سرینگر// مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کواقامتی اسناد فراہم کرنے کے خلاف وادی میں عوامی غم و غصہ بڑھنے لگا ہے ۔جمعہ کو جہاں مزاحتمی قیادت کی طرف سے احتجاجی جلوس نکالے گئے اور کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے وہیں مین اسٹریم پارٹیوں نے بھی اب حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔جمعہ کو عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر رشید کی سربراہی میں پارٹی کارکنوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی رہائش گاہ کے باہرخیمہ زن ہوکر 48 گھنٹے کا دھرنا شروع کیا۔انجینئر رشید نے جموں میں مقیم مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کو اقامتی اسناد جاری کرنے کے خلاف وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر48گھنٹے کا دھرنا دینے کا گزشتہ روز ہی اعلان کیا تھا جس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جمعہ کو صبح11بجے انجینئر رشیدکی قیادت میں پارٹی کارکنان گپکار روڑ پر واقع وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر نمودار ہوئے اور دھرنے پر بیٹھ گئے۔انجینئر رشید کے دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے اگرچہ صبح سے ہی گپکار روڑ پر پولیس کے اضافے دستے تعینات کئے گئے تھے تاہم انجینئر رشیداور پارٹی کارکنان نے پولیس کا چکمہ دینے کیلئے آٹو رکھشاﺅں کا استعمال کیا اور ساڑھے11بجے وزیر اعلیٰ کی رہایش گاہ کے باہر نمودار ہوئے اور سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر دھرنا دیا۔ دھرنے میں شامل شرکاءنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر تھے جن پر رفیوجیوں کو واپس پاکستان بھیجنے یا پھر کسی اور ریاست میں بسانے کے مطالبات درج تھے ۔ اس موقعہ پر انجینئر رشید نےنامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ”اگر واقعی نئی دلی کو ان رفیوجیوں کی فکر ہے تو اُ سے چاہئے کہ وہ پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے انہیں یا تو واپس پاکستان بھیجے یا پھر ہندوستان کی کسی اور ریاست میں انہیں بسانے کا انتظام کرے کیونکہ ایک متنازعہ علاقہ میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانا کسی بھی طرح سے جائز نہیں“ ۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا” پوچھا جا سکتا ہے اگر چالیس لاکھ افغان مہاجرین واپس پاکستان جا سکتے ہیں تو وہی فارمولہ استعمال کرکے مغربی پاکستان کے رفیوجیوں کو واپس اپنے گھروں کو کیوں نہیں بھیجا جا سکتا“۔انجینئر رشید نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے کہا کہ وہ ہر گز یہ نہ سمجھے کہ کشمیری نئی دلی کے دباﺅ میں آکر اُن کے آگے سرینڈر کریں گے بلکہ آہستہ آہستہ جموں خطہ کے لوگ بھی سمجھ رہے ہیں کہ ان غیر ریاستی باشندوں کو شہریت کے حقوق دینا پوری