ایک مورخ نے تاریخِ عالم کا نہایت ہی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسانی معاشرے کی تباہی و بربادی میں عورتوں کی آزادی و بے رہروی اور بے پردگی کو بڑا دخل ہے۔ غور کریں کہ خواتین کی بے پردگی نے انہیں جسمانی آرائش و زیبائش کا خوگر بنا دیا، پھر اس نے بے حیائی کی صورت اختیار کر لی، بے حیائی نے عریانیت کا جامہ پہن لیا اور عریانیت نے پردہ نشینوں کو بدکاری کی دہلیز پر کھڑا کیا۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ یورپ و امریکہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی ایسی ہی صورت حال پیدا ہوچکی ہے اور اس بے حیائی کے ثمرے میں خواتین کے اغوا اور زنا کی وارداتیں عام ہونے لگی ہیں۔ مرد جنسی امراض میں مبتلاء ہونے لگے اورعورتوں کا تقدس پامال ہونے لگا۔ حالات اتنے نازک موڑ اختیار کر چکے ہیں کہ جس کا سد باب ایک اہم مسئلہ بنتا چلا جارہا ہے۔ دور جدید میں عورتیں ترقی اور آزادی کی دھن میں اگرچہ مغربیت کے پیچھے بے تحاشہ دوڈ رہی ہیں، لیکن اب محض اخبارات و رسائل اور تجارت خانے کی زینت بن کر نفع اندوزی کا ایک خوبصورت اور مؤثر وسیلہ بن کر رہ گئی ہیں۔ جہاں جہاں بھی خواتین کو جگہ دی جارہی ہے، احترام کے فرض سے نہیں بلکہ تجارت چمکانے اور نفع اندوزی کی غرض سے دی جا رہی ہے۔ تجارت میں عورت، سیاست میں عورت، سرکاری دفاتر میں عورت، پرائیویٹ دفاتر میں عورت، یہاں عورت وہاں عورت نہ جانے کہاں کہاں عورت یعنی کوئی ایسا گوشہ نہیں ،جہاں ان کا فتنہ انگیز وجود موجود نہ ہو ۔ ہر خطے میں ان کی حکمرانی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عورت پر اسلام کی نظر مشفقانہ ہے اور جدید معاشرے کی نظر خالص تاجرانہ ہے۔
جس طرح مرد وعورت ایک دوسرے سے مکمل طور پر علیحدگی کی صورت میں ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے یوں ہی حقوقِ نسواں آزادئ نسواں کے نام پر آزادانہ اور غیر مشروط اختلاط نہ پاکیزہ ماحول پیدا کرسکتا ہے اور نہ ایسا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے، جس میں نیک نفس پاک باطن نسل انسانی پروان چڑھ سکتے ،انہیں حدودِ اعتدال میں رہتے ہوئے انسان کو آزاد رکھنے کا نام شریعت مطہرہ کی زبان میں پردہ ہے۔
’’اور مسلمان عورتوں کو حکم دو! اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں، مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے، اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں، مگر اپنے شوہروں پر‘‘ (سورہ نور)
قرآن پاک کی اس آیتِ مذکورہ میں مسلمان عورتوں کو وہ احکام بتائے جارہے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنی عزت ناموس اور عفت و آبرو کو بدمعاش مردوں کی ہوس ناکیوں سے محفوظ و مامون رکھ سکتی ہیں،کیونکہ بے پردہ عورت کی حیثیت وہی ہے جو ایک کھلے ہوئے مکان یا دوکان کی ہوتی ہے۔ جب۔مکان کھلا ہوگا تو چور کی بری نظریں پڑیں گی، تو نیت بھی بری ہوگی۔ اور یوں وہ ہاتھ صاف کرنے اور چوری کرنے پر آمادہ ہو جائے گا۔ ویسے ہی جب بے پردہ عورت پر نظر بد پڑے گی تو نیت میں ہیجان برپا ہوگا اور یوں ہی انسان زینہ بہ زینہ بد کاری کی طرف راغب ہو جائے گا- پھر ایسے نازک موڑ پر آکر بعید نہیں کہ آدمی زنا کا ارتکاب کر بیٹھے۔ معلوم یہ ہوا کہ بد نگاہی اور بد نظری ہی زنا کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی کی بدولت فحش کاریوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور چونکہ عورت اپنی فطری کمزوری کی بنا پر دوسروں سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے، لہٰذا شریعتِ مطہرہ مردوں کی طرح ان سے صرف غض بصر اور حفظ فرج ہی کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ ان کو عورتوں کے مخصوص احکام کا پابند بناتی ہے اور انہیں سمجھاتی ہے کہ آرائش و زیبائش کا شوق تمہیں کہیں غلط راہوں پر نہ ڈال دے اور ایسا نہ ہو کہ تمہارا شوق تمہیں عزت و ناموس سے محروم کر کے بے حیائی و بے پردگی اور آوارگی و بد چلنی کے غار عمیق میں دھکیل کر تمہاری دنیا و آخرت دونوں ہی تباہ و برباد کردے اور تسکینِ شوق کے نشہ میں مخمور ہوکر تم کہیں دین و دنیا ہی سے نہ ہاتھ دھو بیٹھو۔ غرض چادر و چہار دیواری کے حصار سے نکل کر باہر چھلانگ لگانے والی عورتیں خود اپنی زندگی ہی سے بے زار،دام تزویر میں گرفتار اور حرماں نصیبی کا شکار ہو سکتی ہیں، بلکہ ہورہی ہیں۔جبکہ مذہب اسلام انہیں انہی کے لئے انہی کے تقدس انہی کی حرمت اور انہیں اپنی ہی عزت و ناموس کے ساتھ زندگی گزار نے کا ڈھنگ سکھاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ ہدایت دیتا ہے کہ عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی پارسائی اور عزت و ناموس کی حفاظت کریں، اس پر بدکاری کا داغ نہ آنے دیں، اپنی آرائش و زیبائش اور اپنا بناؤ سنگار کسی اجنبی کی نگاہ میں نہ آنے دیں، اپنے دو پٹے اہنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں تاکہ سر اور سینہ نہ کھلا رہے۔ زمین پر اپنے پاؤ زور سے نہ رکھیں کہ ان کے زیور کی جھنکار غیر مرودں کے کان میں نہ پڑے۔
احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ خواتین کا پردہ برائے نام باریک دوپٹہ اوڑھنا بھی ناجائز و حرام ہے چہ جائیکہ کھلے سر اور کھلے سینہ بازاروں میں کھومتی پھریں۔
عورتوں کا غیر مردوں کے سامنے آنا قطعی ناجائز ہے، اگرچہ وہ اندھے اور نابینا ہوں۔ایک حدیث یہ حقیقت واضح کی گئی کہ عورت بذاتِ خود عورت ہے۔ یعنی عورت اسے کہتے ہیں جو چھپی چھپائی ہو ،عورت کا ہر ہر عضو ستر اور پردے کا مقتضی ہے۔ اس لئے پردہ خواتین کے لئے کس حد تک ضروری ہے جس کو ملحوظ خاطر رکھنا انہیں سفر و حضر یعنی ہر وقت ہر حال میں ہر اعتبار سے فرض ہے۔ پردہ شعائر اسلام میں سے ایک شعائر عظیم ہے اور یہی پردہ مسلم و غیر مسلم خواتین کے درمیان ایک خط امتیاز ہے۔