پی ڈی پی کی شکست و ریخت جاری ہے ،یہاں تک کہ نظر آتا ہے کہ اب یہ پارٹی محض ایک ڈھانچہ رہ چکی ہے جس میں سیاسی روح اور نظریاتی قدر ختم ہوچکی ہے ۔ اب تازہ ہی چاڈورہ سے جاوید مصطفی میر بھی اس پارٹی کو داغ مفارقت دے گئے ۔اسی طرح سے حسیب درابو ،عمران انصاری ،عابد انصاری ،محمد عباس وانی ،محمد یاسر ریشی ،سید بشارت بخاری وغیرہ اس پارٹی سے نکل کر دیگر سیاسی چراگاہوں کی طرف چل پڑے ہیںاگر چہ حسیب درابو ابھی کنارے پر نظر آتے ہیں اور ان کے سیاسی عزائم نہیں لگتے ہیں ۔پی ڈی پی سے تخلیہ کرنے والا بیشتر سیاسی مال پیپلز کانفرنس کے کھاتے میں گیا ہے جو اب کم ازکم صوبہ کشمیر میں موجودگی کا بھرپور اظہار کرنے لگی ہے ۔دوسری جانب پی ڈی پی کے خاتمہ سے این سی میں تازگی نظر آرہی ہے کیونکہ اس جماعت کی مبینہ حریف سیاسی جماعت ریت کے گھروندے کی طرح ڈھہ رہی ہے ،اس لئے خوشی تو ہوگی ہی۔پی ڈی پی کا اس طرح سے خاتمہ کیوں ہورہا ہے ، اس پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ جس کے ساتھ خود پی ڈی پی بھی اتفاق کررہی ہے ،وہ یہ ہے کہ اس جماعت نے آر ایس ایس کی سیاسی تحریک بی جے پی کے ساتھ ریاست میں سرکار بنا کر خود کو شیر کے منہ میں دھکیلا۔پی ڈی پی کے سیاسی نظریہ کو چھ نکات میں اس طرح بیان کیاجاسکتا ہے کہ :
الف: گولی سے نہیں بولی سے مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔
ب: پاکستان کے ساتھ مذاکرات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
ت: کشمیر کے عوام نے گزشتہ دہائیوںمیں سخت زخم کھائے ہیں،انہیں اب مرہم کی ضرورت ہے۔
ث: کشمیر اور پاکستان کے درمیان تاریخی تاریخی اور انسانی آمدورفت کی بحالی سے حالات سدھارنے میںکلیدی مدد ملے گی ۔
ج: سیاسی مخالفین خصوصاً حریت کانفرنس کو پر امن طور پراپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہونی چاہئے ۔
ح: ہزاروں قیدیوں کی رہائی ضروری ہے ،نیز غیر ضروری کیسوں کا اندراج نہیں ہونا چاہئے۔
تاہم اقتدار میں آنے کے بعد یہ سب دھیرے دھیرے الٹا ہوتا گیا ۔بی جے پی نے تمام مسائل کے حل کیلئے واحد منترا ایجاد کیا’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘۔ہندوستانی حالات اور تجربات سے اس بات کا واضح عندیہ دیا گیا کہ اس ’’سب‘‘کے منتر میں سبھی تو ہوسکتے ہیں لیکن مسلمان نہیںبلکہ اس ساری مہم کا منفی ہدف ہی مسلمان رہے ۔اس لئے کشمیر میں اس کی پالیسیاں جموں اور لداخ نواز رہیںاور دوسری طرف سخت گیرپالیسی ہی کو اصل حل بتایا گیا ۔اس کے جواب میں پی ڈی پی کچھ نہ کرسکی ۔
درون خانہ ہنگاموں کی اہمیت سے انکار نہیں۔یہ پارٹی ،جو1998میں وجود میں آکر محض چند برسوں میں 2002میں برسر اقتدار آئی اور پھر اس کو دوبارہ اقتدار ملا ۔دونوں دفعہ حکومت ادھوری رہ گئی ۔2008میں امر ناتھ ایجی ٹیشن کی نذر اور 2018میں بی جے پی نے بالکل بے خبری میں پائوں تلے زمین ہی سرکا دی۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اقتدار سے محروم ہوکر محبوبہ مفتی نے چند بڑے سیاسی اقدامات اٹھائے جن میں سے دو اقدامات کوتو سیاسی تاریخ کے کارنامے کہا جاسکتا ہے ۔ایک یہ کہ 21نومبر2018کوانہوں نے ریاست میں مبینہ طور پر پیپلز کانفرنس کے کندھے پربی جے پی کو برسر اقتدار آنے سے روک دیا۔اگر چہ اس میں نیشنل کانفرنس کا بھی بڑا تاریخی رول رہا ہے جن کے ممبران کی حمایت سے پی ڈی پی سرکار بنانے کا دعویٰ کررہی تھی ۔البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بی جے پی کو سرکار بنانے سے روکا گیا۔دوسرا بڑا قدم یہ بھی ہے کہ گورنر انتظامیہ لداخ کو ایک صوبہ بنانے کی پوری تیاری کرچکی تھی اور محبوبہ مفتی نے اس پر زبردست شور مچاکر رنگ میں بھنگ ڈال دی ۔انہوں نے کہا کہ صوبہ بنانے کے حقدار چناب وادی کا علاقہ اور پیر پنچال بھی کہیں زیادہ ہیں ۔چونکہ اس طرح سے ہندو اکثریتی صوبہ جموں تین حصوں میں بٹ جاتا جوکہ منظور نہیں تھا۔اس لئے لداخ ہی کوصوبہ بنانے سے فی الحال روکا گیا ، اگرچہ لداخ انتظامی اور مالی اعتبار سے کشمیر سے مکمل الگ تھلگ کرکے اس کو ببانگ دہل ہندوستان کا سب سے بااختیارہل کونسل ہونے کا شرف بخشا گیا ہے ۔اسی طرح سے30دسمبر2018کے روز پلوامہ کے پتی پورہ گائوں میں ایک عسکریت پسند کی بہن روبینہ ، اس کے شوہر اور بھائی کی پولیس کے ہاتھوںزبردست مارپیٹ کے خلاف زبردست بیان بازی سے یہ سلسلہ اب روک دیاگیا ہے ۔اس کے بارے میں گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ محبوبہ مفتی اب کھوئی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے عسکریت پسندوں کی حمایت پر اُتر آئی ہے لیکن کیا اب کی بار پی ڈی پی ان حربوں سے جانبر ہوسکے گی ؟۔ان جملہ تفاصیل کے منظر اور پس منظر میں یہ سوال بڑ ااہم ہے کہ پی ڈی پی کا سیاسی تجربہ کیاتھا؟اور یہ ناکام کیوں ہوا یا کیوں ناکام بنادیاگیا؟۔پی ڈی پی ڈیپ سٹیٹ کیلئے ناقابل قبول کیوں ہوئی ؟۔
پی ڈی پی کے امکانی خاتمہ سے کشمیر کی سیاست کا ایک نیا اور دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے کہ کس طرح نئی دلّی اپنے مقاصد کیلئے پارٹیاں بناتی ہے اور مقاصد کی کلی یا جزوی کامیابی یا پھر ناکامی کی صورت میں انہیں ختم بھی کرسکتی ہے ۔پہلے تو یہاں خیال کیاجاتا تھا کہ نئی دلّی سیاسی جماعتوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے لیکن پی ڈی پی کا تجربہ کس قدر خوفناک ہے،وہ اس لئے کہ اس سے لگتا ہے کہ نئی دلّی اپنے مقاصد کیلئے پارٹی بنا بھی سکتی ہے اور بگاڑبھی سکتی ہے ۔یہ سارا کھیل اصل میں ڈیپ سٹیٹ کا ہے ۔یہ بات عمومی طور پر معلوم ہے کہ 1998میں پی ڈی پی کو نئی دلّی کی ڈیپ سٹیٹ نے نیشنل کانفرنس کے متبادل کے طور پر سامنے لایا تو دوسری طرف اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ مزاحمتی حلقوں کے نظریات سے کچھ چرا کر اس میں ملادیاجائے تو یہ زیادہ سیاسی اکسیر بن کر عوام کیلئے قابل قبول بن جائے گا۔ہوا بھی وہی ۔لوگ نیشنل کانفرنس کی دہائیوں کی بے وفائیوں ،رشوت خوری ،اقرباء پروری اور بدعنوانیوں سے تنگ آچکے تھے ۔وہ ایک متبادل کی تلاش میں تھے تو دوسری طرف قلم اور دوات کے ذریعے ’’آزادی ‘‘کی تلاش کے نشان بھی جلوہ نما دکھائی دے رہے تھے ،کم از کم جزوی طور پر اور قابل حصول مقاصد کی صورت میں ۔
ایک قلیل مدت میں پی ڈی پی کا دو بار برسر اقتدار آنا ایک سیاسی کرامت ہے یا پھر ڈیپ سٹیٹ کا کمال کیونکہ دونوں با ر پی ڈی پی عملی سیاست اور اپنے مبینہ اعلانات کی روشنی میں ناکام ہوئی گوکہ اس نے چند اہم اقدامات ضرور اٹھائے ۔لیکن لگتا ہے کہ غالباًڈیپ سٹیٹ نے یاتو وہ مقاصد حاصل کر لئے جن کیلئے پی ڈی پی کو وجود میںلایا گیاتھایا پھر پی ڈی پی کا کھیل ہاتھ سے باہر جارہا تھا۔یعنی وہ بھی ایک کشمیری قوم پرست جماعت کی شکل اختیار کررہی تھی ۔باتیں دونوں درست ہیں۔ڈیپ سٹیٹ نے پی ڈی پی کے ذریعے اپنے مقاصد بھی حاصل کر لئے اورجب اس کا سیاسی سائز بڑا ہونے لگا تو اس کو ختم کیاگیااور یوں سیاسی مہرے دوسری بساط پرسجائے جارہے ہیں تاکہ اُن سے کام لیاجائے ۔
اگر اب مقصد یہ ہے کہ بی جے پی کو ریاست میں برسر اقتدار آنے کیلئے پیپلز کانفرنس کی شکل میں ایک علاقائی کشمیری جماعت کی ضرورت ہے توا س کیلئے پی سی کو بھی محتاط قدم اٹھانے ہونگے۔اُن کیلئے پی ڈی پی کا انجام ایک درسِ عبرت ہے ۔اگر چہ اقتدار کی حصولیابی کیلئے خود پیپلز کانفرنس کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہے تاہم پیپلز کانفرنس کو ہوش کے ناخن ضرور لینے ہونگے کیونکہ پی ڈی پی والا تجربہ انہیں سیاسی منظر سے ہمیشہ کیلئے غائب کرسکتا ہے ۔یہ تو معلوم حقیقت ہے کہ مرحوم مفتی محمد سعید ڈیپ سٹیٹ کے قابل بھروسہ وفادار سیاستدان تھے اور ا سکے ذریعے نئی دلّی کشمیر میں کچھ نئے تجربات کرنا چاہتی تھی جبکہ مفتی محمد سعید ایک سچے ہندوستانی ہوکر صمیم ِ قلب سے یہ چاہتے تھے کہ کشمیری عوام کو کچھ راحت حاصل ہو۔اُن کے خواب اور اقدامات ادھورے رہ گئے ۔اور شاید ڈیپ سٹیٹ کے مقاصد بھی سو فیصد پور ے نہیں ہوئے ۔البتہ پی ڈی پی کے حشر سے کشمیر کی سیاست میں ایک نئی نہج پیدا ہورہی ہے جو کافی مایوس کن ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈیپ سٹیٹ اپنے مقاصد کیلئے اب صرف افراد ہی نہیں بنا سکتی ہے بلکہ پارٹیوں کو بنانا اور بگاڑنا بھی آسان تجربہ ہے ۔اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ محبوبہ مفتی کس قدرباصلاحیت ثابت ہوتی ہے اور اپنے سیاسی وجود کو منوا سکتی ہے ۔محبوبہ مفتی کی جارحانہ سیاست ہوا کا رخ بھی بدل سکتی ہے ۔
( بشکریہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر)