میاںمحمد نواز شریف نے6جولائی2018کو لندن میں پاکستان واپسی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے دوسرے دن 7؍جولائی کو تخت بھائی بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ملک شیریں کے قافلے میں بم دھماکہ ہوا۔ بم موٹر سائیکل میں نصب تھا، جسے ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔ دھماکے میں امیدوار سمیت سات لوگ زخمی ہوئے۔ 10جولائی کو یکہ توت پشاور میں اے این پی کے انتخابی جلسے میں خود کش حملہ ہوا جس میں اے این پی کے امیدوار پی کے 78بیرسٹر ہارون بلور سمیت 22افراد شہید اور 60زخمی ہوئے۔2012کو ہارون بلور کے والد اور اے این پی کے سینئر رہنما بشیر بلور کو خود کش حملے میں شہید کیا گیا تھا۔ 13جولائی کو جب سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کی دختر مریم نواز لندن سے پاکستان واپس لوٹ رہی تھیں ، تو اُسی دن دو امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اکرم خان درانی بنوں میں انتخابی ریلی سے واپس جا رہے تھے جب ان کے قافلے پر حملہ ہوا جس میں 5؍افراد شہید اور 31؍زخمی ہوئے۔درانی صاحب این اے 35سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ درانی صاحب کو قانون نافذکرنے والے اداروں نے ممکنہ حملے کے بارے میں پیشگی خبردار کیا تھا۔ اسی شام بلوچستان کے ضلع مستونگ کے درین گڑھ علاقے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اُمیدوار نواب زادہ سراج رئیسانی کے انتخابی قافلے پر حملہ ہواجس میں رئیسانی سمیت 130؍افراد شہید اور 200؍سے زیادہ زخمی ہوئے۔شہید رئیسانی صاحب کے بھائی نواب زادہ اسلم رئیسانی بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کے کم سن فرزند 2011ء کو مستونگ میں ہی ایک خود کش حملے میں شہید ہوئے۔ اس وقت مستونگ اور پشاور میں فضا سوگوار ہے۔ رئیسانی صاحب بہادر اور محب وطن پاکستانی تھے۔ ان کا سارا خاندان محب وطن ہے۔ انہوں نے وطن عزیز پر اپنی جان نچھاور کی۔ انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ہارون بلور اور سراج رئیسانی انتخابات کے پس منظر میں دہشت گردی میں شہید کئے جا چکے ہیں۔مبصرین کہتے ہیںان قاتلانہ حملوں کا مقصد واضح ہے کہ عوام کو الیکشن سے دور رکھا جائے، لوگ خوف زدہ کئے جائیں۔ پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے سوگواری کے اس عالم میں اپنی انتخابی مہم ملتوی کر دی۔
یہ ان کا بڑا پن بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے غم زدہ خاندانوں سے یک جہتی کا مظاہرہ کیا مگر عمران خان یا کسی دوسرے رہنما نے اپنی انتخابی مہم ملتوی نہ کی۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف الزامات اور ناشائستہ زبان کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ عمران خان نے کہتے ہیں کہ وہ الیکشن جیتنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں کیوں کہ انہوں نے وزیراعظم بننے کا خواب کسی بھی حال میں شرمندۂ تعبیر کر ناہے۔ نگران حکومتیں ،الیکشن کمیشن اور عدلیہ اس بازاری زبان پر خاموش ہیں۔ سیاست کاروں کا یہ منفی لب و لہجہ بچوں پر برے اثرات ڈال رہا ہے۔ اب بچے بھی عمران خان کی طرح ڈائیلاگ مار رہے ہیں۔ یہ تاثر عام کر دیا گیا ہے کہ ریاستی ادارے کسی ایک پارٹی کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ملک دشمن قوتیں اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرتی ہیںاوروہ جب بھی موقع ملے پاکستان میں دھماکے اور خود کش حملے کراتی ہیں۔ بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں بھی سرگرم ہیں۔ راء اور اس کے ہاتھ بکے قوم دشمن بلوچستان اور خیبر پختوں خواہ کے کو نشانہ بناتے جارہے ہیں، وہ الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آج انتخابات ملتوی کر دئے گئے تو کسے فائدہ ہو گا اور کون نقصان میں رہے گا، یہ سب کو معلوم ہے۔ کرکٹ اور فٹ بال کی طرح قومی سیاست کھیل تماشہ بنائی جا رہی ہے تا کہ اسے ہر کوئی کھیل تماشہ ہی سمجھا ، کوئی اسے سنجیدگی سے نہ لے نہ اس پر کوئی اعتبار کرے۔ ہر پارٹی سیاسی اچھل کود میں یقین کر رکھتی ہے ، قومی فکر اور ملّی نظریات پس پشت ڈال دئے گئے ہیں ، ایشوز کی سیاست نظر انداز ہورہی ہے۔ یہی صورتحال رہی تو آئندہ یہی سمجھا جائے گا کہ سیاست چور ڈاکووؤں اور کرپٹ عناصر کا میدان عمل ہے، نفرت اور تعصب نفع بخش چیزیں ہیں۔ جب کہ سیاست کا اصل منبع اور سر چشمہ اصولوں کی حفاظت اور خدمت ِ خلق ہے۔ ماضی میں خدمت خلق کوعبادت ادرجہ دے کر لوگ ایک نیک اورتعمیری جذبے سے سیاست کے میدان میں قدم رکھتے تھے، یہ سماجی خدمت کا شعبہ تھی، یہ کھیل کا میدان نہیں بلکہ ہر کسی کادکھ دردکم کر نے کا میدان تھا۔ اس ماحول میں بیرونی یا اندرونی سطحر متحرک ملک دشمن قوتیں اپنا کام کرنے میں آزاد نہ تھیںکیوں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اُلجھے نہ تھے، انہیں کوئی اپنے مفاد کے لئے استعمال نہ کر سکتا تھا۔ آج ہمارے اداروں کو بے جا طور استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے نام کااستعمال کر کے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جا تا ہے۔
ملک میں دہشت گردی کی واردات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقتیں قدرے بے نقاب ہو جاتی ہیں۔ مزید برآ ں سیکورٹی نافذ کرنے والوں کو فروعی اور نجی معاملات میں اُلجھا دیں یا سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا جائیتو نتائج یہی نکلیں گے۔ پاکستان میں قومی الیکشن امن ،ترقی اور خوش حالی کا ضامن بن سکتا ہے بشرطیکہ عوام اُن محب وطن اور خدمت خلق اللہ کے جذبے سے سرشار لوگوں کو منڈیٹ دیں جو مسلح افواج کے شانہ بشانہ قوم کی حفاظت پر کمر بستہ ہوں اور ملک کی معیشت کو سی پیک جیسے تاریخ ساز منصوبوں سے آبیاری کر نے کا عزم بالجزم رکھتے ہوںپاکستانی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ مملکت خداداد کے وجود سے ان کا وجود مشروط ہے اور مملکت کے مخالف نہ صرف عوام کے بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی کے دشمن ہیں۔ ہمیں متحد ہوکر دشمن کو زیر کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ چند سوالات سوچنے والے اذہان میں کلبلا رہے ہیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا دہشت گردانہ حملوں سے کوئی تعلق ہے؟ ملک میں نفرت ، شک و شبہ ا ور تعصب کی سیاست کر نے کا مطلب کیا ہے ؟ ذات برادری اور قبیلوں کے نام پر ووٹ مانگنے یادینے کی نقصان دہ روایت کاتکرار کیا معنی رکھتا ہے؟یہ وقت کے وہ اہم سوالات ہیں جن کا ملکی سا لمیت اور قومی سیاست سے گہرا تعلق ہے۔