حالیہ دنوں المناک سڑک حادثات رونماہونے اور حکام کے ٹریفک کے نظام میں بہتری کے دعوئوں کے باوجود ریاست کے پہاڑی علاقوں میں ائورلوڈنگ کا خطرناک کھیل جاری ہے اوراس کے نتیجہ میں آئے روزحادثات کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا اتلاف ہورہاہے ۔یہ ائورلوڈنگ نہ صرف مسافر گاڑیوں بلکہ نجی گاڑیوںمیں بھی دیکھی جارہی ہے اوردوروز قبل ریاسی میں حادثے کاشکار ہونے والی آلٹو کار میں گنجائش سے دوگنازیادہ سواریاں سوار تھیں ۔واضح رہے کہ اس حادثے میں 7افراد لقمہ اجل بنے جبکہ دیگر3شدید زخمی ہوئے ہیں اور کل ملاکر گاڑی میں حادثے کے وقت10افراد سوار تھے جبکہ ایک آلٹو گاڑی میں 5افراد کے بیٹھنے کی ہی گنجائش ہوتی ہے ۔اسی طرح سے اس کے دوسرے روز راجوری میں بھی ایکو گاڑی کو پیش آئے حادثے میں ایک خاتون لقمہ اجل بن گئی جبکہ دیگر آٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ اس گاڑی میں بھی ضرورت سے زیادہ سواریاں سوار تھیں ۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں رونما ہونے والے اکثر حادثات کی وجہ ائولورڈنگ ہی ہوتی ہے اور ان خطوں میں ائورلوڈنگ ایک ایسا مسئلہ بن گیاہے جس سے نمٹنے کیلئے عملی سطح پر کوئی اقدام نہیں کیاجارہا۔حکومت کی طرف سے ائورلوڈنگ اور سڑک حادثات پر قابو پانے کیلئے بڑے بڑے اقدامات کے دعوے کئے جاتے ہیں اور روڈ سیفٹی سے لیکرٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر کارروائیاں ہوتی ہیں جبکہ گزشتہ روز روڈ سیفٹی کیلئے 8کروڑ روپے واگزاربھی کئے گئے ہیں لیکن ان خطوں میں ائورلوڈنگ پر کوئی روک تھام نہیں ہورہی جس کی سب سے بڑی وجہ ٹرانسپورٹ کا ناقص نظام اور مسافر گاڑیوں کاکم ہوناہے ۔بہت بار یہ باتیں بھی سننے میں آئیں کہ دور دراز علاقوں کیلئے سرکاری ٹرانسپورٹ بسیں چلائی جائیں گی مگر پہلے تو اس پر کوئی پیشرفت ہی نہیں ہوپاتی اور اگر کہیں سرکاری گاڑیاں شروع بھی کی گئیں تو یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوا۔ جہاں ملک کی دیگر کئی ریاستوں میں سرکاری ٹرانسپورٹ نظام ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ریڑھ کی ہڈی تصور کیاجاتاہے اور ان ریاستوں میں ٹرانسپورٹ کا زیادہ تر انحصار انہی سرکاری بسوں پر ہوتاہے وہیں ریاست جموں وکشمیر میں یہ نظام پرائیویٹ پبلک ٹرانسپورٹ پر منحصر ہوتاہے اوراسی کی وجہ سے ڈرائیوروں اور مسافرگاڑیوں کے مالکان کی طرف سے من مانی کا مظاہرہ کیاجاتاہے اورمسافروں کو مجبوراًانہی کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کرناپڑتاہے ۔ریاست میں ٹرانسپورٹ کا نظام اس قدر خراب ہے کہ اگر کوئی مسافر گاڑی میں ضرورت سے زیادہ سواریاں بھرنے پر اعتراض کرے تو اسے ڈرائیور یا کنڈیکٹر کی طرف سے فوری طور پر گاڑی سے ہی اترجانے کیلئے کہاجاتاہے ۔یہاں اس بات کا ذکر کرناضروری ہے کہ ریاست کے پہاڑی علاقوں کے لوگ روزگار کی تلاش،ہسپتالوں میں علاج و دیگر کام کاج کیلئے اپنے گھر وں سے تحصیل یا اضلاع کی طرف نکلتے ہیں اور گائوں دیہات سے شہر کو آنے والی ہر ایک گاڑی ائورلوڈ ہوتی ہے اورپھر شام کو واپسی پر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ مسافر گاڑیوں بشمول ٹاٹا سومو ز کی چھتیں بھی مسافروں سے بھری ہوتی ہیں اور کئی مرتبہ تو مسافر پیچھے سیڑھیوں سے بھی لٹک رہے ہوتے ہیں ۔ایسا بھی ہرگزنہیں ہے کہ ہر ایک علاقے کو جانے والی سڑک پر گاڑیوں کی کمی ہو بلکہ ٹاٹاسومو ز نے اس کمی کو کافی حد تک پورا کیاہے لیکن ڈرائیوروں کی من مانی اور گھنٹوں سواریوں کا انتظار ایسے عوامل ہیں جوائورلوڈنگ کا باعث بنتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں عوامی سطح پر ائورلوڈنگ کے خلاف تحریک چلائی جائے وہیں حکام کی طرف سے ضرورت کے مطابق گاڑیوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ من مانی کرنے والے ڈرائیوروں اور مالکان کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہئے تاکہ ائورلوڈنگ کی وجہ سے نہ ہی کسی کا گھر اجڑے اور نہ ہی کوئی زندگی بھر کیلئے معذور بنے ۔