سرینگر//13ماہ سے زیادہ عرصہ تک نظربند ی کا سامنا کرنے کے بعد کانگریس رہنما سیف الدین سوز کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے اتوار کے روز پہلی بار آزادانہ طور پر گھومنے کی اجازت دی۔ کشمیرعظمیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے سوز نے کہا کہ پچھلے سال 5 اگست کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب انہیں ’سفر کی اجازت حاصل کیے بغیر‘ اپنے گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ان کاکہناتھا’’آج میں اپنی بیٹی کے گھر گیا جو میری رہائش گاہ سے ایک گھنٹہ کی دوری پر ہے، مجھے آزادانہ طور پر اپنا گھر چھوڑنے کی اجازت دی گئی ، جو پہلے ایسا نہیں تھا‘‘۔ سوز نے بتایا’’کل شام مجھے سیکورٹی اہلکاروں نے زبانی طور پر اطلاع دی کہ اب مجھے آزادانہ طور پر باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے‘‘۔ جموں وکشمیر پردیش کانگریس کمیٹی صدر نے کہا کہ اپنی 13ماہ کی طویل نظربند ی کے دوران ، وہ صرف تین بار اپنی رہائش گاہ چھوڑ سکے۔ان کاکہناتھا’’ایک سال سے زیادہ عرصہ میں صرف ایک بار دہلی اور دو بار اپنی بیمار بہن سے ملنے جاسکا، لیکن ایساحکام کی اجازت لینے کے بعد ہی ممکن ہوا‘‘۔اس سے قبل ہفتے کے روز حکام نے پیپلز کانفرنس کے سینئر رہنما عبد الغنی وکیل کی نقل و حرکت پر’احتیاطی پابندیاں‘ ختم کردی تھیں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے پی سی صدر سجاد لون نے ٹوئٹر پر لکھا ’’یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ عبدالغنی وکیل صاحب کو ایک سال سے قید میں رہنے کے بعد رہا کیا گیا‘‘۔پیپلزڈیموکریٹک پارٹی نے پارٹی صدرمحبوبہ مفتی کی مسلسل نظربندی کا معاملہ راجیہ سبھا میں اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔پارٹی کے راجیہ سبھا ممبرفیاض میرنے گزشتہ ہفتے’’غیرقانونی‘‘نظر بندی کا معاملہ اُجاگر کیاتھا۔ نئی دہلی سے کشمیرعظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے فیاض میرنے کہاکہ انہوں نے وقفہ صفر کے دوران نوٹس دی ہے جس دوران وہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی مسلسل نظر بندی کا معاملہ اُٹھائیں گے۔میر نے کہا کہ گزشتہ ہفتے بھی انہوں نے یہ معاملہ اٹھایااورامید ہے کہ وہ کل بھی دیگر اہم معاملات کے علاوہ اس معاملے کو بھی اُٹھائیں گے ۔گزشتہ ماہ پی ڈی پی کے چار رہنمائوں نے حکومت سے محبوبہ مفتی سے ملاقات کرنے کی اجازت طلب کی تھی ۔ڈپٹی کمشنر سرینگر کو ایک مکتوب میں ان رہنمائوں نے کہا تھا کہ ملک کے آئین کے تحت محبوبہ مفتی کو مہمانوں سے ملنے کا حق ہے ۔تاہم ایک سینئر پی ڈی پی لیڈر نے کہا کہ انتظامیہ نے ان کے مکتوب کے جواب میں کہا کہ ان کی درخواست پر غور کیاجارہا ہے ۔اس ردعمل کے علاوہ انتظامیہ کی طرف سے ہمیں نہ ہی ان سے ملنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی اجازت دینے سے انکار کیا گیا۔