آنکھیں چار ہوئیں اور جُھک گئیں۔۔۔۔
اب کی بار اُس نے عورت کی آنکھوں میں سے کچھ نہیں پایا۔ کوئی خواب نہ، کوئی خیال۔ خالی خالی تھیں اُس کی آنکھیں۔ کیا وقت کے ساتھ سب کچھ بہہ گیا تھا؟ ۔۔۔ ’’نہیں نہیں‘‘ وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔۔
دروازے کا پردہ ہوا کے جھونکے سے ہٹ جاتا تو اُس کی نظریں سامنے ٹیلے پر جا پڑتیں اور وہ ماضی کے حسین لمحوں میں کھو جاتا۔ دیکھتا سب کچھ جوں کا توں ہی تو ہے۔ ٹیلے کے سرے پر میدان، میدان میں گائوں، گائوں کے اِرد گر پیڑ پودے، بہتے ندی نالے اور بہت کچھ۔ نیل گوں آسمان میں چمکتا سورج بھی تو وہی ہے لیکن سٹول پُر سکڑ کر بیٹھی عورت؟۔۔۔۔۔
اب بہار جوبن پہ تھی۔ چٹیل پڑے میدان بھی ہری مخملی گھاس سے لدے ہوئے تھے۔ ’’بید مُشک‘‘ اور ’’ہمبرزل‘‘ کے پھولوں کی خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی اور وہ ٹیلے سے اُتر کر آئی تھی ایک خوشبو بن کر۔ محبت کے سارے رنگ لے کر، گلزار سی۔ آنکھیں ملتے ہی ہونٹ کپکپائے تھے۔ بنا بولے بھی بہت کچھ کہا سُنا گیا تھا۔ سماں رُک سا گیا تھا۔ محبت کے بیج، جومن کی مٹی سے ملے تھے، بہت گہرے چلے گئے اور پھر من کی کیاری میں کِھل اُٹھے تھے۔
چاندنی راتوں میں اکثر وہ اِسی پُل پہ ملتے اور اپنی روحوں کو سرشار کرتے۔ شریک حیات بن کر زندگی گزارنے کا عزم کرتے، تخیل میں ہی اپنی خوبصورت دنیا کو پھولوں سے سجاتے اور کانٹوں کو چُنتے۔۔۔۔
تب بستیوں کے باشندے خود کفیل نہیں تھے۔ ایک دوسرے پر منحصر تھے۔ کھیت کھلیانوں میں مل کر کام کرتے تھے اور کام اتناآسان ہوجاتا کہ کھیل بن جاتا۔ نہ کوئی تھکتا نہ کوئی ہارتا۔ جو حاصل ہوتا اُسے بانٹ کر کھاتے۔ بڑا چھوٹا یا امیر غریب ہونے کا کسی کو احساس نہ ہوتا۔ بس کام کرنے والا مہان اور کام عبادت۔ اخوت کا جذبہ سب کی رگوں میں دوڑتا۔ ایک دوسرے کے درد وغم میں شریک ہوتے۔ نزدیکیاں اس قدر تھیں کہ گھروں کے درمیان کوئی دیوار بھی حائل نہ ہوتی۔ چھوٹے سے چھوٹا خوشی کا موقع بھی کوئی ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ کسی کے دل میں مستقبل کا خوف غالب نہ آتا۔۔۔۔
ایک دن اُس نے جھجکتے ہوئے کہا،
’’آنکھوں میں سجائے سپنے کہیں پُل کے نیچے سے گزرنے والے پانی کی طرح بہہ نہ جائیں‘‘۔
’’پگلی روحوں کا رشتہ تو ازل سے پاک اور پختہ ہوتا ہے۔‘‘
قطع کلام کرتے ہوئے اُس نے جواب دیا تھا۔ ’’پانی کی طرح بہہ نہیں جاتا۔۔۔ پھلتا پھولتا ہے۔۔۔‘‘
پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں نے بہت کچھ کہا، سُنا، سمجھا اور سمجھایا۔ بہار ضامن تھی، چنار کے ہزار ہزار ہاتھ بج اُٹھے۔ چاندنی نے پُل پر ایک عبارت لکھی تھی۔۔۔۔
ایک دن کالے بادل چھائے، گرجے، بجلیاںکوندیں اور آندھی چلی۔ کئی دن موسلا دھار باش برستی رہی۔
سیلاب چڑھ آیا۔ بستیوں کو جوڑنے والا صدیوں پُرانا پُل بہہ گیا۔ ندی کے کنارے کٹتے گئے اور دوریاں بڑھتی گئیں۔
اب پُل کی بجائےسیڑھیاں ہی سیڑھیاں دِکھنے لگیں۔ اِن کا رُخ بستیوں کی اور نہیں آسمانوں کی طرف تھا۔ کہیں ملنے ملانے کا نام و نشان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سب کو اپنی اپنی سیڑھیاں چڑھنے کا جنوں طاری ہوگیا تھا۔ یہ بھی اِسی جنوں میں سیڑھیاں چڑھتا گیا اور زمین کی ساری باتیں بھول گیا۔ وقت کی اُنگلیوں میں شب و روز کے بیچ گردش کرتی رہی۔ دِن مہینے اور پھر سال دھیرے دھیرے گزرتے گئے۔ اِسکی آنکھوں کے سامنے اب پایہ ہی پایہ تھا۔ تھکان بھی تھی، دم گُٹھتا تھا۔ رگوں میں لال لہو کی جگہ پگھلا ہوا لوہا دوڑنے لگا تھا۔۔۔
ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور پردہ پوری طرح پھیل گیا۔ وہ چونکا، سٹھتسکوپ اب بھی بچی کے سینے پر رکھا ہوا تھا۔ ہٹا دیا۔
جوں توں نسخہ لکھا اور عورت کی طرف بڑھا دیا۔ عورت نے نسخہ اُٹھایا اور چُپکے سے کمرے سے باہر چلی گئی۔ چپراسی نے دوسرے بیمار کو اندر بھیج دیا۔ اب ڈاکٹر کی نظریں سامنے بیٹھے بیمار سے آگے نہیں جاسکتی تھیں۔ پردہ پوری طرح گر گیا تھا۔
���
رابطہ؛پہلگام کشمیر،موبائل نمبر؛9858433957