طارق اعظم کشمیری
یہی باری تعالیٰ کی فنکاری کا حسن اور کمالِ ظرف ہے کہ اُس نے کسی بھی شے کو بے کار بے مقصد نہیں بنایا۔ہر کوئی چیز، وہ چاہے زرّے سے چھوٹی ہی کیوں ہو ایا پہاڑ سے بلند و بالا ہو، اپنے اپنے مدلل اور معنیٰ خیز مقصد رکھتے ہیں اور ان تمام مخلوقات میں شرفِ اشرف انسان کو حاصل ہے۔ تو پھر کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ انسان کو بن مقصد دنیا میںبھیجا گیا ہو۔ جب کہ ربِّ کائنات نے پیغمبروں پر نازل کی ہوئی کتابوں میں صراحتاً اور اِشارتاً اظہر من شمس کی طرح واضح کیا ہے کہ ہم (اللہ) نے انسان کو دنیا میں کوئی بےکار اور بے مطلب نہیںبھیجا نہیں ہے۔ بلکہ ایک ضخیم مدعا سے اسے مبعوث کیا۔ وہ مدعا ومقصد کیا ہے، کتابوں کی سردار یعنی قرآنِ مجید میں جا بہ جا فرمایاہے کہ ہم نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے بنایا،اور عبادت صرف نماز، روزہ، زکواة اور حج ہی نہیں ہیں، اصل میں انسان کو زمیں پر خدا کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ خلیفے کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔ آپ سب اس سے واقف ہوں گے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا حکم نافذ کرنا ہی انسان کا مقصد ہے۔ انسان کا ایک ایک لمحہ عبادت سے خالی نہیں رہ سکتا ہے، اگر وہ ہوش سے کام لیں۔ معاشرے کی فکر کرنا، سماج میںجن بدعات اور رسومات نے اپنے شکنجے گاڑے ہیں، انھیں جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرنا اور اپنے دوست، عزیز و اقارب کا خیال کرنا، یہ وہ تعلیمات ہیں، جو ہمیں رسولِ اکرمؐ نے دی ہیں۔ جس کو ہم سب نے نسیان کے سمندر میں ڈُبو دیا ہے۔ اس لاپروائی کا نتیجہ اور پھل بھی ہماری جھولی میں ڈال دیا ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ضمیر کے آنکھوں پر مادیت کی پٹی بندھ گئی ہے۔ موج مستی کے عالم میں آج کا مسلمان اتنا مگن ہے کہ وہ اپنے آپ تک کو بھول بیٹھا ہے، خلیفہ کا احساس ہونا تو دور کی بات ہے۔لیکن اللہ تعالی کی عادت ہے کہ اس نے انسان کو مقصد یاد دلانے کیلے کبھی اپنے برگزیدہ بندے اور کبھی آسمانی کتابوں کے نزول کا انتخاب کیا۔ کیوں کہ ایک فنکار کو اپنے شاہکار سے بے انتہا محبت ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے محبت کی بات ہو تو وہاں ہم جیسے لاعلم کی کیا وقعت ہے۔ اللہ اپنے بندے کو ہر حال میں کامیاب و کامران دیکھنا چاہتا ہے، اور وہ کامیابی خدا نے رسولِ اکرمؐ کی مبارک زندگی میں پنہاں رکھی ہے۔ اسی لئے فرمایا’’ جس نے میرے محبوب کی اطاعت کی ،وہ سرا سر کامیاب ہوگیا۔
خدا نے اپنے حبیبؐ کو کو ایسی لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے۔ جن کا شمار کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے اور کوئی بھی زبان اُن نعمتوں کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ربّ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر ؐ ماہِ رمضان کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ اگر اس مہینہ کو صحیح زندگی گزارنے کا ایک کورس کہا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس مہینے میں مسلمانوں کو قدرتی اچھے اعمالوں کی روح تازہ ہوجاتی ہیں۔ ہر ایک میں خدا پرستی کے انوار چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں۔ نرم لحجہ، ایثار،اُخّوت اور ہمدردی کی چہل پہل ہوتی ہے۔ یہ سب ماہِ رمضان کی خصلت اور سرشت میں ہے۔ گویا اس کی قدر و قیمت اور اس کا فیض بالا تر ہے۔یہ اس سے اندازہ ہوگا کہ رسولِ اکرمؐ نے اس شخص کی ہلاکت پر آمین کہا ،جس نے رمضان پایا اور پھر مغفرت نہ کرا سکھا۔ اب ہمیں خود ہی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم کتنے کوشاں رہتے ہیں۔ اسی ماہ میں دستورِ حیات کا نزول بھی ہوا تھا۔ جو نظامِ زندگی کے اصول و ضوابط سے لبریز ہیں۔ اچھی معاشرت کو کیسے وجود میں لائیں، ایک دوسرے سے کس طرح کا سلوک کریں، معاملات کا احساس کس سے کس انداز کا رکھا جائیں۔ یہ سب قرآن مجید کے دروس میں مل سکتی ہیں۔ حیف صد حیف کہ ہم اس سے بھی کنارہ کش ہوگئے ہیں۔ اب ذرا غور کریں کہ مقصدِ زندگی کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم سکون کی تلاش میں بے سکون ہوگئے ہیں۔ ہماری کوئی قدر ہی نہیں رہ گئی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں، راہ ِ راست پر آجائیں اور زندگی کا حقیقی مقصد حاصل کریں۔خصوصاً اس ماہِ مقدس،جو کہ اب ہم سے رخصت ہورہا ہے، سے سراغ زندگی پانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت کی شربت سے سرشار کریں۔
(رابطہ۔۔ 6006362135)
[email protected]