شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ تاریخی جملہ ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کردیا جائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے۔ تحریک ِ آزادی ہند کے تناظر میں جب ہم ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کر تے ہیں تویہ حقیقت واشگاف انداز میں ہمارے سامنے آ تی ہے کہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کو انگریز سامراج سے آزاد کرانے کے لئے سخت جدو جہد کی۔ قید وبند کی صعوبتوں کو جھیلنے کے علاوہ انہوں نے آزادیِ وطن کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔ ان سرفروشانِ وطن کی فہرست میں سب سے نمایاں جو نام ہے وہ شہیدِ وطن ٹیپو سلطان کا ہے۔ یہ وہ عظیم مجاہدہے جس نے کبھی بھی انگریزوں کی غلامی کو قبول نہیں کیا۔
ٹیپو سلطان، مادرِ وطن کا وہ مایہ ناز سپوت ہے جس نے ہندوستان کے تنِ مردہ میں زندگی کی تازہ لہر پیدا کی۔ وہ سامراجی طاقتوں کے لئے ایک تیغِ بے نیام تھا لیکن اپنے ہم وطنوں کے لئے ایک مسیحا کی حیثیت رکھتا تھا۔ ٹیپو سلطان کو وطن کی خاطر شہید ہوئے دو سو سال ہو گئے ہیں لیکن اس کی حب الوطنی اور مذہبی رواداری کے چرچے اب بھی جاری ہیں۔ اخوت اور مساوات کی جو شمعیں ٹیپو نے روشن کی تھیں وہ آج بھی جگمگا رہی ہیں۔ میسور کی وادیوں میں اس مردِ مجاہد نے اس وقت آنکھیں کھو لیں ، جب وطنِ عزیز پر انگریزی استبداد کا شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا تھا۔ دیسی حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی اور بزدلی نے انگریزوں کے حوصلے بلند کر دئے تھے۔ مگر پندرہ، سولہ سال کے ٹیپو نے انگریزوں کی غلامی کے طوق کو پہننے سے انکار کردیا اور اپنے والد حیدر علی کے ساتھ میدانِ کار زار میں ڈٹا رہا۔ اپنے والد کی شہادت کے بعد وہ انگریزوں کے خلاف ہر محاذ پر مقابلہ کرتا رہا۔ سلطان ٹیپو وہ پہلا فرماں روا ہے جس نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کر انے کے لئے بیرونی ممالک کو اپنے سفیر بھیجے۔ اُ س وقت کے مشہورزمانہ فاتح نیوپلین بوناپارٹ سے ٹیپو سلطان نے رابطہ قائم کیا۔ نیوپلین کا امید افزا جواب بھی آ گیا لیکن شومئی قسمت کہ مختلف وجوہات کی بنا پر فرانس کی فوجیں ہندوستان نہیں آ سکیں ۔ دوسری طرف اپنوں کی غداری نے سلطان ٹیپو کے منصوبوں کو ناکام کر دیا۔ آغوشِ حیدر و فاطمہ سے جنم لینے والے اس پیکرِ حریت نے جنگِ پلاسی میں تنِ تنہا انگریز فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے 4؍ مئی 1799کو جامِ شہادت نوش کیا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی کا چراغ گُل ہوگیا اور سا مراجی طاقتوں کو للکارنے والا کوئی باقی نہ رہا۔ انگریز جنرل فرطِ مسرت سے چّلا اٹھے کہ "آج ہندوستان ہمارا ہے "تاریخ نے ثابت بھی کر دیا کہ سلطان کی شہادت کے بعد واقعی ہندوستان انگریزوں کا ہوگیا اور تقریباسو سال تک کہیں سے بھی ہندوستان کی آزادی کے لئے صدائے بازگشت گونجتی ہوئی دکھائی نہیں دی۔ 1857میں مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر نے پھر ٹیپوسلطان شہید کی روشن کی ہوئی آزادیِ وطن کی شمع کو ایک شعلہ میں تبدیل کیا اور وہ بھی وطن سے بہت دور قید و بند کی آزمائشوں سے گزرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے۔
سرزمین ِ ہند کی تاریخِ آزادی شیرِ دل ٹیپو سلطان کے تذکرہ کے بغیر ادھوری رہے گی۔ یہ وہ محب وطن ہے جس نے وہ اندھیرے دیکھ لئے تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فریب کاریوں کو اپنے جَلو میں لئے ہوئے تھیں۔ اس کی دوربین نگاہوں نے یہ جان لیا تھا کہ اس بدنصیب ملک پر سامراجی طاقتیں چھاتی جارہی ہیں۔ برطانوی نوآبادیات کا یہ سیلاب ملک کی ترقی اور خوشحالی کو پامال کر تے ہوئے اپنے خونین پنجوں سے یہاں کے سارے وسائل پر قبضہ کر لے گا۔ ایک ایسے وقت جب کہ کوئی حکمران انگریز کے خلاف مورچہ بندی کے لئے تیار نہیں تھا،لیکن اپنی جرأت آموز بہادری کے بَل پر ٹیپو سلطان غیور فرزندانِ وطن کو طوقِ غلامی کے چنگل سے آزاد ہونے کے لئے للکارتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور اپنے خون کی سرخی سے ارضِ وطن کو لالہ زار کر تے ہوئے یہ پیغام دے گیا کہ ’’سو سال کی گیڈر کی زندگی سے ایک دن کی شیر کی زندگی بہتر ہے‘‘۔ ٹیپو سلطان نے محض ان الفاظ کو دہرایا نہیں بلکہ اپنی شہادت کے ذریعہ اس کا ثبوت بھی دیا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت پر گورنر جنرل ولزلی نے ہاتھ میں شراب کا پیالہ لے کر بد مستی اور بے شرمی کا کھلا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’دوستو! آج میں ہندوستان کی لاش پر خوشی کے جام لُنڈھارہا ہوں ‘‘گورنر جنرل کے ان الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انگریز، ٹیپو سے کتنا خوفزدہ تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انگریزاپنے بچوں کو یہ کہہ کر ڈارتے تھے کہ ’’ٹیپو آرہا ہے ‘‘تاریخ نے اس بات کو درج کرلیا کہ اگر دیسی حکمران اپنی بزدلی نہ دکھاتے اور میر صادق غدّاری نہ کرتا تو انگریز دو سو سال پہلے ہی ہندوستان سے فرار ہو جاتے۔ لیکن انگریزوں کی عیاریوں اور اپنوں کی دغا بازیوں نے ہندوستان کو یہ دن دکھائے کہ یہاں سامراجی قوتوں کو استحکام ملتا چلا گیا اور ہندوستانی بھی اپنی غلامی پر فخر کرنے لگے۔
ٹیپو سلطان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو اس کی مذہبی رواداری ہے۔ اسے حالات کی عجیب ستم ظریفی کہیے کہ جو حکمران اپنی عوام سے مذہبی بے تعصبی میں خراجِ تحسین حاصل کر چکا ہے ، اسے بعض بد طینت مورخین ایک متعصب اور فرقہ پرست کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔نصابی کتابوں میں یہ من گھڑت بات لکھ دی گئی کہ ’’تین ہزار ہندوؤں نے اس لئے خودکشی کرلی کہ ٹیپو انہیں زبردستی مسلمان بنانا چاہتا تھا ‘‘ مشہور مورخ اور سابق گورنر اڑیسہ پروفیسر بی این پانڈے نے بڑی ریسرچ کے بعد اس بات کو غلط ثابت کیا۔ سلطان ٹیپو کی مذہب رواداری تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی گئی ہے۔ اس نے میسور کی کئی مندروں کو عطیات دئے ہیں۔ میسور کے محکمہ آثارم قدیمہ میںاس کا ریکارڈ موجود ہے۔ گاندھی جی نے اپنے اخبار ’’ینگ انڈیا ‘‘میں لکھا کہ ’’ٹیپو نے مندروں کے لئے بڑی فیاضی سے جائدادیں وقف کیں۔ یہ سلطان کی وسیع النظری ا ور رواداری کا ثبوت ہے ‘‘۔ٹیپو سلطان کا محل خود تین مندروں کے درمیان تھا۔ وہ روزآنہ صبح میں جاکر انتظامات کا جائزہ لیتا تھا۔مندروں کو عطیات کے علاوہ ٹیپو سلطان نے ان کے لئے جاگیریں بھی مختص کیں۔ اس ضمن میں جاری کردہ اس کے فرمان اور دستاویزات اب بھی موجود ہیں۔ ٹیپو سلطان کے ہندوؤں کے مذہبی پیشواوؤں اور خاص طور پر جگت گرو شنکر آچاریہ سے بھی بردارانہ تعلقات رہے۔ اپنے ایک خط میں ٹیپو سلطان نے لکھا کہ ’’آپ جگت گرو ہیں،جس ملک میں آپ جیسی مقدّس ہستی موجود ہو اُس میں خدا کی رحمت ہوتی ہے، آپ کو ایک غیر ملک میں اتنے زیادہ عرصے تک ٹہرنے کیا ضرورت ہے، کام جلد انجام دے کر واپس آجایئے‘‘۔ یہ خط بھی گاندھی جی کے اخبار’’ینگ انڈیا ‘‘میں شائع ہوچکا ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی رسموں کی ادائیگی کے موقع پر پوجا کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس موقع پر ٹیپو سلطان نے گُرو جی کو لکھا کہ ’’آپ کے حسبِ مرضی پوجا کے دنوں میں روزانہ ایک ہزار برہمنوں کو کھانا کھلانے اور نقدی دینے کے متعلق نگر کے حاکم کو حکم دے دیا گیا ہے ۔‘‘اس قدر مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرنے والے حکمران کو یہ کہہ کر بدنام کیا گیا کہ اُ س نے ہندوؤں پر مظالم ڈھائے اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔ ٹیپو سلطان اگر اپنی رعایا پر ظلم کرتا اور خاص طور پر دیگر مذاہب کا احترام نہ کرتا تو میسور کی عوام اس کی موت پر خوشیوں کے شادیانے بجاتی اور اپنی آزادی پر فخر کرتی۔ لیکن تاریخ میں ٹیپو سلطان کے جنازے کا جو حال بیان کیا گیا، وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ مورخ لکھتا ہے کہ ’’جب سلطانؒ کا جنازہ اٹھایا گیا تو راستے میں ہزاروں لوگ جذبات سے بے قابو ہوگئے تھے۔ ان میں مسلمان اور ہندو سب ہی تھے۔ سیکڑوں لوگ فرطِ غم اور شدّتِ الم کی تاب نہ لاکر جنازے کے آگے لیٹ گئے تھے۔ ہندو عورتیں سروں پر مٹّی ڈال ڈال کر ماتم کر رہی تھیں‘‘۔ٹیپو سلطان اگر مذہب کے معاملے میں عدم روادار ہوتا تو کیا اس کے جامِ شہادت نوش کرنے کے بعد بھی اس کی رعایا اس سے اس قدر والہانہ محبت اور عقیدت کا ثبوت دیتی۔مختصر یہ کہ ٹیپو سلطان کی جدوجہد اور شہادت ہندوستانی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جو صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ہندوستانی قوم کو ایک نیا عزم اور حوصلہ بخشتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ٹیپو سلطان کی عظیم شہادت سے سبق لیتے ہوئے ہم اپنے مستقبل کو شاندار اور تابناک بنائیں۔قوم اور ملک کو ایک نیا راستہ ملے گا جس سے وہ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑی کامیابی کے ساتھ تیزگامی سے آ گے بڑھ سکتے ہیں۔
( نوٹ : یہ مضمون 9؍ نومبر2021کی شام اُردو ہال، حمایت نگر حیدرآباد میں جشن اردو کے موقع پر’’ایک شام عظیم شخصیات کے نام ‘‘ علامہ اقبال، ٹیپو سلطان و مولانا ابوالکلام آزاد،کے عنوان پر منعقدہ یادگار تقریب میں پڑھا گیا )۔