جہاں دیدہ، مفکرین، دانش ور اور علماء کے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اسفار کے مشاہدات قلم بند کریں اور لوگوں تک پہنچائیں تو بات سمجھ میں آنے والی ہے لیکن میں اپنی ذات کی طرف نظر دوڑاؤں تو اپنا سفر نامہ لکھنے کا خیال بھی خبط معلوم ہوتا ہے۔سابق مفتی اعظم پاکستان ، صاحبِ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ؒنے کسی جگہ لکھا ہے کہ اگر مچھر ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرے تو اس کا سفر نامہ کون لکھے یا کیوں لکھے لیکن ایک ذوق اور یادگار لمحات کو محفوظ کرنے کا ہی جذبہ کارفرما ہے کہ کچھ حسین یادوں کو سپردِ قرطاس کرتا ہوں۔حکیم الامت ، شاعراسلام علامہ اقبال ؒکا ایک شعر ہے ؎
کھول آنکھ، زمین دیکھ ،فلک دیکھ، فضادیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
علامہ نے اس شعر میں مظاہرِ کائنات کو غور سے دیکھنے کی بات کہی ہے۔ کیوں کہ جب انسان شعوری طور پر ان مظاہر پر غور کرتا ہے تو اس پر یہ حقیقت الم نشرح ہوجاتی ہے کہ اس کائنات کی آرائش و زیبائش کرنے والا ایک ہی خالق ہے، ایک ہی مالک ہے اور ایک ہی حاکم ہے جو بہت ہی جمیل ہے۔ انسان جب کسی خوب صورت مصوّری(painting) کو دیکھتا ہے تو فوراً اس کا دل مچلتا ہے کہ مصور(painter) کے ہاتھوں کو چوم لے کیوں کہ یہ مصور کے تخیل کا کمال ہے جس نے قلب ونظر کو متاثر کرنے والی مصوری کو تخلیق کیا۔ اسی طرح اس کائنات کا فقید المثال توازن، رعنائی اورخوب صورتی تو درحقیقت صانع کی کارفرمائی ہے۔ لہٰذا صحت افزاء مقامات، خوب صورت مناظر اور جاذب نظر جگہوں کو دیکھ کر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا نقش قائم ہونا چاہیے اور اس کی زبان اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل سے رطب اللسان ہونی چاہیے۔ اگر اس داعیہ کے تحت سیر و تفریح کو ترتیب دیا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی مضبوطی کا سبب بنے گا۔ ان شاء اللہ۔
آمدم بر سر مطلب،اس دن حسین جگہوں کی طرف رخ کرنے کے سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے ہم (برادر سلیم ، برادر یونس ، برادر ماجد اور راقم السطور واضح رہے کہ برادر نثار نے ہمیں بعد میں جوائن کیا) نے اس سال پہلگام جانے کا پروگرام بنایا۔ سنیچر چوں کہ ورکنگ ڈے تھا، لہٰذا ہمیں اپنے اوقات کار کو اس طرح manageکرنا پڑا کہ تمام برادران تین بجے تک اپنی مشغولیات سے فراغت حاصل کریں۔ تاہم برادر سلیم دفتر میں چھٹی ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی تھے۔ سیکر ٹریٹ میں ہفتہ میں پانچ دن کام ہوتا ہے اور سنیچر اور اتوار دفتر بند رہتے ہیں۔ماجد بھائی کو بھی اگر چہ اس دن کہیں جانا تھا تاہم اس نے پروگرام کی وجہ سے جانا ملتوی کیا تھا۔ یونس بھائی اور راقم اسکول گئے تھے لیکن دن کے ایک بجے ہی میں اسکول سے نکل گیا تاکہ سفر کی تیاریاں مکمل کرلوں اور میں نے بالگاڑدن آفس پر محترم نذیر گگرو صاحب سے پیشگی اجاز مانگی تھی کہ میں آج آفس نہیں آسکوں گا۔برادر نثار صاحب کو اس دن ڈیوٹی پر جانا تھا،زبردست اصرار کے باوجود وہ دفتر سے چھٹی نہ لے سکے، لہٰذا ان کی شمولیت کی ہم نے یہ ترکیب نکالی کہ وہ اتوار صبح فجر کے معاًبعد گھر سے نکلیں گے اور بذریعہ سومو وہ ہمیں پہلگام میں جوائن کریں گے۔ سلیم صاحب نے تاکید کی تھی کہ ہمیں ہر حال میں ڈھائی بجے نکلنا ہے کیوں کہ مسافت کافی ہے اور جنوبی کشمیر کے حالات بھی ۲۰۱۶ سے متواتر خراب چلے آرہے ہیں۔ فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم آرائیاں مسلسل ہورہی ہیں۔ جنوب کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جگہ جگہ ناکے اور راہ گیروں کی جامہ تلاشیاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ لوگوں کے شناختی کارڑ باریک بینی سے چیک کیے جاتے ہیں۔ اور ٹرانسپورٹ کی بھی سختی سے تلاشی لی جاتی ہے۔ لہٰذا سلیم صاحب کا فرمانا بجا تھا لیکن کوشش کے باوصف ہمیں نکلنے میں تاخیر ہوئی۔ آج معمول سے ہٹ کر ہم ماروتی کار میں جانے کے بجائے ماجد بھائی کی حال ہی میں خریدی گئیbrand new echo گاڑی میں سفر کو نکلے۔ برادر سلیم وقت پر زکورہ سے فتح کدل پہنچے۔انہوں نے اپنی پلسر بائیک ہمارے صحن میں رکھی۔ اگرچہ یونس بھائی کو تیار ہونے میں کافی وقت لگی جس کا اثر سلیم صاحب کے چہرے پر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ اس دیری پر کافی شاکی تھے اوربرادر یونس کا نام لے کر انہیںکوس سنا رہے تھے۔بہر حال تقریباً چار بجے ہم گاڑی میں بیٹھ کر پہلگام کی اور محو سفر ہوئے۔
حبہ کدل ، جہانگیر چوک ،بٹہ مالو سے ہوتے ہوئے ہم نوگام بائی پاس چوراہیں پر پہنچے۔ماجد بھائی کو کسی خریدار نے آٹھ ہزارروپے کی چیک دی تھی جس کو کیش کرانا مطلوب تھا۔ نوگام بائی پاس پر جموں کشمیر بینک کی ایک شاخ ہے۔ ماجد بھائی نے مذکورہ بینک سے چیک کو کیش کیا اور ہم لوگ واپس گاڑی میں سوار ہوکر جانبِ سفر ہوئے۔ موسم خوش گوار تھا۔ نیلگوں آسمان پر اَبر کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ سورج اور بادل ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ ماجد بھی کسی عجلت کے بغیر آرام سے گاڑی چلا رہے تھے۔ہم لوگ کبھی کسی سنجید ہ موضوع پر گفت گو کررہے تھے تو کبھی مزاحیہ باتوں سے محفل زعفرانِ زار بن رہی تھی۔بہرحال ہم نوگام ریلوے ٹرمنل پر پہنچے جہاں سے دائیں جانب نئی شاہراہ کا آغاز ہوتا ہے۔اس سے قبل بالکل سیدھے جاکر اتھواجن سے ہوتے ہوئے پھر پانپور سے پہلگام کا سفر کرتے تھے۔ تاہم نئی شاہراہ سے سفر آسان اور قلیل مدت میں طے ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کا اراداہ پہلگام جانے کا ہو تو اسی راستے کو ترجیح دیں۔ شاہراہ گاڑی کی رفتار بڑھانے کی جیسے خود ہی دعوت دے رہی تھی۔ ماجد بھائی نے گاڑی کی رفتار بہت تیز کردی۔ تقریبا ۱۲۰میل فی کلومیٹر رفتار سے گاڑی شاہراہ پر دور رہی تھی۔ اتنی تیز رفتار سے ڈر بھی محسوس ہورہا تھا کہ خدانخواستہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ پیش آئے۔ تاہم شاہراہ پر گاڑی تیز چلانی بھی ضروری ہے۔ میری رائے میں شاہراہ پر سست رفتار ی سے ہی حادثات پیش آنے کازیادہ خدشہ ہوتا ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ شاہراہ نہایت کشادہ بنائی گئی ہے جس پرڈرائیور حضرات بھی مزے لے لے کر گاڑیوں کو سبک رفتاری سے چلاتے ہیں۔شاہراہ پر جگہ جگہ سنگ ہائے میل (mile stones) اور کتبے لگائے گئے ہیں جن پر ان علاقوں کے نام کنندہ ہیں۔ ان میں سے کچھ کے نام میں نے اپنے موبائل میں محفوظ کردیے تھے مگر بدقسمتی سے پتہ نہیں وہ کیسے مٹ گئے۔بایں ہمہ ہم نے شاہراہ کا قدرے طویل سفر تیز رفتاری سے مکمل کیا اور بجبہاڑہ پہنچے۔ بجبہاڑہ ہسپتال کے نزدیک کافی رش تھا۔ ہم بری طرح ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ جو گاڑی یا سکوٹر والا جہاں خالی جگہ دیکھ رہا تھا بنا سوچے سمجھے گھسے جارہا تھا جس سے ٹرانسپور ٹ کی نقل و حمل مسدود ہوگئی۔ کشمیر میں ویسے بھی ٹریفک کا نظام ابتری کا شکار ہے۔ منٹوں کا سفر یہاں گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ جگہ جگہ ٹریفک جام کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند سال سے یہاں ٹریفک بہت بڑھ چکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ گنے چنے لوگوں کے پاس ہی اپنا ٹرانسپورٹ ہوا کرتا تھا لیکن آج اکثر لوگوں کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ ہے بلکہ بہت سارے لوگوں کے پاس دو تین گاڑیاں ہوتی ہیں ،جتنے گھر کے افراد اتنی گاڑیاں یا موٹر سائیکل۔ اور سڑکوں کی حالت یہ ہے کہ۴۷ میں جو راستے تھے آج بھی اکثر سڑکیں وہی ہیں جن کو وسعت دینے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔لوگوں میں شعور کی بھی کمی ہے حالاں کہ ریاست کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اسلام نے ہمیں گاڑی چلانے اور راستوں کے اصول بھی بتائے ہیں مگر کوئی عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں۔ اس حوالے سے علمائے کرام، دانش ور اور خطباء حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کریں۔ کچھ عرصہ قبل راقم نے مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب کی ٹریفک کے حوالے سے عمدہ گفتگو سنی تھی جنہوں نے اس مسئلہ کو احسن انداز میں اُجاگرکرنے کی مفید کوشش کی۔چناں چہ پاکستان کے مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس حوالے سے غور طلب باتیں لکھی ہیں ،وہ رقم طراز ہیں:’’اگر ایک شخص سگنل توڑ کر گاڑی آگے لے گیا، یا اس نے کسی ایسی جگہ سامنے والی گاڑی کو اوور ٹیک کیا جہاں ایسا کرنا ممنوع تھا، تو بظاہر تو یہ معمولی سی بے قاعدگی ہے، لیکن درحقیقت اس معمولی سی حرکت میں چار بڑے گناہ جمع ہیں، ایک قانون شکنی، اور حاکم کے جائز حکم کی نافرمانی کا، دوسرے وعدہ خلافی کا، تیسرے کسی کو تکلیف پہنچانے کا، چوتھے سڑک کے ناجائز استعمال کا یہ گناہ ہم دن رات کسی تکلف کے بغیر اپنے دامنوں میں سمیٹ رہے ہیں، اور خیال بھی نہیں آتا کہ ہم سے کوئی گناہ سرزد ہورہاہے۔ پھر بعض اوقات کسی ایک شخص کی بے قاعدگی سینکڑوں انسانوں کا راستہ ہی بالکل بند کردیتی ہے، مثلاً سڑک کے ایک حصے میں اگر کسی وجہ سے ٹریفک رک گیا تو بعض جلد باز لوگ تھوڑے سے انتظار کی زحمت گوارا کرنے کے بجائے سڑک کے اس حصے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جو آنے والے ٹریفک کے لیے مخصوص ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آنے والی گاڑیوں کا راستہ رک جاتا ہے، اور گھنٹوں تک کے لیے ٹریفک اس طرح جام ہوجاتا ہے کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ اس قسم کی بے قاعدگی درحقیقت ’’ فساد فی الارض‘‘ کی تعریف میں آتی ہے، اور سینکڑوں انسانوں کو کرب و عذاب میں مبتلا کرنے کا گناہ اس شخص پر ہے جس نے غلط سمت میں گاڑی لے جاکر اس صورتِ حال سے لوگوں کو دوچار کیا۔ہمارے دین نے ہمیں یہ ساری باتیں بتائی ہیں، ان کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی ہیں، اور وہ تعلیمات عطا کی ہیں جو ہر دور میں سدا بہار ہیں، لیکن ہم نے ان کو سمجھنے سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کے بجائے دین کو صرف مسجد اور مدرسے کی چار دیواری تک محدود کرڈالا۔(ذکرو فکر۔صفحہ نمبر۱۸۷۔۱۸۸)
بہ ہر صورت ہم اس ٹریفک جام سے ’’رینگتے ‘‘ ہوئے نکلے اور کے پی روڑ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہوئے۔راستے میں صرف ایک کسیرے ( copper smith)کی دکان پر ٹھہرے جس کے ساتھ ماجد بھائی کا کچھ لین دین کا معاملہ تھا۔ اسلام آباد میں بازار کی رونق دیکھ کر میں حیران ہوا کہ ایسی رونق تو ہمارے سرینگر کے لال چوک کی نہیں ہوتی۔لوگوں کی آوا جاہی اور خریدو فروخت کا بازار جوبن پر دکھائی دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں اور برکت دے۔ آمین۔۔ اسلام آباد کے لوگوں کے متعلق کچھ منفی باتیں بھی گردش میں رہی ہیں تاہم ان باتوں کو یہاں موضوعِ بحث بنانا مناسب نہیں۔وہاں سے تقریباً ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ہم اکّڑ پارک (akkad park)پہنچے جہاں پہلے ارادہ کیا کہ کچھ دیر پارک کے اندر جائیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے اور شام ہونے کو تھی، لہٰذا اس ارادہ کوترک کیا۔بہر حال مغرب نمازسے کچھ آدھ گھنٹہ قبل ہم پہلگام مین مارکیٹ میں قدم رنجہ ہوئے۔
اس سے قبل پہلگام کی سیر کا موقع زندگی میں دو ہی مرتبہ ملا ہے۔ پہلی مرتبہ غالباً ۲۰۰۰ء میں جب میں دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھا اور پرائیویٹ ٹیوشن کے لیے فتح کدل میں قائم ایک نجی اکیڈمی میں پڑھتاتھا۔ اس اکیڈمی میں ہمارے اسکولtiny tots high school کے ہی زیادہ تر لڑکے اور لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ وہاں پر اساتذہ نے پہلگام جانے کا پروگرام بنایا جس پر تقریباً تمام طلبہ نے جانے کی حامی بھر لی۔ مجھے یاد ہے اْس وقت پہلگام کی ڈیولپمنٹ نہ ہونے کے برابر تھی، صرف قدرتی خوب صورتی تھی۔ آج جس طرح باغات سجائے گئے ہیں ،بچوں کے لیے پارکوں میں مختلف قسم کے جھولے لگائے گئے ہیں اور ایک چڑیا گھر بھی بنایا گیا ہے جس میں بھالو ، چیتاوغیرہ رکھے گئے ہیں۔ان تمام چیزوں کا اْس وقت نام و نشان بھی نہیں تھا۔ بہر حال دوسری مرتبہ۲۰۱۵ء میں کچھ دوستوں کے ہمراہ پہلگام گھومنے آئے تھے۔ امر واقع یہ ہے کہ کشمیر میں جتنے بھی صحت افزاء مقامات ہیں ان میں میری سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ پہلگام ہے۔ کیوں کہ یہاں تفریحِ طبع کے لیے ہر چیز میسر ہے۔ فلک بوس پہاڑ، گھنے دیودار کے درخت، خوب صورت آبشار،لیدر کی حسین، مائل بہ سبز رنگ ندی اور سرسبز باغات غرض خالق کائنات نے اس جگہ کو ہر حیثیت سے نوازا ہے۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)