ماہ صیام برکتوں اور فیض رسانیوں کا مہینہ ہے ۔ اس بر کت والے ماہ میں نہ صرف اہل اسلام میں عبادات کا ذوق شوق بڑھ جاتا ہے بلکہ لوگ خیرات و صدقات اور زکوٰۃ سے غربیوں اور ناداروں جیسے کاموں میں بھی خلوص دل کے ساتھ پیش پیش رہتے ہیں ۔ اسلام نے سماج کے صاحب ِ ثر وت طبقے کو سماج کے پچھڑے ہو ئے طبقات ، عام غرباء ، مساکین ، محتاجوں اور محروموںکے علاوہ کئی دیگر زمروں کے صاحب ِاحتیاج لوگوں کی مالی امداد کرنے کی کافی ترغیب دلائی ہے ۔ یہ خیراتی کام علی الخصوص ماہ صیام میں کافی زور پکڑتاہے ۔ اجر وثواب کا یہ کام کرتے ہوئے اس حقیقت کونظروں سے اوجھل نہیں کیا جانا چاہیے کہ دین اسلام پیشہ ورانہ گداگری کی زبردست حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ یہ دین بتاتاہے کہ اوپر والے ہاتھ کو نیچے والے ہاتھ پر فضیلت حاصل ہے ، یعنی ہمیں دینا والا ہاتھ ہونا چاہیے، نہ کہ مانگنے والا ہاتھ۔ افسوس کہ کلمہ خوانوں میں دینے والے نہیں لینے والے ہاتھ بڑھ رہے ہیں۔ کچھ برس قبل سعودی عرب میں سرکاری سطح پر فتویٰ جاری کر کے پیشہ ور اور عادی بھیک منگنوں کو زکوٰۃ و خیرات دینے پر ممانعت عائد کی ۔ بدقسمتی سے ہمارے سماج میں بھک منگوں کا لشکر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے ۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ بعض گداگر ہٹے کٹے ہوتے ہیں مگر تن آسانی اور آرام طلبی کے سبب محنت کی بجائے وہ دست سوال دراز کر نے کے موذی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ ماہ مبارک ان پیشہ وروں کے لئے گویا فصل کٹائی کا موسم ہوتا ہے۔اس لئے یہ ہر بستی ،ہر مسجد ، ہر زیا رت گا ہ اورہر گلی کوچے ،ہر شاہراہ پر کشکول ِ گدائی لئے پھرتے دیکھے جاتے ہیں ۔ بھکا ریوں کے اس لشکر میں غیر ریاستی بھک منگے بھی فوج درفوج جا بجاپائے جارہے ہیں۔ ہمارے یہاں گداگری کی شرم ناک بدعت میں اضافہ در اضافہ ہو نے کی وجو ہا ت کیا ہے؟ اس بابت مختلف آ را ء پا ئی جا تی ہیں ۔ بعض حضرات کا مانناہے کہ گدا گری مشٹنڈوں ، کام چوروں اورمفت خوروں میں اس لئے مقبول ہے کیو ںکہ با لعموم کشمیری عوام سائل کو کچھ دئے دلائے بغیر نظر اندا ز کر نا مذ ہبا ً معیوب اور گنا ہ سمجھتے ہیں، خاص کر ما ہ صیام کے دورا ن سائل کو خالی ہاتھ لوٹانا اجر و ثواب سے محرومی کا باعث سمجھا جاتا ہے ۔ پیشہ ور بھکا ری اسی عمومی مزاج کا ناجائز فائدہ اٹھاکر رمضان کو بھیک مانگنے کا موسم بہار سمجھ کر لو گو ں سے خیرات وصولنے میں ہمہ و قت مشغول رہتے ہیں۔ بعض لو گ یہاں گداگری میں اضافے کی وجوہات کے ڈانڈے بر س ہا برس کے ابتر حا لا ت سے بھی جو ڑ تے ہیں ۔ ان کا عندیہ ہے چونکہ ایک مدت ِدراز سے یہا ں معتد بہ لوگ معاشی مشکلا ت اور تنگ دستی کا سامنا کر تے چلے آرہے ہیں، اس لئے اول اول انہیںبحا لت مجبوری گزر اوقات کے لئے دوسروں کے آگے خیرا ت کی جھولی پھیلانی پڑی مگر آہستہ آہستہ ان محتاجوںمیں بھیک مانگنے کی لت پڑگئی تو محنت مزدوری کر کے چار پیسے کمانے کے بجائے یہ لوگ دوسرو ں کے ٹکڑو ں پر پلنے پر مطمئن ہو کررہ گئے ۔ یہ لوگ اب عادتاً عوام کے سامنے دست ِسوال دراز کر نے کے عادی ہوچکے ہیں ۔ ایک اور قلیل التعداد طبقہ ان گدا گروں پر مشتمل ہے جو واقعی جسمانی ناخیزی اور بیماری یاحوادث وغیرہ کے سبب بھیک مانگ کر پیٹ کا جہنم ٹھنڈا کر نے پر مجبو ر ہیں ۔ کہیں کہیںیہ بھی دیکھا جارہاہے کہ مستحق ِامداد مفلو ک الحال لو گ کشکول گدائی لئے گھر گھر اور دَر دَر بھیک مانگتے نہیںپھرتے ہیں کیونکہ ان کی غیرت آڑے آتی ہے۔ بہر کیف اس بات سے انکا ر نہیں کہ جہاں مستحق ِ امداد سائل ومحروم کا حق کسی صورت نہ ما را جائے ، وہاں پیشہ ور بھکاریوں کی مہذبانہ اور شریفانہ انداز میں حوصلہ شکنی کر نا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ کشمیر میں یہ ایک دیر ینہ روا یت رہی ہے کہ سیا حتی سیزن کے آ غاز کے ساتھ ہی غیر ریاستی گدا گر یہاں جابجانمودار ہو تے ہیں۔ معاملہ محض ان کی گدا گری کا ہی نہیں بلکہ یہ اپنے ساتھ بہت سارے اخلا قی جرائم اور سما ج دشمن سرگرمیاںبھی یہاں لاتے ہیں۔ اس با ر ے میں چو نکہ قانو ن خا مو ش تماشائی بناہے، لہٰذا ہما رے یہاںکو ئی ایسی کا رگر حکمت عملی مو جو د ہی نہیں کہ جس پر عمل پیرا ہو کر پیشہ ورانہ گداگری کا قلع قمع کیا جاسکے۔ بے شک معا شرے کی اجتماعی بہتری کے لئے محتا جو ں اور ضرورت مندو ں کے کام آ نا ایک انسان دوست عمل ہے اورمال دار لو گو ں کو ایسے نیک کا موں میں پیش پیش رہنا چاہیے ۔البتہ اس نیک عملی کے زیرسا یہ ان لوگوں کی قطعی حوصلہ افزائی نہیں ہو نی چاہیے جو جان بوجھ کر محنت و مشقت سے جی چرانے کا گناہ کر تے ہیں ۔ ان لوگوں کی حمیت وغیرت چونکہ مر چکی ہوتی ہے ، اس لئے اوروں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے میں انہیں کو ئی قباحت نظر نہیں آ تی۔خصو صی طوررمضان کے مبا رک مہینے میں زیادہ تر ان کی پر چھا ئیاں چہا ر سودکھائی دیتی ہے۔ ان کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ یہ بھیک نہیںما نگ رہے بلکہ گویالو گو ں سے ہفتہ وصو لی کر رہے ہیں۔ غیر ریا ستی بھک منگو ں کے بارے میں عوام الناس کی یہ شکایتیں بھی توجہ طلب ہیں کہ یہ سما ج میں اخلا قی برائیاں اور نشہ بازی پھیلانے کا مو جب اورمو زی بیما ریوں کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔ ان کے گندے رہن سہن اور مر یضا نہ معمو لات کو میونسپل کا رپو ریشن کے ہیلتھ آ فسر کیو ں نظر انداز کر تاہے ،وہ بھی اپنے اندر ایک چیستا ں ہے۔ حا صل بحث یہ کہ سماجی فلاح وبہبود کے نقطہ نظر سے پیشہ ور گدا گروںکی اَن دیکھی نہ کی جا ئے بلکہ کشمیر میں ان کے روز افزوں اضافے پر روک لگا ئی جائے۔ البتہ حقیقی طور مدد کے مستحق امداد مقامی محتاجوں کے سر پر چھت، بدن پر کپڑے اور پیٹ میںروٹی کے واسطے معقو ل بندو بست کر نے سے قطعاً گریز نہ کیاجائے۔ اس کار خیر میں مساجد کمیٹیوں ، محلہ انجمنوں ، فلاحی اداروں،مخیر حضرات کو اسلامی قواعد وضوابط کے تحت اپنے عطیات اورمال و جنس سے حقیقی محتاجوں کی بھر پور اور بے لوث مدد کرنے میں آگے آگے رہنا چاہیے۔اس حو الے سے سماج بہبود محکمہ کو بھی اپنا فرض منصبی ادا کر نے میں ہراول دستے کاکام کر نا چاہیے۔ عام لو گو ںپر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترجیحی طور اپنے محتاج رشتہ داروں ، مختلف خرچیلی بیماریوں میں مبتلا مریضوں ، عام غرباء ، مستند یتیم خانوں اور معقول خیراتی اداروں کی دل کھو ل کر مدد کر کے نیکیاں کمائیں ۔البتہ ہر صاحب ِ دل فرد کو ان نکات کا بھی خاص خیال رکھنا چا ہیے کہ کہیںکوئی پیشہ ور بھکا ری ،غیر مستحق افرادیاجعلی خیراتی ادارہ اُس کے نیک جذبات کا استحصال تو نہیں کر رہاہے ، کہیں وہ کسی کی دل کھول کر مالی امداد کر تے ہوئے اپنے بھو لے پن کے سبب ٹھگا تو نہیں جارہاہے ، یا کسی کے کشکولِ گدائی بھر کر وہ نادانستہ طورمعاشرے میں ایک غلط اور نا روا کام کو فروغ دینے کا موجب تو نہیں بن رہاہے ؟