یو این آئی
پیرس//پیرس کی ایک عدالت نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے میگزین ‘چارلی ہیبڈو’ کے سابق دفتر کے باہر 2 افراد کو چاقو کے وار سے قتل کرنے کی کوشش کرنے والے ظہیر محمود سمیت 6 پاکستانیوں کو 3 سے 30 سال تک قید کی سزا سنا دی۔29 سالہ ظہیر محمود نے جب یہ حملہ کیا تو وہ لاعلم تھے کہ ‘فرانسیسی میگزین’ کا دفتر اب اس عمارت میں نہیں ہے ۔درحقیقت چارلی ہیبڈو نے القاعدہ سے منسلک 2 نقاب پوش مسلح افراد کی جانب سے اپنے دفتر پر دھاوا بولنے کے بعد دفتر دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا، القاعدہ کے اس حملے میں میگزین کے ادارتی عملے کے 8 ملازمین سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔جنوری 2015 میں ہونے والی ان ہلاکتوں نے فرانس کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اظہار رائے اور مذہب کی آزادی کے بارے میں شدید بحث چھڑ گئی تھی، جس کے بعد فرانس میں ‘جے سوئس چارلی’ (میں چارلی ہوں) کی یکجہتی لہر ابھر کر سامنے آئی تھی۔بنیادی طور پر پاکستان کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے ظہیر محمود 2019 کے موسم گرما میں غیر قانونی طور پر فرانس پہنچے تھے ۔اس سے قبل عدالت نے سماعت کی تھی کہ کس طرح ظہیر محمود، پاکستانی مبلغ خادم حسین رضوی سے متاثر تھے ، جنہوں نے توہین مذہب کرنے والوں کے سر ‘تن سے جدا’ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ظہیر محمود کو اقدام قتل اور دہشت گردی کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور جب سزا پوری ہوجائے گی تو ان پر فرانس میں پابندی عائد کردی جائے گی۔سنہ 2015 میں ہونے والی خونریزی، جس میں مشرقی پیرس کی ایک سپر مارکیٹ میں یرغمال بنائے جانے کا واقعہ بھی شامل تھا، فرانس کے لیے ایک تاریک دور کا آغاز تھا۔