مزار شہداء خواجہ بازار سرینگر پر گزشتہ روز منعقدہ یوم شہداء کی تقریب نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ریاست میں برسراقتدار مخلوط حکومت کے کلیدی اتحادیوں پی ڈی پی اور بی جے پی کی فکری اور نظریاتی راہیں نہ صرف جداگانہ ہیں بلکہ کئی حوالوں سے متصادم بھی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارتی نے 2015اور 2016 کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے 13جولائی1931کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تقریب ، جسکی قیادت وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بذات خود کررہی تھیں، کا مکمل بائیکاٹ کیا اور بھاجپا قائیدین نے ا س حوالے سے نہ کوئی لب کشائی کی اور نہ ہی کوئی تأثر ظاہر کیا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر سال 13جولائی کے موقع پر جو یوم شہداء منایا جاتا ہے ، وہ نہ تو کسی مخصوص جماعت کا نظریاتی ایجنڈا ہے او رنہ ہی پروگرام بلکہ یہ انسان کے بنیادی حق او رجمہوری اقدار کے حصول کے لئے ریاستی عوام کی جانب سے لڑی گئی لڑائی کی ایک علامت ہے، جس کو آئینی پذیرائی حاصل ہے۔ یہ اُس شخصی نظام کے خلاف جد وجہد کا خلاصہ ہے، جو 1846ء میں برطانیہ کی سامراجی سیاست کے طفیل وقوع پذیر ہوئے بیعہ نامہ ٔ امرتسر کے خلاف ریاست کے اُن دبے کچلے لوگوں کی ، جنہیں زمین و آسمان، کہسارو باغات اورکھیت کھلیانوں سمت75لاکھ نانک شاہی رپیوں کے عوض فروخت کیا گیا تھا، تاکہ لاہور کا سکھ دربار برطانوی حکومت کےخلاف لڑی گئی جنگ میں پیش آئی شکست کا تاوان ادا کرسکے۔ 13جولائی کی تقریب ، کو اگر اس عنوان سے دیکھا جائے تو ہر صحح الفکر انسان نہ صرف اسکی توقیر کرے گا بلکہ اس سوچ کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے گا، مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ ریاستی حکومت کے دست و بازو ہی اس تقریب کے بائیکاٹ سے نہ صرف 1931ءکے شہداء کے تئیں توہین کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ علاقائی، طبقائی او رمذہبی فکر کی حامل سیاست کو پروان چڑھاکر ریاستی عوام کے اندر فاصلوں کو بڑھانے کے ایجنڈا پر گامزن ہیں۔ ڈوگرہ حکومت کے خلاف لڑائی صرف کشمیر میں ہی نہیں بلکہ جموں ڈویژن کے کئی حصوں میں بھی لڑی گئی، جس میں مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہندئوں اور سکھوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔حالانکہ ایسے متعدد شواہد موجود ہیں، جن سے یہ باور ہوتا ہے کہ آخری ڈوگرہ حکمران فکری طور پر فرقہ پرست نہیں تھے، لیکن انتظامی سطح پر برسراقتدار اعلیٰ ذات کے طبقوں ، جن میں کشمیر کے اندر بھی کئی جاگیردار اور اثر و رسوخ کے حاملخانوادے شامل رہے ہیں، اس سلسلۂ ظلم و جبر کے نظام کے کل پُرزے تھے، جس کے خلاف وہ جد وجہد انسانی، جمہوری و اخلاقی اصولوں کی علامت تھی۔ آج اگر حکمرانوں کی جانب سے اُسی کو نکارنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ اسی نظریہ اور سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں جس کےخلاف1931ء میں نہتے لوگوں نے جد وجہد کی تھی۔ یہ سوچ جموںوکشمیر میں آباد عوام کو مذہبی، علاقائی اور طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے نظرئیات کی حامل ہے اور موجودہ مزاحمت کو اسی نکتۂ نگاہ سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش بھی اسی کا حصہ ہے۔ ایسا کرتے ہوئے جموںوکشمیر پر تقسیم ہند کی سیاست کے اثرات کو نظر اندا زکرتے ہوئے دہشت کے نام پر ایک ایسا بیا نیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا عمل جاری ہے، جو فی الوقت مختلف وجوہات کی بنا پر بڑی طاقتوں کو مرغوب ہے۔ اس سارے عمل میں جموںوکشمیر کے الحاق ہند اور اسکے تحت ریاست کو دیئے گئے حقوق کے تواتر کے ساتھ خاتمہ کی مہم پر لب کشائی کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتی، کہ جسکے نتیجہ میں 1953سے لے کر موجودہ دور تک جموںوکشمیر کو دی گئی اٹانومی کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور آج کی تاریخ میں جی ایس ٹی کے مرکزی قانون کے ریاست کے اندر اطلاق پر کئی سیاسی جماعتوں کا یہی الزام ہے۔ اسی سیاست کے تحت ریاست کے اندر انتشار پھیلانے کا عمل ، خصوصاً کشمیر اور جموں کے خطوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر نے کی کوششیں کی جاری ہیں او را س کے توسط سے ملکی سطح پر کشمیر کے نام سے ایک ایسے بیانیہ کو تقویت پہنچائی جارہی ہے، جو آنے والے ایام میں مرکزی حکمرانوں کو الیکشن کی سیاست میں مدمقابل اپوایشن جماعتوں کو کمزور کرنے میں مدد دے سکے۔ اگر13جولائی تقریبات میں ریاستی حکومت کی اکائی بی جے پی کے بائیکاٹ کی اس مکروہ روایت کو اس تناظر میں دیکھاجائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اس سارے منظر نامے میں حکمران اکائی پی ڈی پی کی سوچ کیا ہے اور اسکے نتائج کیا ہوسکتے ہیں اُس پر انہیں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بہر حال وہ نظریاتی طور پر اُس آبادی کی نمائندگی کرتی ہے جن کےلئے 13جولائی1931ء کے شہداء ہیرو ہیں اور انکی جد وجہد مشعل راہ ۔