ٹائی کاknot بنانا ویسے تو اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا کہ ٹائی لگانے والے عقلمند کہتے ہیں لیکن یہ معاملہ اُس وقت مشکل بن جاتا ہے جب کوئی شریف بندہ ٹائی لگانے کا عادی نہ ہو اور اچانک اُسے ٹائی میں گا نٹھ ڈالنے کا حکم دیا جائے ‘یہ وہی بات ہوئی جیسے کہ ڈرائیونگ سے نا واقف کسی سواری کے ہاتھ میں اچانک اسٹیرنگ وہیل تھما دیا جائے اور گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی اُس کی سوچ کسی مافوق العالم میں پہنچ جائے وہ اُس کا پریشاں دماغ ہی جانے اور اس قسم کے جنگی ماحول کا سامنا راقم کو اس وقت ہوا جب ایک دن میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر شادی کی دعوت پر پہنچا تو وہ لوگ مجھے سوٹ بوٹ میں دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور میری بڑی آؤ بھگت کرنے لگے ۔ میں ان کی خاطر تواضع دیکھ کر تھوڑا سا حیران ہوا کہ یہاں تو دوسرے لوگ بھی اچھے اچھے لباس میں ملبوس ہیں توپھر سب لوگ میرے سوٹ بوٹ کو ہی کیوں گھور رہے ہیں لیکن یہ راز اُس وقت فاش ہوا جب مجھے دولہے راجہ کو ٹائی لگانے کے لئے کہا گیا ۔ یہ سنتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے تاہم ہمت جٹا کر میں سیدھے دولہے کے سنگار والے کمرے میں گھس گیا ۔ دولہے راجہ نے جونہی مجھے پکے سیب کی طرح کمرے میں پایا تووہ جلدی سے اٹھا اور مجھے گلے لگاتے ہوئے مایوسی بھرے لہجے میں بول پڑا ’’اگرآپ جلدی نہیں آتے تو مجھے ٹائی لگائے بغیر ہی سسرال جانا پڑتا ‘‘ ۔ یہ سنتے ہی میں ہکا بکا رہ گیا ۔ میں سوچنے لگا کہ اگر میں کہوں کہ میں بھی یہ نیک کام انجام دینے سے قاصر ہوں تو دولہے کے دل کے جو ٹکڑے ہوجاتے وہ تواور بات ہوتی لیکن اس وقت میرا نام جس عزت کے ساتھ ہر ایک کی زبان پر آرہا تھا ‘اس کا ستیا ناس ہوہی جاتا ۔میں نے دولہے کا کاندھا تھپ تھپاتے ہوئے کہا کہ فکر مت کرو ! بھلا یہ بھی کوئی بڑا کام ہے ۔ اُس وقت میرے ذہن میں صرف ایک ہی خیال آیا کہ یہ ٹائی کہاں سے خریدی گئی ہے ؟ میرے پوچھنے پر وہاں موجود ایک چالاک بچے نے جلدی تُکا پھینکا ‘کیوں انکل ناٹ بنانا آتا ہے ؟ یہ سنتے ہی میرا سوچنا بند ہوگیا لیکن جلد ہی اپنے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ کے سہارے میں اُسے پوچھ بیٹھا ’’ بیٹا تم کس اسکول میں پڑھتے ہو ؟‘‘ ’’سینٹ جوزف اسکول میں ‘‘ ۔ بچے نے اچھل کر جواب دیا ۔ اسکول کا نام سنتے ہی میری جان میں جان آگئی۔ میں نے سوچا یہ ضرور ٹائی لگاتا ہوگا ۔ اچھا بیٹا اگر تم دولہے راجا کو ٹائی پہناؤ گے تو میں تمہیں دس کا نوٹ دونگا اور یہ بھی دیکھونگا کہ تم اُس اچھے اسکول میں کیا کیا سیکھتے ہو ۔ بچہ دس روپے کا نام سُن کر بندر کی طرح ٹائی کے بکس پر جھپٹ پڑا اور بڑے سلیقے سے دولہے کی گردن میں ٹائی فٹ کردی ۔ میں نے بھی اب برکت کے لئے ٹائی کو اپنے ہاتھوں سے چھوئی اور سیٹ کرنے لگا۔ ہر طرف خوشی کا سماں بندھ گیا اور دولہے کے والد صاحب کو جب یہ خوش خبری سنائی گئی کہ ٹائی لگانے کا مسئلہ حل ہو گیا تو کمرے میں داخل ہوتے ہی انھوں نے مجھے گلے لگایا اور دولہے کے یار دوستوں کو جو کئی دنوں سے اُس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے ‘ہدایت فرمائی کہ اب سسرال جانے تک ہمارا شیر ہی دولہے کا سہارا بنے گا ۔ یہ سنتے ہی دولہے کے یار دوست مجھے گھورنے لگے اور اپنا سب سے بڑا حریف سمجھنے لگے۔
اصل میں بات یہ ہے کہ میں ٹائی پہننے کا عادی نہیں تھا۔ اس کے کئی راز تھے۔ سب سے بڑا راز دولہے کے باپ کی ہدایت تھی ۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتے تھے تو ہمیشہ ایک ہی نصیحت سے نوازتے تھے کہ بیٹا تم یونیورسٹی میں اگر چاہو تو کوٹ پینٹ پہنا کرو لیکن ٹائی لگانے کا نام تک نہیں لینا کیونکہ یہ انگریزوں کی نشانی ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ٹائی کا استعمال کرنا سخت گناہ ہے ۔میں نے کئی دفعہ انھیں بتانا چاہا کہ حضور !آپ قوم و نسل کو کپڑوں میں کیوں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں ‘انگریزوں کو اصل میں مسلمانوں نے ہی کپڑے کا استعمال کرنا سکھایا ہے، نہیں تو آج بھی وہ لوگ آدھے واسیوں کی طرح نصف سے زیادہ عریاں نظر آتے ‘ ویسے بھی اگر آپ سمندری ساحلوں پر دیکھیں گے تو انگریز لوگ آج بھی آدھے واسیوں کی طرح ننگے ہی نظر آینگے ۔ پھر میں یہ سوچ کرچُپ رہنا ہی پسند کرتا کہ ان کا دل مفت میں دُکھی ہو جائیگا کیونکہ بقول علامہ اقبالؔ’’ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔‘‘لیکن میں اُس وقت حیران رہ گیا جب اُن کے لڑکے یعنی میرے دوست کے گلے کو انگریزوں کی نشانی سے سجایا گیا تو وہ خوشی سے اتنا کیوں اچھل پڑے ؟خیر’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘۔
ٹائی ناٹ کا مسئلہ اُس وقت میرے لئے بہت بڑی ذہنی الجھن بن گیا جب مجھے لیکچررکی پوسٹ کیلئے کا انٹرویو دینا تھا ۔انٹرویو کی تیاری تو اپنے حد تک مکمل کرلی تھی ‘سوائے ٹائی باندھنے کے ۔ انٹرویو سے دو دن قبل میرے ایک قریبی دوست‘ جو آج کل شہر میں رہتا ہے ‘نے فون پر بتایا کہ انٹرویو کے دن سوٹ بوٹ پہن کر آنا اور ٹائی بھی لگانا کیونکہ وہاں پر ٹائی کا بڑا اثر پڑتا ہے ۔ یہ سنتے ہی میں ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا کیونکہ نہ مجھے ٹائی باندھنی آتی تھی اور نہ ہی میرے گاؤں کا کوئی آدمی ٹائی استعمال کرتا تھا ۔ بہرحال میں انٹرویو سے ایک دن پہلے ہی شہر کی طرف روانہ ہوا اور یہ سوچ کر ایک بڑے شو روم میں داخل ہوا کہ ایک تو ٹائی خریدونگا اور دوسرا دکاندار کو ہی ٹائی لگانے کے لئے کہونگا چاہے رات بھر مجھے ٹائی گلے میں کیوں نہ لٹکانی پڑے ۔ ٹائی خرید کر جب میں نے دکاندار سے کہا کہ آپ خود اپنے مبارک ہاتھوں سے مجھے یہ ٹائی پہنا دیجئے توشومئی قسمت وہ اس مبارک کام کو انجام دینے میں مجھ سے بھی اناڑی نکلا ۔ خیر میں نے ٹائی کو بیگ میں رکھا اور وہاں سے چل پڑا ۔ رات کو ٹھہرنے کا پروگرام اُسی دوست کے گھر میں تھا جو مجھے ٹائی پہن کر انٹرویو دینے کے لئے اصرار کرتا تھا۔رات کے دس بجے جب میں اُس کے ہاں پہنچا تو وہ بے قراری سے میرا انتظار کر رہا تھا۔چائے پینے کے بعد محفل سجی اور میں نے دوران گفتگو ٹائی لگانے کی بات چھیڑی لیکن مجھے اُس وقت سخت پریشانی لاحق ہوئی جب اُس کی باتوں سے پتہ چلا کہ وہ بھی اس معاملے میں میری طرح ناواقف ہے ۔رات بھر جب بھی میری آنکھ لگتی تو صرف ٹائی کے بھیانک خواب دکھائی دیتے ۔ صبح کی چائے کے بعد جب میں انٹرویو کے لئے روانہ ہونے والا تھا تو میرے دوست کا لڑکا کمرے میں نمودار ہوا ۔ میری نظر جب اُس کی اسکولی وردی پر پڑی تو میں نے اُسے ٹائی لگائے ہوئے دیکھا۔ میری خوشی کی انتہانہ رہی ۔میں نے جلدی جلدی ٹائی نکالی اور اُس کے ہاتھ میں تھما کر کہا بیٹا جلدی سے یہ ٹائی مجھے پہناؤ کیونکہ مجھے دیر ہو رہی ہے ۔وہ بھی چالاک نکلا اور بول پڑا‘ پہلے مجھے پانچ روپے دے دو ۔ میں نے پانچ کے بدلے پچاس کا نوٹ اُس کی جیب میں ڈالا اور کچھ ہی دیر میں ٹائی میرے گلے میں لٹکنے لگی اورمیں منزل مقصود کی طرف دوڑپڑا۔میں اب اطمینان سے انٹرویو دینے کے لئے ویٹنگ روم میں دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا ۔ ایک امیدوار انٹرویو دینے کے بعد جب میری بغل والی کرسی پر بیٹھا تو میں نے اُس کے ہاتھ میں ٹائی دیکھ کر پوچھا کہ آپ نے یہ کیوں نہیں لگائی ہے ؟میں انٹرویو دیتے وقت ٹائی پہنے ہوئے تھا لیکن آخر پر مجھے ٹائی کھولنے کو کہا گیا اور اسمیں ناٹ ڈالنے کے لئے کہا گیا ۔امیدوار کے یہ الفاظ سنتے ہی میرا دماغ گھومنے لگا ۔مجھے اپنے فلسفیانہ افکار اور علم دانی ہیچ نظر آنے لگی ۔میں سوچنے لگا کہ اگر انٹرویو میں ایسے ہی بے تکے سوالات کا حل کامیابی قرار پاتا ہے تو یہ بڑی بڑی ڈگریاں پھر کس کام کی۔مجھے پریشان دیکھ کر جب میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ یار کیا بات ہے ؟تو میں اُس کو ویٹنگ روم سے باہر نکال لایا اور بتایاکہ وہاں پر ٹائی ناٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ زور زور سے ہنستے ہوئے بولا ’’ چھوڑ یہ ناٹ واٹ وہاں تو کانٹؔکے بارے میں پوچھتے ہیں ‘‘۔ کاش ایسا ہی ہوتاتو میں کانٹؔ کے فلسفے پر اس طرح سے روشنی ڈالتا کہ خود کانٹ بھی اگر سنتاتو وہ حیران رہ جاتا۔مگر یہ ٹائی ناٹ۔۔۔؟
آخر کار وہ وقت آہی گیا جب مجھے انٹرویو کے لئے بلایا گیا ۔میں انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں پر تین انٹرویور تھے۔ ان میں سے ایک نے میرا سراپاایک ہی نظرسے ماپ لیا۔ میں سمجھ گیا کہ ٹائی کا سوال پوچھنے والی یہی عظیم شخصیت ہوگی ‘شاید اسے اس کام سے خاندانی لگائو رہا ہوگا۔ تقریباً بیس منٹ تک مجھے مختلف قسم کے سوالات پوچھے گئے اور ہر سوال کا جواب میں نے اپنی علمی بساط کے مطابق ٹھیک ٹھیک دینے کی کوشش کی اور ہر ایک انٹرویور ok,okکرتا رہا ۔اب آخر پر اُس آدمی ‘جس نے مجھے سر سے پاؤں تک ترچھی نظر سے دیکھا تھا ‘ نے ناک سکیڑتے ہوئے سوال پوچھاکہ’’ یہ ٹائی کہاں سے خریدی ہے؟‘‘ یہ سنتے ہی میرے دماغ میں جیسے دھماکہ ہوااور کان اور ناک سے دھواں نکلنے لگا۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرانظر آنے لگا ۔ وہ پھر سے بول پڑا ’’ٹائی کہاں سے خریدی ہے ؟‘‘ ’’شہر میں خریدی ہے۔ ‘‘ میں جلدی میں بول پڑا ۔ ’’بہت خوبصورت ہے! آپ جا سکتے ہیں ‘‘ یہ سنتے ہی میں وہاں سے نکل پڑا اور ویٹنگ روم میں ٹائی ناٹ کودیر تک سہلاتا رہا۔
���
وڑی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
موبائل نمبر؛9906834877 [email protected]