سو سونار کی ایک لوہار کی۔۔۔پرینکا گاندھی کو کانگریس کا جنرل سکریٹری‘ مشرقی اترپردیش کی ذمہ داری سونپتے ہوئے راہول گاندھی یا پس پردہ سونیا گاندھی نے اس محاورہ کو عمل جامہ پہنایا۔ پرینکا گاندھی کا کانگریس کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے عوام کو تب سے ہی انتظار تھا جب سے وہ منظر عام پر آنے لگی تھیں بلکہ باقاعدہ طور پرینکا کے حق میں ایک لابی نے بھی بہت پہلے سے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ بار بار مطالبہ کیا جارہا تھا کہ پرینکا گاندھی کو پارٹی کی اہم ذمہ داری سونپی جائے‘ مگر مصلحتاً انہیں میدان میں نہیں اُتارا گیا۔ اب جب کہ 2019 کے الیکشن راہول گاندھی کے ساتھ ساتھ کانگریس کے لئے فیصلہ کن ہوچکے ہیں‘ پرینکا گاندھی کو پارٹی کی اہم ترین ذمہ داری دیتے ہوئے جہاں کانگریس میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا‘ وہیں اپوزیشن بالخصوص بی جے پی کو للکارا کہ آنے والے انتخابات میں وہ ’’آر پار‘‘ کی لڑائی لڑنے والے ہیں۔ بی جے پی کے بعض قائدین نے اس فیصلہ کو راہول گاندھی کی ناکامی کا نتیجہ قرار دیا ہے تاہم کانگریس حلقوں میں اسے تاریخ ساز اور جرأت مندانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ پرینکا گاندھی مشرقی یوپی کی انچارج بھی ہوںگی اور قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ وارانسی سے مودی کے خلاف مقابلہ بھی کریںگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو واقعی بہت ہی ہمت والی بات ہے کیوں کہ مودی کو وارانسی سے ہرانا آسان نہیں ہے‘ اگر ایس پی‘ بی ایس پی کے ساتھ مل کر کانگریس مقابلہ کرتی ہے تو پھر بھی کامیابی کے آثار نظر آسکتے ہیں۔
پرینکا گاندھی‘ نہرو خاندان کی گیارہویں رُکن ہیں جو عملی سیاست میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس خاندان سے عملی سیاست میں قدم رکھنے والی وجئے لکشمی پنڈت، اندرا گاندھی‘ منیکا گاندھی اور سونیا گاندھی کے بعد وہ پانچویں خاتون ہیں۔ پنڈت نہرو کی بہن وجئے لکشمی پنڈت امریکہ‘ سویت یونین میں ہندوستان کی سفیر، لندن میں ہائی کمشنر، اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کی صدر رہ چکی تھیں۔ اندرا گاندھی کو وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سونیا گاندھی طویل عرصہ تک کانگریس کی صدر رہیں اور ایک معنوں میں پس پردہ وہی وزیر اعظم تھیں۔ حکومت کا ریموٹ کنٹرول ان ہی کے پاس رہا۔مینکا گاندھی جو سنجے گاندھی کی بیوہ اور سونیا گاندھی کی جیٹھانی ‘ اندرا گاندھی سے ساس بہو کے جھگڑوں کی وجہ سے علیحدہ ہوگئی تھیں۔ وہ بی جے پی سے وابستہ رہیں اور قلمدان وزارت بھی ان کے پاس ہے۔ ان کے بیٹے ورون گاندھی بھی بی جے پی کے ایم پی ہیں۔ یوں تو نہرو گاندھی خاندان میں وجئے لکشمی پنڈت کی بہن کرشنا ہوتی سنگھ کا بھی ذکر ملتا ہے جو ایک رائٹر تھیں۔ رامیشوری نہرو (1886-1966ء) کا بھی جنہوں نے موتی لعل نہرو کے بھانجے برج لعل نہرو سے شادی کی تھی۔ ان کے بیٹے برج کمار نہرو سیول سرونٹ اور کئی ریاستوں کے گورنر رہے۔اوما نہرو بھی پسماندہ طبقات کے لئے جدوجہد کیلئے مشہور رہیں۔ وجئے لکشمی پنڈت کی بیٹی نائنترا سہگل اور پوتری گیتا سہگل‘ رائٹرس‘ حقوق نسواں کی علمبرداروں کی حیثیت سے یاد کی جاتی ہیں۔ اب پرینکا گاندھی ایک اور اضافہ ہے۔
پرینکا گاندھی جن میں اندرا گاندھی کی جھلک نظر آتی ہے‘ ابتداء ہی سے اپنی ماں سونیا گاندھی اور بھائی راہول گاندھی کے ساتھ انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں۔ انہوں نے رابرٹ وڈرا سے شادی کی جو ہیں تو اسکاٹش مگر ان کی جڑیں مرادآباد سے ملتی ہیں۔ وہ مصنوعی آرائش و زیبائش کے ساز و سامان، جویلری کے تاجر ہیں اور 2.1بلین ڈالرس کے مالک ہیں۔پرینکا گاندھی نے بچپن میں اپنے تایا سنجے گاندھی‘ اپنی دادی اندرا گاندھی اور والد راجیو گاندھی کی الم ناک موت دیکھی۔ بچپن سے ہی انہیں غم، ڈر اور خوف ملا۔ وہ اور راہول ایک طرح سے اپنی قیام گاہ میں سیکورٹی کے نام پر گویاقید میں تھے، جہاں کسی کو آنے جانے کی اجازت شاید نہیں تھی۔ اس پس منظر میں یہ پرینکا کی اسکول کی ساتھی مشیل وڈرا کے بھائی رابرٹ وڈرا سے ان کی دوستی ہوئی جو ان کی کوٹھی میں بھی آنے جانے لگے۔ راہول گاندھی کے بھی دوست بن گئے۔ یہ دوستی ازواجی بندھنوں میں بندھ گئی۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ پرینکا کے خاندان کے کئی ارکان کی موت غیر طبعی ہوئی جیسے سنجے گاندھی جون 1980ء میں ہیلی کاپٹر کریش میں ہلاک ہوگئے۔ اکتوبر 1984ء میں اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ سیکورٹی گارڈز نے آپریشن بلیو اسٹار کا انتقام لیتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ 21؍مئی 1991ء کو راجیو گاندھی تاملناڈو میں خودکش بمبار کے حملہ میں ہلاک ہوگئے۔ رابرٹ وڈرا کے ساتھ بھی ایسے ہی المیے ہیں۔ اُترپردیش کو ہندوستان کا دل کہا جاتا ہے۔ 2014ء میں بی جے پی نے مودی کی قیادت میں یہاں سے 72 نشتسوں پر کامیابی حاصل کی۔ پرینکا مشرقی اور جیوتیر آدتیہ پائلٹ کو مغربی دہلی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ دیکھنا ہے کہ کانگریس تنہا بی جے پی کا مقابلہ کرسکے گی یا نہیں۔ اگر کانگریس‘ ایس پی، بی ایس پی میں اب بھی اتحاد ہوجاتا ہے تو بی جے پی کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ نریندر مودی نے تیزی سے اپنے مد مقابل اُبھرتے ہوئے ہندو واہنی کے صدریوگی آدتیہ ناتھ کو اُترپردیش کا چیف منسٹر مقرر کرکے انہیں مستقبل کا وزیر اعظم بننے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ آدتیہ ناتھ کے دور میں اُترپردیش کی شبیہ ملک اور بیرون ملک مسخ ہوگئی ہے کیوں کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال آئے دن بگڑتی جارہی ہے۔ ہجومی تشدد کے واقعات میں پہلے بیف کے نام پر مسلمان مارے گئے‘ پھر اسی ہجومی تشدد نے ایک پولیس عہدیدار کی بھی جان لی جس سے اُترپردیش کے چہرے پر سیاہی مل دی گئی ہے۔ گورکھپور چلڈرنس ہاسپٹل میں آکسیجن سلینڈرس کی کمی میں کمسن بچوں کی اموات سے بھی آدتیہ ناتھ کا امیج متاثر ہوا ہے۔ کئی محاذوں پر وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ان سے عام آدمی تو بدظن ہیں ہی خود ہندو سماج بھی خوش نہیں ہے۔ اُدھررام مندر کے مطالبے میں شدت پیدا ہورہی ہے‘ سادھو سنتوں نے کڑی تنقیدیں کی اور یوگی سری رام کا بلند ترین مجسمہ نصب کرنے کے وعدے پر اٹل ہیں۔ پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں عوام نے بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد یہ امکانات نظر آرہے تھے کہ الیکشن 2019ء میں اپوزیشن اتحاد مرکز میں این ڈی اے سے اقتدار چھین لینے میں کامیاب ہوگا مگر ابھی اپوزیشن میں انتشار پایا جاتا ہے۔ ایک طرف ممتابنرجی اور 21اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد‘ دوسری طرف ایس پی بی ایس پی کا اتحاد تیسری طرف کے سی آر کی قیادت میں فیڈرل فرنٹ‘ یہ سب آپس میں لڑتے رہیںگے۔ تینوں محاذوں میں کانگریس شامل نہیں ہے جس سے کانگریس کو بھی نقصان ہوگا اور اپوزیشن کو بھی۔
رابطہ : ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226