سرینگر//عالمی بشری حقوق پاسداری کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے پیلٹ بندوق کے قہر کی ’’کشمیر میں قوت بصارت کھونے‘‘ کے نام سے رپورٹ منظر پر لائی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اصولی طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دبائو بڑھانے سے ہی ’’شارٹ گن‘‘(پیلٹ بندوق) کے استعمال پر مکمل روک لگ سکتی ہے۔سرینگر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے پریس کانفرنس کے دوران پیلٹ بندوق سے نکلنے والے چھروں کی وجہ سے زخمی ہونے والے اور اس کے مضر اثرات سے متعلق 109 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی۔’کشمیر میں قوت بصارت کھونے ،شارٹ گن سے پیلٹ فائرنگ کرنے کے اثرات‘‘ میں88ایسے کیسوں کو نمایاں کیا گیا ہے، جو گزشتہ برس کی ایجی ٹیشن کے دوران مکمل یا جزوی طور پر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوئے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آکار پٹیل،ایمنسٹی کے مقامی مہم کار ظہور احمد وانی، ایمنسٹی کے انٹرنیشنل لاء و پالیسی ڈائریکٹر سلیش رائے اور پیلٹ سے زخمی ہونے والے پلوامہ کے منظور احمد اور شب روز میر نے اس رپورٹ کو تقریب کے دوران جاری کیا۔اس موقعہ پر آکار پٹیل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکام فوری طور پیلٹ بندوق پر پابندی عائد کرے کیونکہ یہ کشمیر میں سینکڑوں لوگوں کی قوت بصارت کھونے،اموات اور جسمانی چوٹ کیلئے ذمہ دار ہے۔انہوں نے وزیر اعظم ہند کی15اگست کو لال قلعہ دہلی سے کئے گئے خطاب کہ کشمیر میں گولی یا گالی سے تبدیلی نہیں آئے گی، پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’اگر حکومت کا مطلب حقیقت میں یہی ہے ،تو انہیں فوری طور پر پیلٹ فائرنگ شارٹ گن کے استعمال کو بند کرنا چاہے،جو کشمیر میں بہت زیادہ مصیبت کا سبب بنے ہیں‘‘۔ آکار پٹیل نے کہا کہ پیلٹ فائرنگ سے زخمی ونے والے افراد نفسیاتی صدمے کی علامات سمیت سنگین جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا ’’ پیلٹ بندوق کے قہر سے زخمی ہونے والے بہت سے افراد ایسے ہیں جو کہ اپنے خاندانوں اور کنبوں کے واحد کفیل تھے،اور اب انہیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ مزید کام نہیں کرسکتے،جبکہ بار بار کی سرجری کے بعد بھی کئی متاثرین کی کھوئی ہوئی بنیائی واپس نہیں لوٹی‘‘۔پٹیل نے مزید کہا کہ جن88کیسوں کا جائزہ لیاگیا ان میں سے31کی دونوں آنکھوں کی بنیائی متاثرہوئی ہے،جبکہ14خواتین اس فہرست میں شامل ہیں، اور کئی ایک کی موت بھی واقع ہوئی ،تاہم ان واقعات سے متعلق کیسوں کا اندراج بھی عمل میں نہیں لایا گیا۔انہوں نے کہا’’ان کیسوں میں صرف ایک خاتون نے ہی فورسز کے خلاف کیس درج کیا ہے،جبکہ بیشتر متاثرین کے خلاف ہی پولیس نے کیس درج کئے ہیں‘‘۔انہوں نے نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کے اس جواب کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا کہ اگر وہ پیلٹ بندوق کا استعمال نہیں کرینگے،تو گولیوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔ایمنسٹی کے ایگزیکٹیوڈائریکٹر نے کسی بھی قسم کی تشدد آمیز واقعہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا’’سنگبازی بند ہونی چاہیے‘‘،تاہم فورسز کا بھی کوئی جواز نہیں بنتاکہ وہ سنگبازوں کے خلاف پیلٹ بندوق کا استعمال کرے۔افسپا کا ذکر کرتے ہوئے آکار پٹیل نے کہا کہ1990سے لیکر پولیس نے کیس درج کئے اور منظوری کیلئے مرکزی حکومت کو روانہ کئے،تاہم آج تک انکی مزید پیش رفت کیلئے منظوری نہیںدی گئی۔انہوں نے ملوث اہلکاروں کے خلاف سیول عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی وکالت کرتے ہوئے’’کورٹ آف انکوئریز اور کورٹ مارشلوں کے طریقہ کار کو مسترد کیا‘‘۔بین الاقوامی سطح پر دبائو بڑھانے کیلئے مہم چلانے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے اصولی طور پر اس بات کو تسلیم کیا کہ پیلٹ بندوق پر پابندی کیلئے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جانی چاہیے۔آکار پٹیل نے کہا’’حکام کا فرض عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے،تاہم پیلٹ بندوق کا استعمال کرنا اس کا حل نہیں ہے‘‘۔انہوں نے مشورہ دیا کہ فورسز مظاہرین کی طرف سے کی جانی والی سنگبازی یا دیگر تشدد سے دوسرے ذرائع سے بھی نپٹ سکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھیڑ سے نپٹنے کیلے بین الاقوامی حقوق انسانی کے معیار کا لحاظ رکھا جائے۔اس موقعہ پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سنیئر مہم کار ظہور احمد وانی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کچھ معاملات میں پیلٹ لوگوں کی آنکھوں کے قریب کاسہ سر(کھوپڑی) کے قریب موجود ہیں،تاہم ڈاکٹر بھی وہ نکالنے سے کتراتے ہیں،کیونکہ انہیں اس بات کے خدشات لاحق ہیں کہ کہیں اس سے انکی بینائی متاثر نہ ہو،تاہم معالجین کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ اس کے اندر رہنے سے طویل مدتی اثرات ہوسکتے ہیں۔ ظہور احمد وانی نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ مرکزی حکومت نے حق اطلاعات قانون کے تحت درخواستوں کو مسترد کیا۔پیلٹ بندوق کے غیر مہلک ہونے پر سوالیہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پیلٹ بندوق کی مناسب طریقے سے جانچ کی گئی ہے،اور ان کے اثرات اور خطرات کا اندازہ لگایا گیا ہے،یا اس سلسلے میں کوئی ضابطہ مرتب کیا گیا ہے کہ پیلٹ بندوقوں کا ستعمال کس طرح سے کیا جائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ سرکار بھی اس ہتھیار سے زخمی ہونے والوں،بشمول معذوروں اور بصارت کھونے والوں کی مدد کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ایمنسٹی کے انٹرنیشنل لاء و پالیسی ڈائریکٹر سلیش رائے نے پیلٹ سے متاثر ہوئے لوگوں کی باز آبادکاری اور سیول سطح پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ زخمیوں کو معاوضہ بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ مقامی سرکار کے ساتھ بھی اٹھایا گیا،تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ کم از کم طریقے پر اس کا استعمال کیاجا تا ہے۔سلیش رائے نے کہا کہ اس بات کی رپورٹیں دستیاب نہیں ہیں کہ حکومت ابھی بھی کس مقدار میں پیلٹ بندوق کا استعمال کرتی ہے۔رائے نے کہا کہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس بندوق کا استعمال کرنے کے دوران فورسز اور پولیس کا اس پر قابو نہیں رہتا،اور نہ ہی اس کا ہدف برقرار رہتا ہے،جس کی وجہ سے دیگر لوگ بھی زخمی ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حق اطلاعات قانون سے ملی جانکاری کے مطابق کپوارہ میں16پولیس اہلکار بھی پیلٹ سے زخمی ہوئے،جبکہ انہوں نے اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا کہ یہ اہلکار فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہوئے ہوں۔پریس کانفرنس کے دوران آنکھوں کی بنیائی سے متاثر ہوئی پلوامہ کی طالبہ سبر وز اور ایک نوجوان منظور احمد نے اپنی روئیداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح انہیں پیلٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ تقریب میں مقامی سیول سوسائٹی یعنی کولیشن آف سیول سوسائٹی کے سربراہ ایڈوکیٹ پرویز امروز ، سی سی ایس کے کارڈی نیٹر کھرم پرویز ، اے پی ڈی پی کے ایک دھڑے کی سربراہ پروینہ آہنگر ، مقامی حقوق انسانی فورم وائس آف وکٹمز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عبدالقدیر ، کارڈی نیٹر عبدالروف خان اور انٹرنیشنل فورم فار جسٹس چیئرمین محمد احسن اونتو سمیت بڑی تعداد میں حقوق انسانی کارکنان اور متاثرین بھی موجود تھے ۔