اردو دنیا میں پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک ایسی دلآویز،ہمہ جہت،پر وقار اور پر کشش شخصیت ہیں کہ جنھوں نے عالمی سطح پہ اردوکے فروغ اور اس کی بقا کے لیے پورے جوش وجذبے کے ساتھ کام کیاہے۔ ایک ماہر لسانیات ہونے کی حیثیت سے وہ نہ صرف اردو زبان کے ماہر ہیں بلکہ ہندی ،انگریزی اور فارسی کے علاوہ سنسکرت بھی جانتے ہیں۔ظاہرہے اتنی اہم زبانوں کا عالم اپنے آپ میں ماہر ادبیات نہیں تو اور کیا ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ ،11فروری1930ء کو دکی بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ان کے والدمحتر م کا نام شری دھرم چند نارنگ تھااور والدہ محترمہ کا نام شریمتی ٹیکا بائی تھا۔تقسیم ہند کے المناک حالات وواقعات میںاپنے مادر وطن دکی( بلوچستان)کو خیر باد کہہ کر دہلی چلے آئے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ابتدائی تعلیم تو آبائی وطن دکی میں ہوئی مگر 1947میں دہلی آئے تو یہاں انھوں نے باقاعدہ طور پر دہلی یونیورسٹی کے تحت اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔علاوہ اذیں پنجاب یونیورسٹی سے آنرز ان فارسی اور سمعیات و تشکیلی گرائمر جیسے مشکل ترین موضوع پر خصوصی کورس کی سند بھی حاصل کی۔
گوپی چند نارنگ کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔ان کا پہلا افسانہ کوئٹہ کے ہفتہ وار اخبارــ’’بلوچستان سماچار‘‘میں شائع ہوا ۔ا س کے علاوہ کچھ اوربھی کہانیاں شائع ہوئیں۔دہلی آکر وہ ’’ریاست‘‘ اور’’ بیسویں صدی‘‘جیسے رسائل میں لکھتے رہے لیکن بہت جلد وہ افسانہ نگاری کی حسیں وادی سے نکل کر تحقیق و تنقید کی سنگلاخ اور دشت ویران میں صحرا نوردی میں لگے۔چنانچہ’’نگار‘‘ نوائے ادب‘‘اور آجکل‘‘جیسے معیاری رسائل وجرائد میں ان کے سنجیدہ مضامین شائع ہوئے۔1953میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کا پہلا مضموں ’’نگار‘‘ میں اردو کے معتبر اور مشہور و معروف طنزیہ ومزاحیہ شاعر اکبر الہٰ آ بادی پر شائع ہوا،اس کے بعد ان کی قوت تحریر کادریا اس طرح بہہ نکلا کہ مسلسل طور پر آج تک نہ جانے کتنے تشنگان ادب کو سیراب کرچکے ہیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ 1958میں دہلی یونیورسٹی میں لیکچرر تعینات ہوئے کہ جہاں ان کی ادبی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے اور سنورنے کا موقع ملا۔1963ء سے1970ء تک وسکانسن اور مینی سوٹا میں بطور وزٹینگ پروفیسر رہے کہ جہاں انھوں نے نہ صرف لسانیات کی تربیت مکمل کی بلکہ مغربی علوم وفنون اور فکر وفلسفے کو بھی قریب سے جاننے کا موقعہ ملا۔1970میں وسکانسن کو خیر باد کہنے کے بعددہلی آئے،1974میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے،اس کے بعد 1985میں دہلی یونیورسٹی میںبحیثیت پروفیسر کام کیا۔اردو زبان وادب سے بے پناہ لگاوہونے کی وجہ سے پروفیسر نارنگ نے اردو کی جو خد مات انجام دی ہیں،وہ قابل رشک اور ناقابل فراموش ہیں۔تقریبااسّی کتابوں کے مصنف اور مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ انھوں نے دیگر بہت سی تعلیمی،ثقافتی اور سماجی ذمہ داریوں کو بھی بڑی نفاست پسندی اور خوش اسلوبی سے نبھایا ہے اور آ ج بھی جب کہ وہ اسّی برس کے ہورہے ہیں برابر علمی وادبی سرگرمیوںمیں مصروف ہیں۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اردو کی بقاء و ترویج واشاعت کے لئے علمی وادبی طور پر شب وروز کوشاں رہتے ہیں۔یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی سوچ وفکر لامحدود ہے۔وہ پورے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے پہ نظر رکھنے والے اردو کے واحد بے لوث مرد مجاہد ہیںکہ جنھوں نے نہ صرف ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میںاردو زبان وادب سے متعلق لیکچر ز دیئے بلکہ امریکہ،کنیڈا،برطانیہ،چیکوسلواکیہ،جرمنی،ناروے،سویت روس اور دنیا کے کئی ملکوں کی یونیورسٹیوںاور علمی اداروں میںاردو کی شمع روشن کرنے میںنمایاں کردار ادا کیا ہے۔سیفی سرونجی نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اردو خدمات کے اعتراف میں ایک جگہ بالکل صحیح لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’پروفیسر گوپی چند نارنگ ہمارے عہد کے ان نامور دانشور نقادوں ،محققوں میں شمار ہوتے ہیںکہ جن کے کاموں کا احاطہ کرنا کسی ایک اسکالر کے بس کی بات نہیں ہے۔ان کی پوری زندگی اردو زبان وادب کی خدمت میں گزری ہے۔ان کی اردو زبان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ تحریر ہو یا تقریر ان کی زبان سے جو پہلا لفظ نکلتا ہے وہ اردو ہے۔اردو زبان وادب کا ایسا عاشق اردو کی تاریخ میں نہیں ملے گا کہ جس کا ہر لمحہ اردو کی خدمت میں گزرتا ہو۔ وہ دن رات اردو کے بارے میں سوچتے ہیں،اردو میں لکھتے ہیں اور اردو زبان میں ہی تقریر کرتے ہیں۔اردو زبان ان کے ذہن ودل پر ایسی چھائی کہ اپنی ساری زندگی اس کے لیے صرف کردی ۔یوں تو ان کی کئی کتابیںایسی ہیںکہ جن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ،خاص طور پر ،فکشن شعریات تشکیل وتنقید،اردو غزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب،اردو مثنویاں،جدیدیت کے بعد،ساختیات،پس ساختیات ،ترقی پسندی، جدیدیت،مابعد جدیدت، ہندوستان کی تحریک آزادی،دیکھنا تقریر کی لذت وغیرہ ایسی کتابیں ہیںجن کی اردو ادب میں نہ صرف دھاک ہے بلکہ نارنگ کی شخصیت اور ان کی اردو زبان وادب سے محبت کے لیے ہمیشہ ان کا اردو زبان کا وقار بڑھاتی رہیں گی‘‘ (سہ ماہی’’ انتساب‘‘مدیر ،سیفی سرونجی۔ شمارہ جولائی تاستمبر2011ص35)
سیفی سرونجی نے بڑے مدلل انداز میںگوپی چند نارنگ کی ادبی شخصیت کے جن تابناک پہلووں کی نشاندہی کی ہے وہ حق بجانب ہے۔ پروفیسر نارنگ کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے عالمی سطح پہ اردو کو متعارف کرانے اور اس کا معیار بلند کرنے اور وقار بخشنے میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔مزید برآں اپنی بہترین تحریروں اور سحر انگیز تقریروں سے اردو نہ جاننے والوں کو اردو زبان سیکھنے پر آمادہ کیا ہے۔اپنے ملک ہندوستان کی قدیم وجدید تہذیب وثقافت اور شعر وادب سے انھیں گہری واقفیت حاصل ہے۔چنانچہ ان کے موضوعات میں تنّو ع اور فکری وسعت کے ساتھ ساتھ معلومات کا بیش بہا خزانہ پایا جاتا ہے۔بلاشبہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو ادب کی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیںکہ جن کی ادبی نگارشات لازوال،لامثال اور باکمال ہیں۔یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ان سے پہلے اردو ادب پہ ایک طرح کا جمود سا طاری ہوا تھا،انھوں نے زبان وادب کو نئی فکر،نئے نظریات اور نئے ادبی رجحانات سے روشناس کرایا ہے اور قدامت پسندوں کو یہ باور کرایا کہ پتھر نہیں بدلتے باقی ہر چیز گردش ایام میں بدل جاتی ہے۔چنانچہ انھوں نے جہاں تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی سطح پر نئی روش اختیار کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت تصور کیا، وہیں ادب کی صحت مند اور اعلیٰ اقدار کو بھی ملحوظ نظر رکھا ۔ادب،سماج اور قاری پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نزدیک اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ادب سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے جو ہماری خارجی وداخلی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔سماج کی اپنی قدریں،فکریں اور روایات ہوتی ہیں جو تغیر پذیر رہتی ہیں۔قاری وہ فرد واحد ہے جونہ صرف ادب وسماج کا چشم دید گواہ کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اپنا رد عمل بھی ظاہر کرتا ہے۔اس تثلیث کے تناظر میں اگر دیکھیں تو پروفیسر گوپی چند نارنگ کانظریاتی کینوس اس قدر وسیع معلوم ہوتا ہے کہ جو ماضی ،حال اور مستقبل کو محیط ہے۔جب ہم پروفیسر نارنگ کی تحقیقی وتنقیدی کتابوں کے عنوانات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے نہایت محنت ود قت طلب موضوعات پر تحقیق وتنقید کے تمام بنیادی لوازمات اور طریقۂ کار کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ان کی بصیرت افروز تصانیف کے عنوانات پر دھیان دیں تاکہ یہ بات پا یۂ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس باکمال قلم کار اور سمندر سوچ محقق،نقاد ماہر لسانیات اور دانشور نے کس عرق ریزی سے کن موضوعات پر اپنی تصانیف کو منظر عام پر لایا ہے۔ آپ کی بیش قیمت کتابوں کے عنوانات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے قدیم وجدید اردو ادب کاپورا منظر نامہ پیش کردیا ہے۔گویا ادب کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس کا انھوں نے مطالعہ نہ کیا ہو۔دراصل اردو زبان وادب کے تئیںان کا ذوق وشوق انھیں ہر وقت سر گرم عمل رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔کثیر مطالعے اور گہرے مشاہدے نے ان میںفکر کی بلندی،اسلوب بیان میں دلکشی اور اپنے مافی الضّمیر کے اظہار کے لیے استدلالی طرز اظہار کی خوبی پیداکردی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پروفیسر نارنگ کی تحریروں اور تقریروں سے ہر کوئی محظوظ ہوتا ہے۔وہ زبان کی اہمیت وافادیت اور اس کے صحیح برتاؤ سے بخوبی واقف ہیں اور پھر اتنا ہی نہیںبلکہ وہ تو اپنے جذبات واحساسات،افکار ونظریات یا تجربات ومشاہدات کی افہام و تفہیم میں نہایت متانت اور وسیع النّظری سے کام لیتے ہیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کی مرتب شدہ کتابوں پر اگر نظر ڈالیںتو ان کے عنوانات بھی قاری کے لیے دلچسپی اور تنّوع کا عنصر لیے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔یہ تمام کتابیںپروفیسر نارنگ کی اردو خد مات کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں۔ان کی کتابوں کے عنوانات ہی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے جن عنوانات پر یہ کتابیں ترتیب دی ہیں۔وہ انتہائی اہم اور معلو مات افزاء ہیں جو زبان وادب کی اہم شخصیات،ان کے ادبی کارناموں اور زبان وادب کے کئی پیچیدہ مسائل کاحل پیش کرتے ہیں۔ زندگی کے گوناگوں مسائل میں الجھے رہنے کے باوجود پروفیسر موصوف نے کس طرح ان تمام ادبی سرگرمیوں کو قائم رکھا ہوگا، یہ بات بھی ان کی شخصیت کی برتری پر دلالت کر تی ہے۔معلو م ہوتا ہے پروفیسر نارنگ میں قدرت نے اردو زبان وادب کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔اسی لیے انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اردو کی خد مت کے لیے وقف کردیا ہے۔اردو کی نئی نسل انتہائی کسل مندہے جو اردو نہ تو صحیح لکھتی ہے ،نہ پڑھتی اور نہ صحیح بولتی ہے۔نمود ونمائش اور جھوٹی شہرت کی دلدادہ یہ نسل بس ملازمت حاصل کرنے کی حد تک اردو سیکھتی ہے۔نئی نسل کے لیے گوپی چند نارنگ کے ادبی کارنامے اور ان کی پروقار شخصیت آفتاب ومہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔اپنی ملازمت کے دوران انھوں نے اردو کی اہم شخصیات اور رجحانات پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے سیمینار ،مذاکرے ،مباحثے ،کانفرنسیں اور ورکشاپس منعقد کروائے جو اپنی مثال آپ ہیں ۔ نند کشور وکرم کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے پروفیسر نارنگ نے ترقی پسند تحریک،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بارے میںکس خوب صورت اسلوب اور عالمانہ و مفکرانہ انداز میںجواب دیا ہے ،وہ قابل ملاحظہ ہے ۔سوال: ترقی پسند تحریک لگ بھگ پون صدی کے طویل عرصے تک اردو ادب پر چھائی رہی،مگر اس کے بعد آنے والی تحریکیں جدیدیت،مابعدجدیدیت اور پس ساختیات وغیرہ میںسے کسی بھی تحریک کا دیر پااثر نہیں ہوا،آخرڪ کیوں؟ـــ‘‘
جواب:ترقی پسند تحریک کے اثرات کا زمانہ1935سے لگ بھگ60۔1955تک ہے۔اس کی بنیاد مارکسزم پر ہے لیکن زیادہ اثرات روس کے سویت اشتراکی نظام کے حوالے سے تھے۔ترقی پسند تحریک ہندوستان کی تحریک آزادی کی ہم رکاب تھی۔جس کے نہایت گہرےاثرات ادب پر مرتب ہوئے اور ادب کی مقبولیت اور اثر پذیری میں اضافہ ہوا۔سیاسی نوعیت کے سوالQuit India movementکے زمانے ہی سے اٹھنے لگے تھے۔ادیب کی ذہنی آزادی اور ادب کی نوعیت و ماہیت کے سوالات کا زمانہ بعد کا ہے۔تاہم چونکہ ترقی پسندی کا ایجنڈا سماج کی فلاح وبہبود،عوام دوستی۔انسان دوستی Anti imperialismاور Anti Colonialismپر مشتمل تھا۔اس ایجنڈے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔سوشلزم کی تعبیریں اور معنویتیں بدلتی رہی ہیں،اس سے مارکسیت کے عوام دوست جو ہر کار لازم ہیں آتا۔ادب اورپروپیگنڈے میں حد امتیاز قائم کرنے کے لیے جدیدیت نے آزادیء فکراور ادبی قدر کا سوال اٹھایاجو کم اہم نہیں ہے لیکنAlination، بیگانگیت،داخلیت،ذات پرستی،اشکال پسندی،علامتیت اور ہئیت پرستی پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کی وجہ سے جدیدیت بھی بعد میںبطور تحریک بے اثر ہوتی چلی گئی۔پھر بھی جدیدیت کا زمانہ وسط آٹھویں دہائی تک تو تسلیم کیا ہی جائے گا۔ساتھ ہی یاد رہے کہ تحریکوں سے وابستہ لوگ بعد میں بھی رہتے ہیں۔رہی بات پس ساختیات اور مابعد جدیدیت تو اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ دونوں سابقہ ادبی تحریکوں سے یکسرالگ ہیں۔بنیادی طور پران کو تحریک سمجھنا ہی غلط ہے۔پس ساختیات،ساختیات کے بعد کافلسفہ ہے۔جس نے زبان وادب کے علاوہ سماجی علوم کو بھی متاثر کیا ۔مابعد جدیدیت کئی ادبی فلسفوں کے مجموعے کا نام ہے اور اس کا بنیادی زور ہر طرح کے نظریے کا رد ہے کیونکہ ہر نظریہ بالآخر آمریت کا شکار ہوجاتا ہے۔پس ساختیات اور مابعد جدیدیت میں زبان،معنی ،زندگی،ذات،معاشرہ اور آئڈیالوجی کے بارے میں بنیادی سوال اٹھائے گئے ہیں جن سے نہ صرف ادب کی دنیا بلکہ سماجی علوم اور فلسفہ بھی بنیادی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔معنی کی تکثیریت،یعنی معنی کی افتراقیت کا زائدہ ہونا یا رد تشکیل ،ثقافت کی مرکزیت،زبان ،ادب،شعور انسانی یا شعریات،ان سب کا ثقافتی تشکیل ہونا،ادب کا کلی طور پر خود مختار یا خود کفیل ہونا،بین المتونیت ،تانیثیت اور سماجی سروکار کی لازمیت ایسی بصیرتیں ہیں جن سے اکثرذی فہم ادیب استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔روائتی کاروبار چلتا ہی رہتا ہے لیکن یہ پس ساختیاتی مفکرین کی دین ہے کہ دنیا بھر کی زبانوں میں تنقید کی زبان اور رویے بدل گئے ہیں۔آج ادب کی دنیا میں ادب اور آئیڈیالوجی کے دو طرفہ آزادانہ رشتے سے کوئی صاحب فہم انکار کر ہی نہیں سکتا ۔ترقی پسندی فارمولے اور مینی فیسٹو کی پابند تھی۔مابعد جدیدیت کے زمانے میں ادیب اپنی اقداری اور آئیڈیالوجیکل ترجیح میں آزاد ہے لیکن اس کو معلوم ہے کہ بغیر اقداری اور آئیڈیالوجیکل کے ادب ادب ہی نہیں خالی ہئیت ہے۔جو چیز ہیئت کو معنی کی ادبی آنچ دیتی ہے،وہ اس کا ثقافتی اور اقداری تشکیل ہونا ہے۔ترقی پسندی ہو یاجدیدیت یا مابعد جدیدیت ہر فلسفہ کی ادب کو کچھ نہ کچھ دین ہے،جس سے ادب مالا مال ہوتا ہے اور وہ معاصر تقاضوں کا ساتھ دینے کا اہل بنتا ہے۔ادب دو اور دو چار کا کھیل نہیں نہ ہی تحریکیں کلینڈر کے ساتھ بدل جاتی ہیں،ان کے اثرات باقی رہتے ہیں‘‘ اقتباس اگر چہ طویل ہے لیکن اس کی طوالت میں ہمیںپروفیسر گوپی چند نارنگ کی روشن خیالی،وسیع النّظری،گہرے مطالعے،ان کے اسلوب بیان اور بالخصوص ترقی پسند تحریک،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے علاوہ ساختیات اور پس ساختیات جیسے تمام ادبی افکار ونظریات کی وضاحت اس طرح ملتی ہے کہ کوئی بھی امر پوشیدہ نہیں رہتا۔حقیقت یہ ہے کہ ادب کے بہت سے طالب علم(جن میں یہ ناچیز بھی شامل ہے)مابعد جدیدیت،ساختیات اور پس ساختیات یا تشکیل اور رد تشکیل جیسی ادبی اصطلاحات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔یہ نہ صرف اصطلاحات ہیں بلکہ ان میں فکر وفلسفے کی چاشنی بھی موجود ہے۔پروفیسر نارنگ نے بڑی متانت کے ساتھ اس طرح ان تمام اہم ادبی رجحانات یا فکر وفلسفے پر روشنی ڈالی ہے کہ شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔دراصل گوپی چند نارنگ کسی بھی ادبی تحریک یا رجحان کے امام یا علمبردار نہیں ہیں اور اس بات کا ذکر انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں کیا ہے۔بس وہ تو ایک جہاں دیدہ شخصیت ہیںکہ جووقت کے قدر داں ہونے کے ساتھ ساتھ قدرت کے فطری نظام میں تغیر پذیری کے عمل کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں اور کہاں کیا ہورہا ہے اس سے اردو والوں کو آ گاہ کرنا اپنا فرض اوّلین سمجھتے ہیں۔
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسر شعبئہ اردو بابا غلام
شاہ بادشاہ یونیوسٹی راجور ی(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر9419336120