتنی دعائیں پڑھنا کیا وجہ ہے؟ تو اس نے تحقیق کی اور پتہ چلا کہ اتنی دعائیں پڑھنا فضول نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کیونکہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ دماغ کی رگوں میں ہوا رک جاتی ہے اور قدرت نے اس کو نکالنے کے لیے ایک پریشر کا انتظام کیا ہے۔اس طرح چھنک کے پریشر کے ذریعے ہوا ناک کے راستے خارج ہو جاتی ہے ۔ اگر یہ ہوا رُکی رہے تو فالج کا خطرہ پیدا ہو جاتاہے، اس لئے چھینکنے والے کے لیے الحمداللہ پڑھنا رب العزت کی اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہے ۔