کسی بھی قوم اور ملک کی سب سے بڑی دولت اُس کے نو جوان اور بچے ہوتے ہیں ۔ یہی لوگ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ۔ اگرچہ اس وقت ہمارے جوان نسل کے لئے ترقی کی اونچائیاں چھونے کی راہ میں بہت ساری دشواریاں اور مشکلات حائل ہیں مگرہمیںجواں پود میں خود اعتمادی اور خدا اعتمادی بہر صورت پیدا کرنا ہوگی ۔ یہ سب جہد مسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔ قوم کے بڑھے بزرگوں کی عمریں ظلم و فساد کی آب و ہوا میں بسر ہو ئیں ،جب کہ نوجوان تازہ دم ذہن ، نئے خون اور نئی امنگیں لئے ستاروں پر کمند ڈالنے کو بے تاب ہیں ، وہ ابترحالات اورشدائد و تکالیف میں بھی جینے کے فن سے آشنا ہورہے ہیں ۔ ہمیں فخر ہے کہ ارضِ کشمیر حضرت شیخ نور الدین ؒ نورانی جیسے اولولعزم ولی کا مسکن اور بڈشاہ جیسے سلاطین کا پا یہ تخت رہا ہے۔ یہ خطہ دنیا میں علم و ادب کی بہت بڑی آماج گاہ رہا ہے ، مگر اُنیسویں صدی کے اوائل سے اس قوم کی قدر و قیمت جانوروں سے کم ہو تی رہی ہے ۔ یہ جسوروغیور قوم انگریز نے ۷۵؍ لاکھ نانک شاہی کے عوض نیلام کر دی تو ایک صدی تک وطن مالوف ڈوگرہ مہاراجوں کی ذاتی جاگیر بنا ، ان دنوں چپے چپے پر ظلم و جبر کا دور دورہ تھا ، غلامی کی زنجیریں تھیں ، غربت تھی ، ناخواندگی تھی ، بیماری اور بھوک تھی ۔ کشمیر کی تاریخ کا یہ ایک د رد ناک باب ہے۔
جنت بد اما ں وادیٔ کشمیر کے برف پوش پہاڑ ، سر سبزو شاداب مرغزار ، ہنستے گاتے ندی نالے، جھیل جھرنے اور آبشار ، ہر ے بھر ے کھیت کھلیان اور دلآویز گلستان اس سرزمین میں ہر کشمیری کی میراث ہے ۔ یہ خطہ ذہانت و فطانت اور خداداد کاریگریوں اور ہنرمندیوں میں یکتا رہا اور زمانہ قدیم سے ہی دنیا بھر کے لوگ یہاں سیر وسیاحت کے لئے اور دوستان ِ خدا تبلیغ واشاعت ِدین کے لئے آتے جاتے رہے ۔ان میں سے کہیں ایک اسی جنت کی کشش وجاذبیت میں محو ہوکر اس کی مہکتی مٹی میں آسودہ بھی ہوئے ۔ رشک ِارم سر زمین کشمیر نے ہرایک کو گلے لگایا ، مگر وقت وقت کے شاہوں اور جابرین نے اس دریادلی کا صلہ ہمیں صدیوں سے غلامی، محکومی اور مظلومیت کی صورت میں اتنا دیا کہ ہم اپنے پیدائشی بنیادی حقوق تک کو بھول گئے ۔ ہم پر عائد بندشوں اور قدغنوں نے ہماری زندگیاں تلخ بنا دیں۔اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ آج جابجا لا تعداد ریاستی نوجوان بے روز گار ی کے سبب در بدر پھر رہے ہیں۔ وہ ملک کیا پھلے پھولے گا جہاں بے کاری کی وجہ سے لوگ نانِ شبینہ کے محتاج ہوں ۔ ہمارا کشمیر قدرت کے عطایا سے تہی دامن نہیں کہ ہمیں روٹی مہیا نہ کر سکے۔بفضل ِخدا وادیٔ کشمیر اللہ کی عطاکردہ دولتوں سے مالامال ہے ، ہمارے پاس معدنیات کے خزانے ہیں ، کھیت کھلیان کی سر سبزیاں ہیں ،جنگلات کے انمول ثمرات ہیں ، پانیوں کی فراوانیاں ہیں ، وادی کے چپے چپے میں بیش قیمت لعل وجواہر کے خزانے ہیں لیکن کیا کریں ہمارے اربابِ سیاست کو توفیق ہی نہیں کہ ان گنج ہائے گراں مایہ سے عوام کو مستفید ومستفیض ہونے کی منصوبہ بندیاں کریں۔افسوس کی ہماری صنعت و حرفت اور دست کاریاں بھی اسی وجہ سے روبہ زوال ہیں ۔ آج سے صرف ایک سو سال پیشتر اقوام عالم میںکشمیری انہی چیزوں کی وساطت سے تردماغ و چرب دست مانے جاتے تھے ،انہی کی بدولت کشمیر کے لاکھوں لوگ اپنا گزر بسر کرتے تھے ،مگر کہاں ہیں آج ہمارے وہ شہرہ ٔ آفاق شال دوشالے جنہوں نے کشمیر کا نام عالم میں روشن کر دیا تھا اور جن کو شاہان ِ مغرب فخراً زیب تن کرتے تھے ؟ افسوس ! ہم نے غفلتوں کی حدکر کے نہ صرف اپنی ہُنرمندیاں اپنے ہاتھ نیلام کر دیں بلکہ شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا ہو جس میں ہم نے اپنی نکیل غیر وں کو نہ تھمادی ہو۔نتیجہ یہ کہ آج ریاست کا رہا سہا تشخص بگاڑ نے اور مسخ کرنے کے لئے ہم35 Aاور دفعہ 370کی بقا ء کے لئے واویلا کر رہے ہیں اور کوئی ہماری نہیں سن رہا۔ ہم نے اپنی زرعی زمین پر بڑی بڑی عمارتیں بنا کر اجنبی کمپنیوں اور غیر ریاستی باشندوں کو کرایہ پر د ے ڈالیں اور اپنی نئی پود کو بے کار ی کے دلدل میں دھکیلا ۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسروں پر اُنگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں بھی جھانکیں ، تبھی ہم اس دلدل سے نکل باہر آنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔ یا درکھئے کوئی قوم یا ملک جب تک زراعت ، باغوانی ، صحت عامہ اور تعلیم و تربیت کے شعبوں میں خود کفیل نہ ہو تب تک اُس کا محرومی اور محکومی کے اندھے کنویں سے باہر آنا ممکن ہی نہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ جدید زندگی کی ضرورتوں کا فہم وادراک کر کے تمام شعبوں میں نئی نسل کی صلاحیتوں کو بہتر پلاننگ سے کھپا دیں تاکہ ہمارا مستقبل ماند نہ پڑ جائے اور کامیابی کے زینے چڑھنے میں پیچھے نہ رہیں ۔
9469679449