نئی دہلی//بھارت نے جاسوسی کا الزام عائد کرکے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیا اور 48 گھنٹوں کے اندر اندر انہیں ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو دہلی پولیس نے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تاہم کچھ دیر بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے تصدیق کی کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔وکاس سوارپ نے ٹوئیٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ ’سیکریٹری خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا اور انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ ان کے ایک افسر کو ناپسندیدہ شخص قرار دیا گیا ہے‘۔دہلی پولیس کے کمشنر رویندرا یادیو نے بتایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے عہدے دار کو دفاع اور دیگر حساس دستاویز کے ساتھ حراست میں لیا گیا۔انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ان دستاویز میں بھارتی سرحدی فورسز کی تعیناتی سے متعلق معلومات بھی شامل تھیں۔ محمود اختر نامی ویزا آفیشل کو بھارت چھوڑنے کے لئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی گئی ہے۔ پولیس نے محمود اختر کو بدھ کی شب حراست میں لیا گیا اور ان کے پاس دفاع سے متعلق دستاویز موجود تھے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ بعد ازاں محمود اختر کو تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا کیوں کہ انہیں ’سفارتی استثنیٰ‘ حاصل ہے۔اس کے علاوہ مزید دو افراد مولانا رمضان اور سبھاش جہانگیر کو بھی حراست میں لیا گیا جن پر الزام لگایا گیا کہ وہ پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو حساس معلومات فراہم کررہے تھے۔