چچا غالب تو بس مفت میں بدنام ہو گئے۔ بد تو تھے نہیں بے چارے، نام کے بڑے عظیم اور شاندار۔ مگر جب سب پہ بھاری نام یعنی’’ مرزا اسد اللہ خان غالب‘‘ کے آگے چچا لگ گیا تو پھر ادب کے ساتھ ’’غیر ادبی‘‘ گھن چکر میں اُلجھ کے رہ گئے۔ کجا شان مرزا، کجااسد اللہی ، کجا خانویت ، کجا غالبیت اور کجا ــ’’چچائیتـ‘‘ ۔ غالب و اسد ہونا ایک الگ بات ہے اور چچا ہونا ایک دوسری ہی الگ شکل۔ مگر کیا کیا جاوے۔ بادشاہ سخن ، تاجدار سخن اور سرزمین ادب کے نامور مرزا اسد الہ خان غالب مغفور و مرحوم بھی عالم برزخ سے عالم چچائیت میں وارد ہو ہی گئے۔ ہم نے ہر ایک سمجھایا بجھایا۔ ذات برادری میں اپنا اثر و رسوخ خرچ کیا ۔ لینے دینے کی بات کری۔ جگاڑ اور جوڑ توڑ کا شوشہ چھوڑا۔ کہا کہ میاں، یہ غالب و چچا دو متضاد چیزیں ہیں۔ دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ کہاں سادہ لوح سخن ور کو گھن چکری چکروں میں پھنساتے ہو۔ مگر کوئی مانے تب نا۔ سب اس بات تُلے ہیں کہ غالب بس چچا ہیں اور ہم انہیں چچا کہلاویں گے۔ اب جسے بھی دیکھو بے چارے غالب کو دنیا بھر کے ایسے ایسے بھتیجوں سے الجھایا ہوا ہے کہ روحِ غالب کو خود بھی روحِ چچا کہنے یا کہلوانے میں کوئی جھجک ہی نہیں۔ خیر جو بھی ہے۔ میں اب بھی حضرت غالب کو چچا کہنے میں عار سی محسوس کر رہا ہوں۔ بھئی چچا ہونا کوئی آسان کام ہے کیا۔
کہتے ہیں بر صغیر ہند و پاک کے سب سے بڑے چچا پنڈت جواہر لعل نہرو تھے۔ ان کی حیاتی کے دوران گلی گلی میں بچے بچے کی زبان پر چاچانہرو ، چاچانہرو لگا رہتا تھا۔ چچا نہرو کو بھی بچوں سے بہت پیار تھا۔ اور بچوں کے درمیان رہنا بہت پسند کرتے تھے۔ اسی محبت کی بنا پر بچے انہیں چاچا نہرو کہتے تھے۔ وہ اتنے بڑے چاچا تھے کہ ان کے یوم پیدائش ۱۴ نومبر کو ہندوستان میں یوم اطفال کے طور منایا جاتا ہے۔
چچا غالب کے برعکس چاچا نہرو کو چاچا کہنے میں کسی بھی ادبی یا غیر ادبی حلقے، سیاسی یا غیر سیاسی تنظیم کو کوئی بھی اعتراض نہیں اور کوئی دو یا تین رائے بھی نہیں۔ سب اس بات پہ متفق ہیں کہ چاچا نہرو ایک عظیم چاچا تھے۔ یہاں تک کہ ہم جیسے بد نصیب اور بد قسمت بھی ان کے عظیم چاچا ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ کوئی ہمارا کچھ ہو نہ ہو، نہرو جی ہمارے بہت بڑے چچا جان ہیں۔ کئی ایک مورخین کا ماننا ہے کہ نہرو جی کے کشمیریوں کے ’’چاچاجان ‘‘ہونے میں مرحوم شیخ صاحب کا بہت بڑا یوگدان ہے۔ کیونکہ مرحوم شیخ صاحب نے بذات خود نہرو جی کو کشمیر لاکر کشمیریوں سے ’’من تو شدم اور تو من شدی‘‘ کرایا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ لو جی۔ یہ ہیں آپ کے اور ہمارے ۔۔چاچا جی۔ ویسے بھی چچا نہرو کے اجداد کشمیری تھے اور اس نسبت سے وہ ہمارے سگے والے’’ چاچا جیــــ‘‘ ہیں ۔ دبدبہء خاندان ِ ’’چاچا نہرو‘‘ کشمیریوں کے دلوں میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ اب تک ان کی چچائیت کا سکہ یہاں چلتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’نوٹ بندی‘‘ والے چاچا کی کرنسی اور ان کی چچائیت کو کب کے ڈیمو نی ٹائیز کر چکے ہیں۔
چند ہی سال گذرے ہیں کہ ہم سب دنیا کے سب سے بڑے چچا سے واقف تھے۔ نام تھا’’ Uncle Sam‘‘ ۔ چونکہ ہمارے ادھر کے لوگ انگریزی زبان سے قدرے لا تعلق اور نا بلد ہی واقع ہوئے ہیں، اس لئے اِدھر والے انہیں ’’چاچا سامری‘‘ سے پکارتے تھے۔ کسی اور کے یہ حضرت کچھ رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، مگر دنیا بھر کے مسلمان، خاص کر خلیجی ممالک کے لوگ انکل سامری کو عظیم چچائوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان حضرت نے اپنی چچائیت اور سامریت کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ انسانیت ان کے چھوڑے ہوئے نقوش سے لمبی عمر تک فیوض و برکات حاصل کرتی رہے گی۔ انکل سام نے جوتے تک کھائے مگر اپنی چچائیت سے دستبردار نہ ہوئے۔ اسی دیدہ دلیری اور بہادری کا نتیجہ ہے کہ قصرِ سامریت چھوڑنے کے بعد بھی دنیا ان کو یاد کرتی ہے۔
ہمارے ایک بڑے صاحب بڑے ہی بوجھل دل اور غمناک انداز میں کہاکرتے تھے کہ ہم لوگ پدرانہ شفقت کے سلسلے میں کچھ ذیادہ ہی بد نصیب واقع ہوئے ہیں۔بقول ان کے ہمارا کوئی باپ ہی نہیں۔ البتہ چاچائوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہر دور میں دسیوں چاچائوں کی موجودگی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ اور بیچ میں کچھ چاچیوں کی موجودگی کا بھی حوالہ بڑے آرام سے دیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ میرے دل نے ہزار دفعہ چاہا کہ کہیں سے کوئی شفیق و رفیق والد کی سند لے کے آئے مگر ندارد۔ اگر کبھی کوئی شجرہ ملا بھی تو چھان پھٹک اور تعلق کے بعد معلوم ہوا کہ والد کی شکل میں کوئی ’’چچا جان‘‘ ہی ہے۔ اور بادل ناخواستہ عین ساعتہ حسنہ پہ کسی نہ کسی غیر شرعی اور غیر موروثی ’’چچا جان‘‘ کا والی ہونا تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔
ایک اور رشتے پہ یاد آیا۔ اور وہ ہے’’ ماموں جان‘‘ یا’’ ماما جی‘‘۔ میرے اپنے ماموں جان کی کئی سگی اور دوسری بہنیں ہیں۔ اور ان تمام بہنوں سے میرے ماماجی کی کئی بھانجیاں اور بھانجے ہیں۔ ان تمام بھانجوں اور بھانجیوں کے کئی بچے بھی انہیں ماما جی ہی کے نام سے پکارتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جتنے بھی بھانجے اور بھانجیاں ہیں ان کے دوست اور دیگر لواحقین انہیں ماما جی ہی کے نام سے پکارتے ہیں۔ جب بھی اپنے خاندان میں کبھی کوئی تقریب ہو تو کئی درجن بھر لوگ ’’ماماجی ادھر، ماماجی ادھر‘‘ ، ’’ماماجی وہ، ماماجی یہ‘‘ پکارنا شروع کرتے ہیں ، تو میرے ماماجی از راہ بذلہ سنجی مصنوعی سنجیدگی سے پوچھ ہی لیتے ہیں کہ ٹھیک ہے بھائی، میں ماماجی ہوں، مگر اتنے سارے لوگوں کا ماماجی ہونا ناانصافی ہی سے تعبیر ہو سکتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک تقریب پہ ماماجی میرے قریب آئے او ر قدرے رازداری میں کہنے لگے کہ یہ جو امریکہ کے نئے صدر ہیں ، کیا یہ ہمارے کچھ لگتے ہیں۔۔؟ کیونکہ آج کل کچھ خبریں آرہی ہیں کہ یہ پردے کے پیچھے کچھ کر رہے ہیں۔ میں نے بھی رازداری میں کہہ ہی دیا کہ یہ ہمارے وہی لگتے ہیں جو آپ میرے لگتے ہو۔ مامائوں کا یہ مقام و مرتبہ دیکھ کرمیرے ماما جی ذرا جذباتی ہوئے اور جوش میں آکر پوچھننے لگے کہ اچھا یہ جو اِن کی نائب ہے، کیا یہ ہماری کچھ لگتی ہے۔۔؟ ایک پیشہ ور ہونے کے باوجود بھی میں ان کی کنڈلی کا پتہ ماما جی کو نہ بتا سکا۔ اور ایک سردآہ بھر کے میں نے ماماجی کو بتایا دیا کہ ہوگی کوئی ’’چاچی چار سو بیس‘‘۔
رابطہ ۔ ترال،کشمیر
ای میل۔[email protected]