’’ٹنگہ ڈولمُت بَر‘‘

یوں تو وادئ کشمیر نے بہت سارے شاعر،ادیب، قلمکار اور افسانہ نگاروں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اپنی فنی صلاحیت سے ادبی دوست حضرات کو محظوظ کیا ہےمگر آج میں فکشن سے وابستہ ایک ایسے قلمکار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنی فنی صلاحیت کی وجہ سے دبستان ادب کو اور بھی معطر کیا ہے خاص کر کشمیری زبان وادب کو آبیاری کرنے میں ان کا رول بنتا ہے ،وادی میں بہت سارے ادیب ایسے ہیں جو کشمیری زبان وادب کو محفوظ رکھنے کی بات تو کرتے ہیں مگر خود دنیا کی دیگر زبانوں میں اپنے فن کی طبع آزمائی کرتے ہیں ۔افسانہ نگاری کی اگر بات کریں تو یہاں افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے افسانہ نگاری کو اور بھی تروتازہ کیا ہے اور اس ادب کی آبیاری کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں ،ان افسانہ نگاروں نے اردو اور کشمیری زبانوں میں افسانے لکھ کر اپنا نام کمایا ہےاور کئی ایسے افسانہ نگار بھی ہیں کہ جو انگریزی میں بھی افسانہ لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان ہی افسانہ نگاروں میں نور شاہ، شہزادہ بسمل، وحشی سعید،طارق شبنم، سلیم سالک، پرویز مانوس، راجا یوسف،مشتاق مہدی، مجروح رشید،شکیل الرحمان کے علاوہ نوجوان افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے ۔اگر راقم ان کا نام لے لے گا تو مضمون طویل ہوگا، ان ہی افسانہ نگاروں میں سے ایک نام ہر کسی کی زبان پر آرہا ہے جن کا نام پروفیسر گلشن مجید ہے ۔جن کا ایک افسانوی مجموعہ"ٹنگہ ڈؤلمت بر"اس وقت میرے ہاتھوں میں موجود ہے۔ ٹنگہ ڈولمت بر ایک کشمیری الفاظ کا مجموعہ ہے ،جن سے شائد آج کی نوجوان نسل واقف نہیں ہے۔ میں جب بھی اس مجموعہ کے بارے میں سوشل میڈیا میں پڑھتا تھا تو یہی خیال آرہا تھا کہ ان الفاظ کا معنی یہی ہے کہ کوئی دروازہ جو تباہ وبرباد ہوگیا ہے مگر جب یہ مجموعہ مجھے اس کے ناشر گلشن کلچرل فورم کے بانی گلشن بدرنی سے موصول ہوا تو خوشی محسوس ہوئی کیونکہ اس مجموعے کی مجھے کافی تلاش تھی اس مجموعے کی اس کے ٹائٹل سے کافی مماثلت ہے۔ اس میں لگ بھگ تیرہ افسانے درج ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہے ،افسانوں کے موضوعات قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور قاری موضوع پڑھتے ہی افسانہ پڑھنے لگتا ہے کیونکہ ایک قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ آخر ان کامعنی کیا ہے۔ عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ افسانہ نگار اپنے افسانوں کو ایک لفظ کا موضوع دیتے ہیں مثلاً اگر ہم اردو افسانوں کی بات کریں تو ان کے افسانوں کو موضوع بھی ایک لفظی ہے ،قاری میرے مضمون کو پڑھ کر یہ محسوس کرے گا کہ اگر یہاں کشمیری افسانوی مجموعہ کی بات ہورہی ہے تو اردو افسانہ نگار کی بات کیوں آئی وہ بھی اس افسانہ نگار کی جو وادئ کشمیر سے تعلق نہیں رکھتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے پریم چند اور گلشن مجید کے افسانوں میں ایک مماثلت پائی ہے ،وہ یہ کہ گلشن مجید کے افسانوں میں بھی پریم چند کی طرح دہقان کی بات جھلک رہی ہے اور دیہات میں رہ رہے لوگوں کی کٹھن حالات میں جی رہی زندگی کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے حالانکہ آج کے دور میں دیہات قصبوں سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہیں ،ذریعہ آمدورفت اور رسل ورسائل کی اگر بات کریں تو دیہات بھی اس مسئلے میں خودکفیل ہیں ’’ٹنگہ ڈولمت بر‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ گلشن مجید ایک قابل ہونہار اور باصلاحیت افسانہ نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں ابھر رہے ہیں ۔ان کے افسانوں میں کشمیری زبان کے ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جن کا استعمال آج کل کم ہورہا ہے۔ اس سے دو طرح کے فائدے ملنے کے توقعات کئے جارہے ہیں ایک یہ کہ آج کل کے نوجوان ان الفاظ کے معنی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ،دوسرا یہ کہ ایسے الفاظ کتابی صورت میں موجود رہتے ہیں اور صدیوں بعد بھی انسان ایسے الفاظ کا استفادہ کرسکتا ہے اور اس سے کشمیری زبان وادب کو براہ راست تقویت ملنے کے توقعات زیادہ ہیں۔ ان کے افسانوں میں زندگی کی کشمکش کے علاوہ انسان اپنی زندگی کومحنت ومشقت میں صرف کرتے دیکھا گیا ہے، چاہے وہ کوئی عام شخص ہویا کوئی غیر معمولی شخص۔گلشن مجید کے افسانوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ افسانہ نگاری کے فن اور تکنیک سے باخبر ہیں ۔آپ کے پاس افسانہ تخلیق کرنے کی بھر پور تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔ قاری کو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، جدید دور کے نوجوان افسانہ نگاروں کو چاہیے کہ وہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں۔وقتی مسائل کے طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو یہ افسانے بہت ہی اہم ہیں گلشن مجید نے ان افسانوں میں پیر مریدی کے پہلؤوں کو بھی اجاگر کرکے پیر اور مریدین کے درمیان روابط اور مراسم کو بھی پیش کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ معتقدین پیر مریدی میں سے تعلق رکھتے ہیں ،انہوں نے ان افسانوں میں کسی غیر ریاستی یا غیر ملکی کردار کو چُن کر پیش نہیں کیا ہے بلکہ دیہات سے وابستہ لوگوں کی بول چال اور کرداروں کو چن کر افسانوں میں پیش کیا ہے۔ آپ کے افسانے پُردرد اور پرسوز بھی ہیں ،آپ نے غریب اورغریبی کے کٹھن حالات کو زیر فن لاکر مفلسی کی وکالت کرکےاس کو پرآشوب دور سے بھی نکال دیا ہے، گلشن کلچرل فورم نے یہ کتاب نشر کرکے کشمیری زبان وادب میں ایک اہم سنگ میل کو پار کیا ہے، جس کےلئے فورم بھی مبارکبادی کا مستحق ہے۔گلشن مجید نے اپنے افسانوں کو جدید رنگ میں رنگ کر ایک نئے پیرائے کو جنم دیا ہےیعنی آپ ایک جدید افسانہ نگار ہیں، جنہوں نے حقیقت کو دیکھ کر ان کوافسانوں میں بھر لیا ہے ’ٹنگہ ڈولمت بر‘ میں انہوں نےسماجی اور اقتصادی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہےاس لئے میں اس مضمون کو مختصر کرکے یہ لکھنا چاہتا ہوں کہ گلشن مجید جدید افسانہ نگاروں میں سے ایک جانے پہچانے افسانہ نگار ہیں اور امید کرتے ہیں کہ گلشن مجید کے مزید تخلیقات جلد از جلد چھپ کر آئیں تاکہ کشمیری زبان وادب کے شائقین ان کا مطالعہ کریں۔
(خانپورہ، کھاگ،7006259067)
�������