نئی دلی //سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ چیک بائونس ہونے کے 35لاکھ کیس زیر التوا ہیں۔عدالت نے مرکزی سرکار کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان کیسوں کو مقررہ وقت پر ختم کرنے کیلئے اضافی عدالتیں قیام عمل میں لائیں۔چیف جسٹس ایس اے بوبدے کی سربراہی میں قائم کئے گئے پانچ ججوں کی بینچ نے کہا ہے کہ مرکزی سرکار کو آرٹیکل 247کے تحت حق حاصل ہے کہ چیکوں کی بے عزتی کرنے کے معاملات کو حل کرنے کیلئے این آئی ایکٹ (negotable act) کے تحت اضافی عدالتیں قائم کریں۔ پانچ ججوں کی بیچ میں جسٹس ایل نگیشور رائو، بی آر گوائی، ائے ایس بوننا اور ایس رویندر بٹ نے کہا ’’ این آئی ایکٹ کے تحت کیسوں کی تعداد میں اضافہ ’’حیرت انگیز ‘‘ہے۔ عدالت نے مرکزی سرکار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’ آپ مزید عدالتیں قائم کرنے کیلئے نیا قانون بھی بناسکتے ہیں کہ کیسوں کا نپٹارہ مقررہ وقت پر حل کیا جائے‘‘۔ عدالت نے مرکزی سرکار کو مشورہ دیا ہے کہ حکومت معاملات کو حل کرنے کیلئے سبکدوش ججوں اور ماہر قانون کو بھی تعینات کرسکتی ہے۔ عدالت میں مرکزی سرکار کی پیروی کرنے والے سولیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ این آئی ایکٹ کی وجہ سے 30فیصد کیس ابھی عدالت میں ہے اور جب اس قانون کو لایا گیا تو وہ وقت اس کے اثرات پر تحقیق نہیں کی گئی ۔عدالت نے جواب میں کہا کہ جب یہ تحقیق پہلے کی جاسکتی تھیں تو وہ اب بھی کی جاسکتی ہے۔ بینچ نے بہار کے کیسوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب شراب نوشی کے خلاف قانون بنایا گیا تو عدالتوں میں ضمانت کے ہزاروں درخواستیں زیر سماعت رہی اور ان کے نپٹارے کیلئے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ مہتا نے کہا کہ مرکزی وزارت فائنانس نے تمام افسران کے ساتھ معاملہ پر تفصیلی بات چیت کے بعد عدالت کے’’ مشوروں‘‘ کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار ان پر غور کرنے کو تیار ہے لیکن اس سے قبل ان معاملات پر مزید تفصیلی بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کیس کی شنوائی کیلئے آنے والی 10تاریخ مقرر کی ہے اور سولیسٹر جنرل کو ہدایت دی ہے کہ وہ سرکار کی جانب سے مجوزہ قانون کے بارے میں تفصیلی جانکاری عدالت کو دیں کیونکہ کیسوں کی نپٹارے کیلئے مزید عدالتیں قائم کرنا حکومت کی زمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس کیس کو آگے لیکر چلیں گے لیکن ہم سرکار کی جانب سے کئے گئے اقدامات کا انتظار کرنا چائے۔ عدالت عالیہ سال 1988سے لیکر ابتک التوا میں پڑے چیک بائونس کیس کے 35لاکھ معاملات پر شنوائی کررہی تھی۔