پائین شہر کے 2 شہریوں کی حراستی گمشدگی

سرینگر//پائین شہر کا ایک خاندان27سال گزر جانے کے باوجود ابھی بھی مبینہ طور فورسز حراست میں لاپتہ ہوئے اپنے خاندان کے فرد کی تلاش میںہے،تاہم اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک محمد صدیق صوفی کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آیا۔ اہل خانہ کے مطابق23مارچ1992کو سرحدی حفاظتی فورس کی166ویں بٹالین نے بمنہ میں چھاپہ مارا،جس کے دوران شہر کے خانقاہ معلیٰ سے تعلق رکھنے والے محمد صدیق صوفی کو اپنے ایک ساتھی جاوید احمد شالہ کے ہمراہ حراست میں لیا گیا،جبکہ اس چھاپے میں ماس مومنٹ کی سربراہ فریدہ بہن جی کے والد محمد یوسف بیگ،شوہر،برادر اور ایک بیٹے کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس دوران محمد یوسف بیگ کی لاش3دن بعد برآمد ہوئی،جبکہ باقی گرفتار شدگان کو قریب ایک ماہ کے بعد رہا کیا گیا،مگر محمد صدیق صوفی اور جاوید احمد شالہ بدستور حراست میں ہی رہے۔انہوں نے کہا کہ فورسز نے محمد صدیق صوفی کوکھبی رہا نہیں کیااور نہ یہ بتایا کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔اہل خانہ نے بتایا کہ جن لوگوں کو رہا کیا گیا انہوں نے بتایا کہ تمام لوگوں کو ٹٹو گرائونڈ بٹہ مالو انٹراگیشن سینٹر پہنچایا گیااور محمد صدیق صوفی اور جاوید احمد شالہ25مارچ انکے ساتھ ہی بند تھے،جبکہ حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ دونوں بڈگام میں فرار ہوئے۔اہل خانہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں ریاستی ہائی کورٹ میں ایک عرضی زیر نمبر  888/92 بھی دائر کی گئی،جس کے دوران انتظامیہ نے انکے حراست سے فرار ہونے میں معذرت ظاہر کی۔محمد صدیق صوفی کے بھتیجے نذیر احمد نے بتایا کہ انہوں نے اپنے چاچا کی تلاش میں کوئی بھی کمی نہیں چھوڑ دی،تاہم تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ان کا کہنا تھا کہ فورسز کیمپوں،پولیس تھانوں،تعذیب خانوں،غرض ہر جگہ انہوں نے خاک چھانی،تاہم افسراں کی یقین دہانیوں کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں لگا۔نذیر احمد کے مطابق محمد صدیق صوفی کی حراستی گمشدگی کے بعد اہل خانہ نے دو مرتبہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا،تاہم فورسز نے جواب دینے کی کوئی زحمت گوارہ نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے محمد صدیق صوفی کی تلاش بند کرنے کیلئے سرکاری نوکری اور نقد رقومات کی بھی پیشکش کی،تاہم اہل خانہ نے اس سے انکار کیا۔