ٹیلی کمیونی کیشن کا ارتقائی سفر اب5جی کی دہلیز پر

 سائنس ایسے کرشمے دکھا رہا ہے جس سے انسان کا دماغ کچھ دیر کیلئے دھنگ رہ جاتا ہے۔ انہی ایجادات میں سے ایک اہم ایجاد ٹیلی مواصلات بھی ہے اور سائنس نے پچھلی کئی دہائیوں سے اس شعبے میں اتنی ترقی کی ہے کہ انسان اب اپنی زندگی کو اس کے بغیر ادھورا اور ناکارہ تصور کرتے ہیں۔ ٹیلی گرام سے لیکر5Gتک اس میں بہت ساری تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور آہستہ آہستہ ہم آگے بڑھ رہے ہیںاور اب یہ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ مانا جارہا ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن سے بے بہرہ شخص کو آج کے دور میں ناخیز سمجھا جارہا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو ہے بھی کیونکہ آج ہمارا سب کام اسی کے ذریعے سے ہورہا ہے۔ اسی لئے سائنس اس شعبے میں روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن۔پہلے پہل لوگ ٹیلی فون کا استعمال کرتے تھے اور اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جایا جا سکتا تھا کیونکہ اس میں ایک کیبل جڑی ہوئی ہوتی تھی ۔اس وقت سب کے گھروں میں یہ موجود نہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ اس کی کیبل ہر جگہ پہنچانا ٹیلی مواصلاتی کمپنیوں کیلئے دشوار تھا ۔اس لئے اس قسم کے فون زیادہ تر شہری علاقوں اور فوجیوں کے پاس ہی ہواکرتے تھے ۔اس کے بعد اس والے قسم میں تھوڑی سی جدت لائی گئی اورVPT کے نام ایک اور فون آیا جس کو کیبل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اس میں اگرچہ کافی دور سے سگنل لانے کیلئے کیبل نہیں لانا پڑتا تھا تاہم کسی کے صحن میں نصب چھوٹے ٹاور کے انٹینا سے سگنل لانے کیلئے فون تک ایک لائن ضرور لانی پڑتی تھی اور اس سگنل سے صرف ایک فون چلتا تھا۔اب ایسا دور آیا کہ سائنس نے اب(G) کے حساب سے اس سسٹم کو اپ گریڈ کرنا شروع کیا۔ 
آئے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر (G)کا کیا مطلب ہے جو آج سب کی زبان پر آرہا ہے۔ جی ہاں! اس (G) کا مطلب ہے "جنریشن"۔سائنسدانوں نے جب 1980میں پہلا موبائل فون بنایا تو انہوں نے اس کو 1g یعنی پہلی جنریشن کا فون کہا اور اس میں کیبل کے بغیر یعنی ایسوسیٹ ڈگری انالاگ سگنل کو کمیونی کیشن کیلئے استعمال کیا جارہا تھا اور FDMA چینلائزیشن کابھی استعمال ہو رہا تھا ۔ اس سے صرف ہم ایک دوسرے تک اپنی زبان سے ہی بات کرسکتے تھے ۔1993سے 2Gکا زمانہ شروع ہوا جو پہلی جنریشن سے قدرے الگ تھا ۔اس میں ڈیجیٹل سگنل کا استعمال ہوتا تھا اور چینل کی تقسیم کاری کیلئے اس میںTDMA، CDMAاور GSM کا استعمال ہو رہا تھا ۔اس کے ذریعے آواز کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل مواصلات بھی فراہم کئے جارہے تھے اور کچھ حد تک اس میں آواز کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کا استعمال بھی کرسکتے تھے اور SMS بھیجنے کا آپشن بھی موجود تھا۔ اس کی GPRS جنرل پیکیٹ ریڈیو سپیڈ 50Kbps تھی۔
اس کے بعد تیسری جنریشن کے موبائل فون 2001میں متعارف ہوئے جن سے ہم سب پوری طرح سے واقف ہیں ۔اس سے ہم بہت سارے معلومات بغیر تار یعنی برقی رو کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیج سکتے تھے۔ اس زمانے میں ہم نے ای میل کا استعمال کرنا بھی سیکھ لیا۔ویب براؤزنگ اور ویڈیو ڈاؤنلوڈنگ بھی 3Gکی ہی ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس کے استعمال سے کم قیمت پر ڈیٹا نرانس میشن میں اضافہ ہوا، اور اس میںUMTS جیسی نئی ٹیکنالوجی بھی متعارف ہوئی ۔اس جنریشن میں 2Gکی کئی ٹیکنالوجیز کا بھی استعمال ہوتا تھا اور اس میں توقع کی جارہی تھی کہ اس کی جی پی آر ایس سپیڈ 200Kbpsتک پہنچ سکتی تھی۔ اس لئے اس کو 3G سروس کا نام دیا گیا تھا اور آواز میں قافی حد تک سدھار بھی دیکھنے کو ملاتھا کیونکہ پہلی اور دوسری جنریشن میں آوازیں کٹ کر اور دھیرے سے پہنچ رہی تھیں ۔
ابھی اسی کی طرف لوگ دھیان دے رہے تھے کہ اچانک چوتھی جنریشن ٹیکنالوجی وجود میں آئی اور اس سے پوری دنیا میں ہلچل سی مچ گئی کیونکہ چوتھی جنریشن ٹیکنالوجی بمقابلہ تیسری جنریشن ٹیکنالوجی الگ تھی ۔اس میں ہائی سپیڈ، ہائی کوالٹی اور زیادہ گنجائش و تحفظ بھی تھا ۔اس سے ایک شخص کو HD یعنی واضح قسم کی تصویریں اور ویڈیوز،انٹرنیٹ گیمنگ، ویڈیو کانفرنسنگ اور ویب براؤزنگ سستی ملنے کے علاوہ آن لائن دھوکہ دہی سے بھی تحفظ ملتا ہے ۔اس میںMIMO یعنی ملٹیپل ان پْٹ اور ملٹیپل آوٹ پْٹ کے استعمال کے علاوہOFDM یعنی آرتھاگنل فروکینسی ڈیویڑن ملٹی پْلیکسنگ کا بھی بھرپور استعمال ہوتا ہے اور ایک اہم سٹینڈرڈLTE یعنی لانگ ٹرم ایولیوشن ہے جو موجودہUMTS کو اپ گریڈ کرکے اس کی سپیڈ100Mbps یا 1Gbps تک بڑھا سکتا ہے۔
اب دنیا 5Gیعنی پانچویں جنریشن کی دہلیز پر اس تیاری میں لگی ہے کہ کب 5G لانچ کریں گے جبکہ کئی ممالک میں اس کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا ہے ا ورسروس بھی شروع کی گئی ہے۔ ہندوستان میں بھیJIO اور Airtel 2021 کے آخری حصے میں 5G چلانے کی تیاری میں لگے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس سے ایک نیا انقلاب ٹیلی کمیونیکیشن کے علاوہ زندگی کے باقی شعبہ جات میں بھی دیکھنے کو ملے گا کیونکہ یہ سب سے زیادہ ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی سے لیس ہوگا ۔اس سے ایک صارف کو 10gbpsڈیٹا سپیڈ ملنے کے توقعات ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے انسان گھر سے دور گھر کی سبھی چیزوں پر دسترس حاصل کرسکتا ہے اور ریموٹ سینسر کے ذریعے سے ریفریجریٹر، واشنگ مشین، ٹیلیویژن اور خودکار گاڑیوں کو بھی کنٹرول کرسکتا ہے اور کم سے کم توانائی خرچ ہوسکتی ہے ۔IC ٹیسٹنگ سے پتہ چلا ہے کہ 4G میں بیٹری ایک سے ڈیڑھ دن تک کام کرسکتی ہے جبکہ 5G سے بیٹری بچ سکتی ہے۔ اس میں کچھ نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں اور انسانی صحت پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ حال ہی میں دنیا کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اقوام متحدہ میں ایک پیٹیشن دائر کی ہے جس پر عالمی صحت تنظیم WHO نے بھی دستخط کئے ہیں۔ اس میں ماہرین نے 5Gکو لیکر خبر دار کیا ہے کہ سمارٹ فون یا ریڈیو انٹینا سے نکلنے والی شعاعیں برقی مقناطیسی میدانEMF پیدا کرتی ہیں جن سے کینسر ہونے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں اور پیڑ پودوں پر بھی برے اثرات پڑ سکتے ہیں ۔البتہ میڈیکل سائنس میں ترقی اور جدت دیکھنے کو مل سکتی ہے اور اس ٹیکنالوجی کی وساطت سے معالجین دور دراز علاقوں میں رہ رہے لوگوں کو اپنے ہی اسپتال میں رہ کر سرجری کرسکتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی اتنی زیادہ ترقی کرے گی کہ معالج اس کی مدد سے شروعات میں ہی بیماری کی تشخیص کرسکتے ہیں ۔
اس ٹیکنالوجی سے کون کون سے فائدے اور نقصانات ہوسکتے ہیں ،ان کا قبل از وقت انداز لگانا مشکل ہے تاہم ہم فی الحال5G کے آنے  کے منتظر 4Gسے بھی محروم ہیں کیونکہ سرکار نے ہم سے ڈیڑھ سال پہلے4G بھی چھینا ہے۔
ای میل۔[email protected]