چہرے پہ چہرہ!

کبھی  یار دوست ،بڑا بزرگ یا کوئی بھی دورانِ گفتگو ہنسی مذاق میں یامزاحیہ انداز اختیار کرکے (جسے عام زبان میں جوک مارنا کہتے ہیں) جوک (Joke)مارتاہے۔’’بھئی انگریز تو چلے گئے مگر یہ سگار ،نک ٹائی(یا موقع کی مناسبت سے کوئی اور چیز )اپنے پیچھے چھوڑ گئے ۔اُسی طرح اگر ہم یہ کہیں کہ کشمیری پنڈت نے تو یہاں سے خروج (Exodus)لے لیا مگر اپنے پیچھے ایک بڑی سوغات ہمارے لئے چھوڑ گئے جس کو ہم نے گرچہ کافی عرصہ قبل ہی اپنایا تھا ،مگر اب بھی ہم اُن کے جانے کے بعد بھی اُس وراثت سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔یہ بھی امر واقع ہے کہ وادی میں اسلام متعارف ہونے کے بعد اور صدیوں اکٹھے رہنے ،ایک ہی کھیت کا دانہ کھانے ،ایک ہی نل کا پانی پینے اور ایک ہی فضا میں سانس لینے کے باوجود بھی ہم اسلامی تعلیمات میں سے کسی ایک بھی ہدایت ،طریقہ یا عمل سے پنڈت برادری کو متاثر نہ کرسکے،بہ الفاظ دیگر ہم میں اتنی سوجھ بوجھ ہی نہیں تھی کہ ہم اُنہیں اسلام کے سیدھے سادھے اور آسان اصولوں ،اقدار اور عملیات سے متاثر کرتے ،راغب کرتے ،حالانکہ اسلامی تعلیمات میں کوئی سُقم ،ابہام یا اُلجھن(confusion)بالکل بھی نہیں ہے ،برعکس اس کے وہ تو چلے گئے مگر اپنے پیچھے اپنی یادوں کے ساتھ اپنی بو باس بھی چھوڑ گئے ۔اب اگر یہ بوباس سُو گندھت یعنی خوشبو دار ہوتی تو اُسے مشام جان بنانے میں بھلا ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا مگر وہ بوباس واقعتاً دُرگندھت یعنی بدبو دار ہے جس کو دانستہ یا نادانستہ اپنی وراثت مان کر ہم میں کافی سارے لوگ———وہ لوگ جنہوں نے اسے پلو سے باندھ کر رکھا ہے ———-گئے—–دونوں جانب سے خسارے میں چلے گئے یعنی  ۔ ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
رب کائنات اللہ عزوجل کا یہ فرمان بذریعہ قرآن بر ذاتِ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم  نازل ہوا کہ آپؐ  بھی خود اپنے نفع یا نقصان پر قادر نہیں ہیں۔مطلب یہ کہ اگر آپ اپنی ذات کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور ساری دُنیا ایک جھٹ ہوکر آپ ؐکے ساتھ ہو پھر بھی وہ آپ کا بال بھی بانکا نہیں کرسکتے ہیں،اگر اُس میں رب کی مرضی شامل نہ ہو اور اُسی طرح آپ اپنے کو کوئی نفع پہنچانا چاہتے ہیں تو نہیں پہنچا سکتے،چاہے آپ کے مددگار لاکھوں لوگ ہوں،جب تک اُس نفع رسانی کو رب کا اِذن نہ ہو۔
ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو پیسہ اینٹھنے والے ٹھگوں اور نام نہاد رمالوں کے پاس جاکر دوکانوںمیں خریداری بڑھانے یعنی برکت کے لئے،امتحان میں کامیابی ،بچوں کو تعلیم کی طرف رغبت دلانے ،شادی بیاہ ، نوکری ،ملازمت ،ٹھیکے کی الاٹمنٹ ،سفر سے واپسی ،پیار میں جیت ،حتیٰ کہ اولاد کی حصول یابی تک کے لئے اُن سے ایسے ٹوٹکے حاصل کرتے ہیں، جن کی دین میں کوئی حیثیت نہیں،نہ اخلاقی اعتبار سے عقل ایسے خرافات کو تسلیم کرتی ہے ؟مگر پھر بھی لوگ ایسے پہنچے ہوئے مکاروں کو نعوذباللہ خدائی صفات سے متصف مانتے ہیں ۔اس عمل کو آپ کیا کہیں گے ؟- ———-دینی اصطلاح میں اسے شرک کہتے ہیںاور مُشرک کے بغیر سبھی بندگان ِعصیاںکی معافی متوقع ہے مگر شرک کے لئے دو ٹوک الفاظ میں تادیب ہے کہ اُس کے لئے کوئی معافی نہیں۔
ہمارے اکثر علمائے دین ،بزرگ اشخاص اور خاص کر ائمہ اور خطباء کو زبانی اور فون سے بیشتر لوگ بار بار یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ جناب شادی رچانی ہے ،منگنی کرنی ہے ،دوکان کھولنی ہے ،سفر پر نکلنا ہے ،عقیقہ کرنا ہے یا ایسا ہی کوئی اچھا کام کرنا ہے مگر یہ محرم کا مہینہ ہے ،یہ صفر کا مہینہ ہے ،کیا یہ کام ان مہینوں میں سر انجام دیا جاسکتا ہے ۔ارے خدا کے بندو! نماز میں ’’اِیاکَ نعبدو وَاِیاکَ نستعین ‘‘بار بار دُہرانے والو! آپ کے اچھے یا بُرے کام کے ساتھ مہینے کا کیا لینا دینا ہے ؟گویا آپ کے من میں یہ شنکاہ ہے کہ اُس مہینے یا اس مہینے میں نحوست ہے اور آپ جو کام کریں گے اُس میں نقصان اٹھانا پڑے گا ۔اُدھر سے رب نے اَلٹی میٹم دیا ہے کہ نفع نقصان اُس کے اپنے ہاتھ میں ہے تو اس طرح سے آپ نے کسی مخصوص مہینے کو خدا (نعوذ باللہ)مانا،تو اُس کو شرعی الفاظ میں کیا کہیں گے ———–شرک!!!
آپ گھر سے نکلتے ہیں،آپ کو دفتر جانا ہے،دوکان پر جانا ہے یا کسی اور کام سے جانا ہے ۔ دروازے سے نکلتے ہی آپ کے آگے کتا آتا ہے ،بلی راستہ کاٹتی ہے،میونسپل کمیٹی کی کوڑا گاڑی یا کوئی عورت سامنے سے آتے دکھائی دیتی ہے۔کبھی آپ نے قدم بڑھایا تو قریب سے کسی نے چھینکا ۔آپ اباوٹ ٹرن لے کر واپس گھر میںگھس جاتے ہیں۔کیوں؟کیونکہ آپ نے ان انسانوں اور جانوروں کو منحوس مان کر بدشگون لیااور یہ بات من میںبٹھادی کہ اگر آپ مطلوبہ کام سے نکلے تو آپ کو نقصان اُٹھانا پڑے گا ۔گویا مذکورہ لوگوں ،جانوروں اورچھینک کو آپ نے نعوذ باللہ خدائی درجہ دیا ۔تو اُس بُرے عمل و اعتقاد کو شرعی الفاظ میںکیا کہیں گے ————شرک!!!
اخباروں میں ایڈ آتا ہے کہ فلاں ہوٹل میں فلاں مہاراج (اور کبھی کبھی مہارانی بھی)پدھارے ہیں،اتنے سے اتنے بجے تک مل سکتے ہیں۔ایڈوانس میں رجسٹریشن کے لئے فون نمبر بھی دیا جاتا ہے اورگرو مہاراج کے گھن گان میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ آپ کے مقدمے ،پیار اورنوکری کے حصول میں جیت دلائیں گے ۔سمندر پار کی ملازمت ،کاروبار جمانے ،من چاہی شادی کرنے میں سو فی صد گارنٹی دیتے ہیں۔جادو ،ٹونا ،سحر کاری اور تانترک کِریا کی نشاندہی کریں گے ۔پاگل پن ،مر گی ،کُشٹ روگ ،مردانہ ، زنانہ امراض کا خاطر خواہ علاج کریں گے اور جڑ سے ختم کردیں گے ۔مرد اور عورت اگر آپسی علحیدگی چاہتے ہیں تو وہ اُس کا سمادھان چٹکیوں میں کریں گے ۔اب آپ خود ہی بتائیں کہ انسانی زندگی کا پھر کونسا مسئلہ رہ جاتا ہے جو سادھو مہاراج یا تانترک بابا کے حد ِاختیار سے باہر ہے ؟آپ باقاعدہ رجسٹریشن کراکے،ایک موٹی رقم کی فیس جمع کراکے مہاراج سے ہوٹل میں ملتے ہیں۔
مذکورشدہ ساری صفات تو صرف رب العالمین کے پاس ہیں۔آپ نے مہاراج بابا کو خدائی صفات سے متصف مان لیا تو شرعی نقطہ نگاہ سے اس بد حرکت اور گھناونے فعل کو کیا کہیںگے ——–شرک!!!
ایک اور عقلی فتور——اپنی قسمت کا حال جاننے کے لئے نجومی کے سامنے آپ اپنا ہاتھ آگے کردیتے ہیں۔اگر آپ سیریس نہیں ہیں ،من محض شوخی اور شرارت کی جو لانی پر ہے اور آپ یونہی تفریحاً اپنا ہاتھ آگے کردیتے ہیں تو اُس صورت میں یاد رکھیئے کہ چالیس دن تک آپ کی نمازیں اللہ کے دربار سے رد ہوتی ہیںاور اگر آپ سنجیدہ ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ جان بوجھ کر نجومی کے آگے ہاتھ کی لکیریں پڑھنے اور قسمت کا حال جاننے کے لئے کردیتے ہیں تو پھر مضبوط دل و دماغ کرکے اس بات کو بھی سنجیدگی کے ساتھ سن لیجئے کہ نبی ٔ برحق صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا فرمانا ہے کہ ایسے بدبخت شخص نے اُس تمام مجموعۂ وحی سے گویا انکار کیا جو محمد ؐ پر اللہ کی جانب سے نازل ہوچکا ہے ۔اُس عمل کو شرعی الفاظ میں کیا کہتے ہیں ،اُس کا فیصلہ آپ خود کیجئے اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھیئے کہ اُس شخص نے گویا قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ آپؐ کی دنیوی زندگی گزارنے یعنی اُسوۂ حسنہ یا بہ الفاظ دیگر سنت نبویہؐ سے بھی انکار کیا ۔آخر میں یہی عرض کرنا چاہوں گا      ؎ 
خدا کو اتنے چہروں میں کیا تقسیم بندوں نے 
بڑ ی مشکل سے نظر آتا ہے امکان وحدت کا 
فریاد آذرؔ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او  رینگر-190001،کشمیر
  موبائل نمبر:-9419475995